جہادی نظریہ کو نئی زندگی
ایسا لگتا ہے کہ ہماری تازہ دم جہاد فیکٹری اوور ٹائم کام کررہی ہے، پوری طرح تربیت یافتہ، اور پرجوش جنگجوؤں کی نئی کھیپ کی شام اور افغانستان کے جنگی تھیٹر میں سپلائی جاری ہے- داخلی اور بیرونی دونوں محاذوں پر کام کرنے کیلئے یہاں انتہا پسند رضاکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے- اگرچہ کہ اصولاً ابھی تک ان کی حیثیت غیر قانونی ہے، لیکن یہ تشدد پسند گروہ ابھی تک فعال ہیں اور جہاد کے نئے نئے محاذ تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں-
شام میں لڑنے والے غیر ملکی جنگجوؤں میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے بڑے گروہوں میں سے ایک ہے اور ان کی تعداد مزید بڑھے گی جیسے جیسے ملک میں سعودی اثر بڑھے گا- اس دوران میں، افغان محاذ پر بھی تیزی آرہی ہے -جیسے جیسے 2014ء میں امریکی سرکردگی میں غیر ملکی فوجوں کے انخلا کی آخری تاریخ قریب آتی جارہی ہے، اور اس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی عسکریت پسند افغانستان کے اندر داخل ہورہے ہیں کیونکہ اب افغانستان اپنی جنگ کے سب سے نازک مرحلے میں داخل ہونےوالا ہے-
اپنی شرطوں پر امن کا ایک معاہدہ پاکستانی طالبان کو وقفہ کا ایک نہایت اہم موقع فراہم کرے گا جس میں وہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار اپنی کارروائیوں پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دے سکیں گے- انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے مذہبی مدرسے ہمیشہ غیرملکی فوجوں سے لڑنے کیلئے رضاکاروں کی ایک نہ ختم ہونے والی سپلائی کا ایک اہم ذریعہ رہے ہیں-
پاکستانی مذہبی جنگجوؤں کی افغانستان سے کشمیر تک، چچنیا اور بوسنیا کی غیر ملکی لڑائیوں میں یہاں تک کہ، آذر بائیجان کے متنازعہ علاقے نگورنو-کراباخ میں بھی حصہ لینے کی کافی پرانی تاریخ ہے- لیکن 9/11 کے بعد بیرونی جہاد کا حلقہ اثر کافی محدود ہوگیا تھا، جس میں پاکستان عسکریت کے استعمال سے، جو اس کی اپنی علاقائی پالیسی کا حصہ تھی، پیچھے ہٹ گیا تھا-
لیکن اس حکمت عملی میں تبدیلی کا ردعمل یہ ہوا کہ عسکریت پسند شدید ناراض ہوگئے اوران کا سارا غصہ پاکستانی ریاست کے خلاف اعلان جنگ اور اندرونی جہاد کی صورت میں ظاہر ہوا- پاکستانی عسکریت پسند گروہوں پر پابندی، صحیح معنوں میں کبھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہوسکی- جہادیوں کے لئے افغانستان ایک وسیع میدان جنگ بن گیا اور نتیجتاً اس نفاذ کا ایک شائبہ بھی نہیں رہا کیونکہ ریاست نے عسکریت پسندوں اور فرقہ وارانہ گروہوں کی طرف سے اپنی آنکھیں مکمل بند کرلی تھیں-
جب شام اس عالمی جہاد کا مرکز بنا تو پاکستان کے عسکریت پسند جنگجو شام میں بشار الاسد کے خلاف جنگ لڑنے والے باغیوں کے ساتھ شامل ہوگئے- یہ جدوجہد جو شام میں جمہوریت کے نام پر شروع ہوئی تھی، اب وسیع تر شیعہ- سنی تنازعہ بن گئی ہے اور اب پاس پڑوس کے ممالک بھی اس خونی جنگ کا حصہ بن گئے ہیں-
شام کی خانہ جنگی بھی القاعدہ سے وابستہ جماعتوں کی اس تنازعہ میں موجودگی کی علامت بن گئی اور وہ اس جنگ زدہ علاقے میں ایک بڑی طاقت کے طورپر ابھرے ہیں- اس گروہ کے قبضہ میں شام کا ایک بڑا علاقہ ہے اور اس کے ساتھ عراق کے سُنّی اکثریت والے علاقے پر بھی ان کا تسلط ہے- اس نئے منظر نامے نے مغربی ملکوں اور دوسرے عرب ملکوں کو ہلا دیا ہے جو شام کے باغیوں کی سرگرمی سے حمایت کر رہے تھے- اور اب القاعدہ کی بڑھتی ہو ئی طاقت کو بےاثر کرنے کیلئے، یہ ممالک نام نہاد معتدل سُنّی ملکوں کا ایک اتحاد بنانے کی کوشش کررہے ہیں-
لیکن یہ کوشش ناکامی کا شکار معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ اعتدال پسند ممالک جبحت النصرۃ جیسی جماعتوں پر انحصار کرتے ہیں
جو القاعدہ کی ایک ذیلی تحریک ہے- القاعدہ کے بڑھتے ہوئے اثر کے خوف سے سعودی عرب نے اپنے ہم قوموں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے- ان کو زیادہ ڈر یہ ہے کہ یہ انتہا پسند جنگجو اپنے بندوقوں کا رخ سعودی فرمان رواؤں کی جانب نہ کردیں لیکن
اس بات نے سعودیوں کو باغیوں کی مالی مدد اور دوسرے ملکوں سے ہتھیار اور جنگجو فراہم کرنے سے نہیں روکا ہے-
پاکستان سے شام کیلئے دو طرح کے عسکریت پسند جاتے ہیں: وہ جن کا تعلق فرقہ وارانہ سنی جماعت لشکر جھنگوی سے ہے اور دوسری عسکریت پسند تنظیموں سے جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان ہے- پاکستانی عسکریت پسندوں کی شام میں موجودگی کا پہلی مرتبہ خبروں کی ان سرخیوں سے پتہ چلا جو پچھلے سال وہاں پولیووائرس کی موجودگی کے بارے میں تھیں جو پاکستان ہی سے وہاں پہنچا تھا-
یہ بات تو طے ہے کہ لشکر جھنگوی جیسے سُنّی فرقہ وارانہ گروہوں کیلئے لڑائی کا سب سے بڑا محرک اسد کی حکومت ہے جس میں شیعہ اکثریت نمایاں ہے- ان جنگجوؤں میں زیادہ بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی خدمات بلوچستان میں حاصل کی گئی تھیں، جو فرقہ وارانہ جنگ کا بڑا میدان بن چکا ہے- باقی لوگوں کا تعلق پنجاب اور کراچی سے ہے- اور صوبائی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق بلوچستان میں سعودی مالی امداد دینے والے گروپ کے ذریعے یہ لوگ بھرتی کئے گئے، اور انتظامیہ نے قصداً اس کی طرف سے آنکھیں بند کئے رکھیں-
کچھ رپورٹوں کے مطابق ٹی ٹی پی کے کمانڈر کہتے ہیں کہ انہوں نے شام میں بھی اپنی ایک شاخ قائم کر لی ہے- یہ بھی دراصل شیعہ مخالف نظریہ/ جذبہ ہے جس نے ٹی ٹی پی کو شام کے تنازعہ میں دخل اندازی کی تحریک دی ہے- طالبان کے لشکرجھنگوی اور دوسرے انتہا پسند سُنّی گروہوں سے گہرے مراسم ہیں-
شام میں لڑنے والے ایک طالبان جنگجو نے ایک غیر ملکی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شیطان سے لڑنے کیلئے خدا کی طرف سے ایک بہت بڑا انعام ہے چاہے اپنے گھر میں لڑیں یا باہر- ان تمام گروہوں کا القاعدہ سے بہت قریبی نظریاتی لگاؤ ہے اور وہ ان کے لئے النصرۃ جیسے گروہ کی طرح لڑنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں-
سب سے خطرناک منظرنامہ وہ ہوگا جب یہ جنگجو پاکستان واپس آئیں گے- پاکستانی جہادیوں کا شام کے معاملات میں الجھنا ایک بہت سخت ردعمل کا باعث ہوسکتا ہے اور فرقہ وارانہ آگ کو بھڑکا سکتا ہے- مشرق وسطیٰ میں فرقہ وارانہ تنازعہ کا پھیلاؤ اور اس کا باہرابال پاکستان کے اندر انتہا پسند شیعہ عناصر کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ الاسد کی شیعہ حکومت کی جانب سے جنگ میں حصہ لینے کیلئے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کریں- اس کے نتیجہ میں پاکستان میں پراکسی وار (Proxy War) کے بڑھنے کا خطرہ ہو سکتا ہے-
قومی اور ریاستی سطح پر انتہا پسندانہ نظریات کا غلبہ مگر ریاست کا ان سے انکار، جہاد انڈستری کو بھڑکانے کیلئے اس سے بہترحالات اور کیا ہو سکتے ہیں - ٹی ٹی پی کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات نے پہلے ہی جو تھوڑا بہت دباؤ دہشت گردوں کے اوپر تھا، کم کردیا ہے اور انہیں اپنے جہادی ایجنڈے پر عمل کرنے کا لائیسنس دے دیا ہے-
مشرق وسطیٰ میں ایک بےحد اشتعال انگیز صورت حال کے باعث حکومت پر یہ لازم ہے کہ اس پھیلتی ہوئی فرقہ واریت کی جنگ کے خلاف اصولی غیرجانبداری کی ایک محتاط پالیسی اپنائے- مگر اس کے بجائے وزیراعظم نے جانب دارانہ رویہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، جو ملک کے لئے انتہائی سنگین نتائج کا سبب بن سکتا ہے- یہ جہادیوں کی قوت میں بڑے اضافہ کا سبب بن سکتا ہے- جہاد انکارپوریٹڈ کو ایک نئی زندگی اور پاکستانی تشدد پسندوں کی غیرملکی تنازعات میں بڑھتی ہوئی شمولیت ملک کے استحکام اور سیکیورٹی کے لئے ایک خطرناک چیلینج ہیں-
ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری ۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔