دنیا

ایٹمی معاہدے پر خلیجی ممالک کا خوف دور کرنے کی ایرانی کوشش

کویت میں پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ نے جلد سعودی عرب کے دورے کا ارادہ ظاہر کیا۔

کویت سٹی: ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کل بروز اتوار یکم دسمبر کو یہاں خلیج کی عرب ریاستوں کو یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کے ملک کا مغرب کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ ان کے مفاد میں ہے اور انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔

محمد جواد ظریف نے اپنے کویتی ہم منصب شیخ صباح خالد الصباح سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اس مسئلے کا یہ حل اس خطے کے تمام ملکوں کے مفادات پر کام کرے گا۔ یہ حل اس خطے کی کسی بھی ریاست کی قیمت پر نہیں ہے۔“

ایرانی وزیر خارجہ کایہ کسی خلیجی ریاست کا پہلا سرکاری دورہ تھا، انہوں نے کہا ”میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ نیوکلیئر معاہدہ اس خطے کے استحکام اور سلامتی کے حق میں ہے۔“

اسلامی جمہوریہ ایران نے پچھلے اتوار کو اپنے نیوکلیئر پروگرام کو محدود کرنے کے حوالے سے مغربی قوتوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا۔ دونوں عالمی طاقتیں اور اسرائیل تہران کے جوہری عزائم پر شبہات کا اظہار کرتے آئے تھے کہ وہ جوہری ہتھیار کی تیاری کے لیے ہیں، ایران نے سختی کے ساتھ اس الزام کو مسترد کیا تھا۔خلیج کی ایسی عرب ریاستیں جہاں سنی حکومت ہے، نے جنیوا معاہدے کا خیرمقدم کیا تھا، جو ایک طویل عرصے سے شیعہ ایران کے علاقائی عزائم پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی رہی تھیں۔

لیکن پچھلے ہفتے خلیج کی تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی یہ امید ظاہر کی تھی کہ یہ عبوری معاہدہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر ایک مستقل معاہدے کی جانب لے جائے گا۔

شام کے صدر بشار الاسد کی ایرانی حمایت کی وجہ سے خلیج تعاون کونسل کی چھ ریاستوں اور تہران کے درمیان تعلقات بگاڑ کا شکار رہے۔

خلیج تعاون کونسل تیل کی دولت سے مالا مال ریاستوں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے انتخاب کے بعد پڑوسی ملکوں خصوصاً خلیج کی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی امید ظاہر کی تھی۔

محمد جواد ظریف نے کویت سٹی میں کہا کہ ایران خلیج کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب کھولنا چاہتا ہے۔

وہ اپنے حالیہ غیرملکی دورے کے دوران عمان کا دورہ بھی کریں گے، اور انہوں سعودی عرب کے دورے کی تصدیق کی، تاہم انہوں کہا کہ اس کی تاریخ اب تک طے نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”ہم سعودی عرب کو اس خطے کا ایک اہم اور بااثر ملک سمجھتے ہیں۔“

اس کے علاوہ انہوں نے گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کے نتیجہ خیز دورے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تہران خلیج کے متنازعہ جزیروں پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا۔

جواد ظریف نے کہا کہ ایران کے تمام مطالبات کے حوالے سے جنیوا معاہدے میں مطمئن نہیں کیا گیا، یا ”دوسرے فریق کے مقاصد، لیکن یہ عملدرآمد کے لیے اہم ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”ہم اس معاہدے پر عمل کریں گے، اور جب اس پر عملدرآمد سے اعتماد میں اضافہ ہوجائے گا تو اس کے قائل ہوجائیں گے۔“

جواد ظریف نے کہا کہ شام کے تنازعے کا واحد حل سیاسی آپشن ہے، اور انہوں نے خبردار کیا کہ یہ خانہ جنگی اس خطے میں انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”ہم یقین رکھتے ہیں کہ شام کے مستقبل کا تعین شام کے لوگوں کو صرف بیلٹ بکس کے ذریعے ہی کرنا چاہیٔے۔ یہ سوچ کہ فوجی کاروائی کے ذریعے اس کا حل نکل سکتا ہے، یہ محض ایک واہمہ ہے۔“

جواد ظریف نے مزید کہا کہ ایران کو اگر شام کے معاملے پر جنیوا کی دوسری امن کانفرنس میں مدعو کیا گیا تو ایران اس میں شرکت کرے گا، لیکن پیشگی شرائط تسلیم نہیں کی جائیں گی۔