نقطہ نظر

تباہی کے آثار

طالبان کےحمایتی نواز شریف کو خوفزدہ کر رہے ہیں کہ ان کے موکلوں کے آگے ہتھیار ڈالنے سے پس و پیش کیا تو قیامت آجائیگی-

تین ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کا بظاہر ایک دوسرے سے تعلق نظر نہیں آتا لیکن یہ ایک ایسے طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں جو پاکستان کے جمہوریت کے جہاز کو آخرکار ڈانواں ڈول کرسکتا ہے

یہ تین واقعات یہ ہیں: طالبان کے حمایتیوں کی مہم جو حکومت کو خوفزدہ کر کے اسے انتہاپسندوں کے سامنے جھکانا چاہتے ہیں، سعودیوں کی جانب سے بوری بھر ڈالروں کا تحفہ، اور مولانا شیرانی کا عورتوں کے حقوق کو زک پہنچانے کا منصوبہ- یہ تینوں واقعات ایک قدامت پسند سوچ کی عکاسی کرتے ہیں-

طالبان کے مقامی حمایتی میاں نواز شریف کو اس بات سے خوفزدہ کر رہے ہیں کہ اگر انھوں نے ان کے موکلوں کے آگے ہتھیار ڈالنے سے پس و پیش کیا تو قیامت آجائیگی- انھوں نے خوف کی ایک ایسی اعصاب شکن فضا پیدا کردی ہے کہ حکومت اپنے مقصد کو بھول بیٹھی ہے- مسائل کے موضوعات پر فیصلہ کئے بغیر، ان کا اجمالی جائزہ لئے بغیراور یہ سوچے بغیر کہ کن موضوعات پر بات ہوگی وہ ایلچیوں کی تلاش میں ہے جنھیں مکمل اختیارات دئے جائینگے- صورت حال خراب ہے لیکن اگر کوئی بھی فیصلہ خوف زدہ ہو کر کیا گیا تو پاکستان تنگ نظر لوگوں کی گود میں جا گرے گا-

سعودی حکومت کا بھاری بھرکم تحفہ بھی پاکستان کو قدامت پسندی کی طرف ڈھکیل دیگا- پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرے جو وہ ملک کے اندر یا باہر کرتا ہے- اس کی قیمت کیا ہوگی اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے- برطانیہ یہ کہا کرتا تھا کہ اس نے جو نوآبادی حاصل کی اس کی وجہ اسکی غائب دماغی تھی- لیکن پاکستان کی ریاست کا موکل بن جانا اس کی غائب دماغی نہیں کہا جاسکتا-

یہ کہنا کہ یہ ایک بے غرض تحفہ ہے جو پاکستان کے ترقیاتی فنڈ میں دیا گیا ہے احمقانہ باتیں ہیں- یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ہمارے اور بھی دولتمند دوست جناب اسحاق ڈار کی تھیلی میں تھوڑے بہت ڈالرز ڈال دیں، محض یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہم کسی واحد سرپرست کے ساتھ جڑے ہوئے نہیں ہیں- یہ منطق کہ یہ تحفہ بغیر کسی غرض کے دیا گیا ہے قابل قبول نہیں لگتی- جن لوگوں نے اسلامک یونیورسٹی کو پیسے دیئے وہ اس کے لبرل ریکٹر کو فارغ بھی کرسکتے ہیں- بھٹو اسلامی سربراہ کانفرنس کے خوشگوار راہ پر چلے تھے لیکن اس کے چھ ماہ بعد احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیدیا گیا-

اور، قدامت پسندوں نے عورتوں کے حقوق کی جانب جو مریضانہ رویہ اپنایا ہے اس پر، یعنی اسلامی نظریاتی کونسل(سی آئی آئی) کے نئے فتووں پر حیران ہونا بے معنی ہے- کونسل چاہتی ہے کہ مسلم فیملی لازآرڈیننس کی وہ شق ہٹا دی جائے جس کے مطابق دوسری شادی کرنے والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے اجازت لے نیز 1929 کے چائلڈ میریج ریسٹرینٹ ایکٹ سے وہ شق ختم کردی جائے جس کے تحت بچپن کی شادی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے-

عائلی قوانین کو پچاس برسوں سے نشانہ بنایا جارہا ہے- سب سے تباہ کن حملہ تو 1980-1970 میں کیا گیا جبکہ ضیاء الحق چاہتے تھے کہ سی آئی آئی 1960 کے آرڈیننس کو ختم کردے- اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے ایک نئی کونسل تشکیل دی تھی اور اس کو حکم دیا تھا کہ وہ عائلی قوانین پر نظرثانی کرے- اس کا جو نتیجہ نکلا ضروری ہے کہ ہم اس کا جائزہ لیں-

سی آئی آئی نے حکومت کی پوری بات نہ مانی اور صرف عورتوں کے تحفظ کی شرائط میں کچھ رد و بدل کیا- دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت کے بجائے، کونسل نے دوسری شادی کے لئے سیول جج کی منظوری ضروری قرار دی- جج دوسری شادی سے کسی شخص کو ان حالات میں منع کرسکتا تھا اگر وہ یہ محسوس کرے کہ اس شخص کے اتنے وسائل نہیں کہ وہ دونوں بیویوں سے مساوی سلوک کرسکے، یا وہ دوسری بیوی کو اس بات سے آگاہ نہ کرے کہ اسکی پہلے سے ایک بیوی موجود ہے- قانون توڑنے پر وہ سزا کا واجب ہوگا-

بچپن کی شادی کے بارے میں بھی کونسل نے یہ طریق کار تجویز کیا ہے کہ اس کے لئے بھی کسی سیول جج سے توثیق حاصل کی جائے- جج اس طرح کی شادی کی اجازت ایسی صورت میں دیسکتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ یہ شادی بچے کے مفاد میں ہے-

پہلی سفارش کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو بھی دوسری شادی کرنے کا بے دریغ اختیار نہیں ہے اور وہ پہلی بیوی کے مفاد کو نظراندازنہیں کرسکتا اور اسی دلیل کے مطابق پہلی بیوی کی اجازت کی حمایت کی جانی چاہیئے کیونکہ اسی وجہ سے جج مداخلت کرسکتا ہے- بالکل اسی طرح دوسری سفارش کا مطلب یہ ہے کہ بچپن کی شادی کو بچے کے مفاد میں روکا جاسکتا ہے-

اہمیت اس بات کی ہے کہ، یہاں اس قانون پر ضرب لگائی گئی ہےجو اصل میں اس لئے تجویز کیا گیا تھا کہ ہندو لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا جائےاور اسے قائد اعظم کی سرگرم مداخلت کی وجہ سے مسلمان لڑکیوں پر بھی لاگو کیا گیا- انھوں نے بچپن کی شادی کو"سنگین اور بھیانک برائی"اور "غیر انسانی فعل" قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ"شادی اسلامی قانون کے تحت ایک معاہدہ ہے" اور اگر کسی میں جرات ہے تو وہ ایسی آیت دکھائے"جس کے مطابق مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی شادی چودہ سال کی عمر میں کردیں"-

تاہم،سی آئی آئی کی سفارش پر تبصرہ کرتے ہوئے وزارت قانون نے کہا ہے کہ 1961 کا آرڈیننس مکمل طور پر غیر اسلامی ہے اور"اسلام کے تابناک چہرہ پر ایک سیاہ داغ ہے" اور اسے فوری طور پر منسوخ کیا جانا چاہیئے-

فیملی لا زآرڈیننس ضیاء کی حکومت میں بھی برقرار رہااور امید تو یہی ہے کہ وہ موجودہ ضرب بھی سہ جائے گا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ آج سے دس پندرہ سال بعد کیا ہوگا-

مولانا شیرانی کے حملہ کے وقت کے لحاظ سے ایک سوال کرنا مناسب ہوگا- جب پی پی پی کی مخلوط حکومت اقتدار میں تھی انھوں نے اپنے ہاتھ روک رکھے تھے اور انھوں نے یہ مسئلہ ایسے وقت اٹھایا ہے جب ان کی جماعت نئی حکومت میں شامل ہے اور پاکستانی طالبان کے دباو میں ہے- یہ عورتوں کی خوش قسمتی ہے کہ نواز شریف کی حکومت ضیاء کے ورثے میں یقین رکھنے کے باوجود اتنی مضبوط نظر نہیں آتی کہ ملک کی عورتوں کی مزاحمت کرے، اور بین الاقوامی سطح پر اچھوت بننے کا خطرہ مول لے یا جی ایس پی پلس کے یورو سے ہاتھ دھو بیٹھے-

جو لوگ علامہ اقبال کے فرمان کے مطابق، جنھوں نے علماء کی تنظیم کو سختی سے مسترد کردیا تھا کہ وہ اسلامی احکامات کی تشریح کرنے کے پارلیمنٹ کے حق میں مداخلت کرسکتی ہے، یہ چاہتے ہیں کہ سی آئی آئی کو تحلیل کردیا جائے، انھیں اندازہ ہوگا کہ حکومت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ وہ یہ اقدام اٹھا سکے-

لیکن حالات کو اس طرح حل کئے بغیر چھوڑا بھی نہیں جا سکتا- جلد یا بدیر کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا- صرف عورتوں کی ایک مضبوط تحریک ہی جسکی پشت پناہی جمہوری اور عقلی قوتیں کریں، اس بات کی یقین دہانی کرسکتی ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ عوام کے جمہوریت اورمساوات کے آئیڈیل کے مطابق نہیں ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ : سیدہ صالحہ

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔