ویلکم کرسمس
مسجد ہو یا مندر یا گرجا گھر، دہشت گردی سے کوئی محفوظ نہیں. یہ ایک ناگہانی بلا ہے۔
ایک ایسی آفت، جس کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، بس سر پر آ کر انسانی جانوں کو نگل لیتی ہے۔
خوف و دہشت کے سائے اگرچہ چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ جو انسانی خون سے خود کو دبیز غلاف میں لپیٹ رہے ہیں جس کے پار دیکھنا کسی کے بس میں نہیں تاہم ہمارے تہوار اور خوشیاں دہشت کے خلاف بڑی جنگ کا درجہ رکھتی ہیں۔
خوف اور دہشت کے اس ماحول میں 25 دسمبر ایک ایسا ہی دن ہے جو ہمیں دنیا میں امن کا پیغام پھیلانے کا درس دیتا ہے۔
آج سے دو ہزار تیرہ سال قبل یروشلم شہر کے ایک اصطبل میں ایک بچہ آنکھ کھولتا ہے۔ تاریخ میں یہ دن 25 دسمبر درج ہے۔
یہ بچہ اپنی مختصر زندگی کے پرآزمائش سال تشدد کے خلاف تبلیغ کرتے گزارتا ہے۔
ہم شاہد ہیں اپنے ارد گرد ایک ایسے انسان کُش تشدد کے جس نے ہر کس و ناکس کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے، 25 دسمبر کرسمس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔
کہیں چرچ میں رنگا رنگ تقریبات کا انعقاد ہورہا ہے، جہاں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے اپنی خوشیاں بانٹ رہے ہیں۔ ہر چہرے پر رونق اور لبوں پر مسکراہٹ ہے۔
کہیں گھروں میں کرسمس ٹری کی سجاوٹ ہورہی ہے۔ بچے دیدہ زیب لباس پہن کر ٹری کی ٹہنیوں پر چراغ روشن کررہے ہیں۔
کہیں کوئی گلوکار اپنے گھر میں ٹری کے ساتھ بیٹھ کر ثنائے خداوندی کر رہا ہے۔
اسکول کے بچے دل جمعی کے ساتھ چرچ میں اپنی کمیونٹی کی تقریبات کی تیاریاں کررہے ہیں جن کا جوش قابل دید ہے۔ وہ دن کو ریہرسل کرتے ہیں تاکہ رات کی تقریبات میں چاند بن کر چمکیں۔
کرسمس سے پہلے آنے والے اتوار مسیحی برادری کیلئے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
چھٹی کے ان چند ایک دنوں میں وہ عبادت کرتے ہیں، مل بانٹ کر مٹھائیاں کھاتے ہیں اور ایک دوسرے سے خوشگپیاں کرتے ہیں۔