پاکستان

روپے کی قدر میں اضافہ۔ مہنگائی میں کمی کی امید

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے سے امید ہے کہ روزمرہ استعمال کی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی ہوگی۔

کراچی: ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کو حاصل ہوتی قوت کو دیکھتے ہوئے پٹرولیم کی مختلف مصنوعات کے علاوہ بہت سی اہم اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں پانچ سے دس فیصد کمی کی امیدیں زندہ ہونے لگی ہیں۔

تجارت و صنعت کے اسٹیک ہولڈرز پیش بینی کررہے ہیں کہ مختلف اہم اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئے گی، اس لیے کہ اب انٹر بینک مارکیٹ میں ایک ڈالر سو روپے کے برابر ہوگیا ہے، جبکہ اس سے پہلے پچھلے دو مہینوں کے دوران روپے کی قیمت ایک ڈالر کے مقابلے میں 105 سے 106 روپے تک تھی۔ امریکی کرنسی دو مہینوں کے مختصر عرصے میں روپے کے مقابلے میں بلند ترین شرح مبادلہ 112 روپے کی حد تک پہنچ گئی تھی۔

پاکستان آئل ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) کے مینجنگ ڈائریکٹر آفتاب حسین اس تبدیلی کا سب سےزیادہ اثر پٹرولیم مصنوعات کی ملکی قیمتوں پر پڑتا ہوا دیکھتے ہیں، اس لیے کہ زرمبادلی کی قیمت کا راست تناسب اثر درآمدی قیمتوں پر پڑتا ہے۔

پاکستان اپنی ڈیزل کی ساٹھ سے پینسٹھ فیصد ضروریات کو درآمد کے ذریعے پورا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر روپے کی قدر میں اضافے کا یہ سفر جاری رہا تو اس کا پٹرول کی ملکی قیمتوں پر بہت مثبت اثر پڑے گا۔ لیکن حکومت کی جانب سے سیلز ٹیکس کی وصولی میں صارفین کے لیے اس کی قیمت کم ہوجانے سے کمی آجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس شرح مبادلہ کو مستحکم رہنا ضروری ہے، اور اگلے بیس دنوں میں روپے کی بڑھتی ہوئی قدر برقرار رہنے سے اس ماہ کے آخر تک قیمتوں پر نمایاں اثر پڑے گا۔

پاکستان آئل ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) کے مینجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ پچھلے مہینے ملک میں پٹرول کی قیمتیں روپے کی شرح مبادلہ 105 روپے کے حساب سے مقرر کی گئی تھیں۔ اور اب مارچ کے آخر میں توقع ہے کہ یہ رجحان قائم رہے تو پچھلے ماہ کے مقابلے میں ان قیمتوں میں کمی آئے گی۔

مثال کے طور پر بالفرض اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہتا ہے، پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ ڈیزل کی قیمت میں لگ بھگ تین روپے تک کی کمی آئے گی، بشرطیکہ حکومت کے ٹیکس اورتیل کی بین الاقوامی قیمتیں بھی موجودہ سطح پر ہی رہتی ہیں۔

کراچی ہول سیلرز گروسرز ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جی اے) کے انیس مجید کہتے ہیں کہ ’’بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی غذائی اشیاء میں پانچ سے دس فیصد تک گرجائیں گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل سے بھی طویل عرصے سے چلی آرہی قیمتوں پر اہم اثر پڑے گا، اور مجموعی طور پر غیرملکی قرضوں کی ادائیگی میں بھی کمی آئے گی، اس لیے کہ ڈالر کم قیمت پر خریدا جاسکے گا۔

غذائی اشیا کی قیمتیں آہستہ آہستہ نیچے جائیں گی۔ اس لیے کہ اس کا انحصار کارگو کی دستیابی پر بھی ہوگا۔

انیس مجید نے مزید کہا کہ بالفرض بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور روپیہ مسلسل مستحکم رہتا ہے تو ملکی سطح پر قیمتیں بھی مستحکم رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ درآمدی دالوں کی قیمتوں میں پانچ سے دس روپے کی کمی آئے گی، لیکن اس کا انحصار بین الاقوامی قیمتوں میں اور ڈالر کی انٹر بینک مارکیٹ قیمت 100 روپے پر ہوگا۔

دالوں، مسالوں، مشروبات دودھ وغیرہ کے درآمدکنندہ ہارون آگر دالوں، مسالوں، مشروبات اور پاؤڈر دودھ وغیرہ کی قیمتوں میں کم از کم دس فیصد کمی کا تخمینہ لگا تے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درآمد کنندگان عام طور پر دو یا تین دنوں کے دوران ڈالر اور روپے کی قیمتوں میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو آگے بڑھاتے ہیں، لیکن خوردہ فروش اس کو تھوک کی قیمت میں ہونے والی کمی کو صارفین تک منتقل نہیں کرتے۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ خوردہ قیمتوں کی نگرانی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ڈالر کی قیمت میں کمی سے درآمدی اشیا کی قیمتوں میں کمی کا مکمل فائدہ صارفین تک پہنچے۔

ایک ڈالر کی قیمت سو روپے کا مقابلہ ایک سو پانچ روپے کی قیمت سے کرتے ہوئے پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی وی ایم اے) کے سیکریٹری جنرل عمر اسلام خان امید کو امید ہے کہ گھی اور کوکنگ آئل کے پانچ کلو ٹن کی قیمت بیس روپے تک کم ہوجائے گی، جبکہ گھی اور کوکنگ آئل کے سولہ کلو ٹن کی قیمت میں پچاس روپے تک کمی آئے گی۔

پاکستان ٹی ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین حامد خواجہ کا کہنا ہے کہ چائے کی قیمت میں لگ بھگ تین سے چار روپے فی کلو کی کمی آئے گی۔ اگر ڈالر کی قیمت سو روپے پر برقرار رہتی ہے اور درآمدکنندگان اس قیمت پر ایل سیز کھولتے ہیں تو اس کا اثر ملکی قیمتوں پر اس وقت ظاہر ہوگا جب اس کی بحری جہاز سے ترسیل چھ ہفتوں کے بعد ہوگی۔

پاکستان میں برآمد کی جانے والی غذائی اشیاء جن میں پام آئل، چائے، دالیں، مسالے، پاؤڈر ملک، شکر اور دیگر غذائی اشیا ءشامل ہیں کی درآمد پر سالانہ چار سے پانچ ارب ڈالرز خرچ کیے جاتے ہیں۔