مذہب کی جبری تبدیلی پر ہندو برادری خوفزدہ
کراچی: کیا آپ جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے کے بعد ایک ہندو شخص کے ساتھ شادی کرنے والی اپنی بیٹی کو قبول کر لیں گے؟
یہ سوال رنکل کماری کے چچا راج کمار نے اتوار کو کراچی پریس کلب میں منعقد ہونے والے سیمینار 'پاکستان میں ہندو برادری – مسائل اور ان کا حل' کے دوران کیا۔
انہوں نے ایک چھ سالہ لڑکی جمنا کو سٹیج پربلایا اور حاضرین کو بتایا کہ جمنا اور اس کی دس سالہ بہن پوجا کو بھی مذہب تبدیل کرانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں لیکن معاملہ میڈیا پر آنے سے ایسا نہ ہو سکا۔
' جمنا اور پوجا جیسی چھوٹی بچیوں کو اسلام کے بارے میں کیا علم، یہاں تک کہ انہیں تو اپنے مذہب کے بارے میں معلومات نہیں۔ یہ ناانصافی کی انتہا ہے'۔
سیمینار میں شریک جمنا کے والد سوما نے بتایا کہ وہ میر پورخاص کی اختر کالونی کے رہائشی ہیں۔
'ہم بہت غریب لوگ ہیں۔ میری بیٹیاں گھر گھر مٹی کے کھلونے اور برتن بیچتی ہیں'۔
سوما نے مزید بتایا کہ چار فروری کو ان کی دونوں بیٹیاں معمول کے مطابق اپنی ٹوکری میں کھلونے لے کر نکلیں لیکن واپس نہیں آئیں۔
'اس پر ہمیں تشویش ہوئی اور میڈیا پر ہماری بچیوں کے گم ہونے کی خبروں کے بعد معلوم ہوا کہ وہ رجب پٹھان نامی شخص کے پاس موجود ہیں'۔
سوما نے بتایا کہ پولیس نے انہیں بچیوں سے ملنے سے روک دیا۔
'پھر عدالت نے گھریلو تشدد کے شک پر دونوں کو دارالامان بھیج دیا'۔
سوما نے بتایا کہ جمنا کو ان کے حوالے کر دیا گیا ہے، لیکن پوجا اب تک دارلامان میں رہ رہی ہے'۔
انہوں نے روتے ہوئے بتایا : پوجا کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگتی اور اس کی برین واشنگ کی گئی ہے کیونکہ وہ ہمارے بارے میں عجیب و غریب باتیں کرتی ہے۔
آل ہندو رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین کشن چند پروانی نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
' میں اس ملک میں پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہ چکا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہندؤں کے مسائل کبھی بھی ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے'۔
'ہم نے ہندؤں کے لیے شادی ایکٹ متعارف کرایا، لیکن حکومت کی مدت ختم ہو گئی اور اسے اسمبلی سے منظور نہیں کرایا جا سکا۔ اسی لیے کم سن ہندو لڑکیوں کو جبری مذہب تبدیل کراتے ہوئے ان کی مسلمان مردوں سے شادیاں کرائی جا رہی ہیں'۔
انہوں نے کہا: دنیا بھر میں اقلیتوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن پاکستان میں ہندو برادری کو ہر سطح پر ہراساں کیا جاتا ہے۔
سیمینار میں مزید کئی لوگوں نے بھی اپنی تکالیف بیان کیں۔
اس موقع پر سیمینار میں موجود تمام شرکاء نے تسلیم کیا کہ اسمبلیوں میں ان کے نمائندے اپنی اپنی پارٹیوں کی صرف جی حضوری کرتے ہیں۔
سیاست دان ڈاکٹر ریاض چانڈیو نے کہا کہ انہیں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے والی لڑکیوں سے کوئی مسئلہ نہیں۔
'لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ اس کی ایک مثال رنکل کماری کا معاملہ ہے'۔
کوئٹہ سے سابق وزیر جے پرکاش نے کہا کہ ان کی پارٹی اور حکومت ہندو برادری کی حمایت کرتی ہے۔
'مثلا، بلوچستان میں ہنگول ڈیم کے لیے مختص علاقے میں ایک پرانا مندر گرایا جا رہا تھا لیکن میری طرف سے یہ معاملہ اٹھانے پر حکومت نے نقشہ تبدیل کرتے ہوئے اسے گرنے سے بچا لیا'۔
مصنفہ اور شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا کہ وہ بالآخر اپنے حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے والی ہندو برادری کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
'ہرجگہ لوٹ مار چل رہی ہے لیکن اگر ایسا معاملہ ہندو برادری کے ساتھ پیش آ رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ لٹیرے جانتے ہیں کہ یہ برادری اپنا دفاع نہیں کر سکتی'۔
انہوں نے برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے حقوق کے دفاع کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔
سابق سینیٹر صفدرعباسی نے کہا کہ آج کل پاکستان میں صرف مندر ہی نہیں بلکہ مساجد، امام بارگاہیں اور گرجا گھر تک محفوظ نہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے اقبال بٹ نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے۔