نقطہ نظر

فرقہ وارانہ کشیدگی

پاکستان میں سنگین فرقہ واریت کے ذمہ دار جانے پہچانے مگر ریاست پھر بھی بے عمل ہے۔

جب امن و امان کی طرف آئیں تو جرائم ،عدم تحفظ اور سنگین خطرات سے نمٹنے پر ریاست کا ردِ عمل مختلف نظر آتا ہے، جس سے معروف کہانی مزید افسردہ بن جاتی ہے: پردہ پوشی اور مزید پردہ پوشی، بے عملی اور مزید بے عملی۔

جمعہ کو وفاقی دارالحکومت میں اہلِ سُنت والجماعت، اسلام آباد کے رہنما منیر معاویہ کا قتل خطرناک ہونا چاہیے لیکن یہ پہلے سے موجود اُس خونی فرقہ وارانہ جنگ کا ایک اور وار ہے، جسے روکنے میں ریاست ناکام نظر آتی ہے۔

اب اس میں حیرت کا تو کوئی خاص پہلو رہا ہی نہیں کہ اسلام آباد میں بھی اس طرح کے واقعات ہوسکتے ہیں، ویسے یہ ذکر یہاں مقصود بھی نہیں، بات تو واقعہ کے بعد اُس پولیس کے ردِ عمل کی ہے جس پر بھاری قومی مالیاتی وسائل صرف کیے جاتے ہیں۔

اب اگر سیکیورٹی حکام اسلام آباد کے قلب کو محفوظ نہیں بناسکتے تو پھر پشاور کوئٹہ اور کراچی میں کیا امید کی جاسکتی ہے؟

اگلا، ایک معروف سوال۔ فرقہ واریت کے بڑھتے دباؤ پر قابو پانے کے لیے حکومتی عملی کیا ہے؟ یقینی طور پر مسئلے کو نظر انداز کرنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔

پنجاب طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا قلب ہے اور اب جبکہ یہ پورے ملک میں پھیل چکی، پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے زیرِ اختیار پنجاب، بدستور اس بڑھتے مسئلے کا مرکز ہے۔

فوری طور پر، مسئلے کے طویل المدت حل کے لیے انہیں باہر نہیں رکھا جاسکتا: اس کے لیے ریاست کے مختلف عناصر، صوبہ اور وفاق کا بھرپور تعاون اور ان کی کوششیں درکار ہیں۔

ایک بار پھر فرقہ واریت کی شدت بڑھ رہی ہے، جس کی روشنی میں فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ عاشور کے موقع پر راولپنڈی میں ہونے والے سانحہ، جس کے بعد فرقہ واریت کی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی جاتی لیکن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اگلے سانحے کے رونما ہونے کا انتظار کرتے رہے۔

زیادہ تر واقعات میں انٹیلی جنس اہلکار فرقہ وارانہ قاتلوں اور عسکریت پسندوں کو جانتے ہیں۔ اگرچہ کبھی کبھار فرقہ وارانہ تشدد کے بے ترتیب واقعات بھی ہوتے ہیں تاہم زیادہ تر، اہم فرقوں میں، چھوٹے پیمانے پر یہ رونما ہوتے ہیں۔

وہ مذہبی رہنما جو واقعات پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہ بھی سبھی کے جانے پہچانے ہیں۔ لہٰذا اس کے بعد بھی ریاست بے عمل کیوں ہے؟ یہاں چند یقینی جوابات ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار