پاکستان

راولپنڈی: فرقہ وارانہ فساد، آٹھ ہلاکتوں کے بعد کرفیو نافذ

کرفیو آج رات بارہ بجے تک نافذالعمل رہے گا، جبکہ سیکیورٹی خدشات کے باعث موبائل سروس اتوار تک بند رہیں گی۔

راولپنڈی: پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں گزشتہ روز یومِ عاشورہ کے جلوس دوران دو گروہوں میں ہونے والے تصادم کے نتیجے میں کم سے کم آٹھ افراد کی ہلاکت کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر میں کرفیو نافذ ہے، جبکہ رواپنڈی کے خارجی اور داخلی راستوں کو سیل کردیا گیا ہے۔

اس واقعہ میں تیس سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، تاہم بعض نجی ٹی وی چینلز پر اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11 بتائی گئی ہے۔

شہر میں سیکیورٹی خدشات کے باعث موبائل فون سروس بھی بدستور معطل ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ شہر میں اتوار تک موبائل فون سروس بھی بند رہے گی۔

پنجاب حکومت کے ایک اعلامیے مطابق شہر میں کرفیو آج رات بارہ بجے تک نافذِ العمل رہے گا جس کا اطلاق کنٹونمینٹ بورڈ کے علاقوں پر بھی ہوگا۔

ہفتے کی صبح ڈان نیوز ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی کے رہائشی علاقوں میں لوگوں کو گھروں میں رہنے کے لیے مساجد سے اعلانات کیے گئے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شہر کی کشیدہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ راولپنڈی کے علاقے فوارہ چوک کے مقام پر نماز عصر کے وقت ماتمی جلوس کے قریب دو گروہوں میں تصادم اس وقت ہوا جب دس محرم کا جلوس اس راستے سے گزر رہا تھا۔ اسی دوران نامعلوم افراد کی فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی اور نامعلوم افراد نے ماتمی جلوس کو روک کر پتھراؤ کیا جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔

پولیس نے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ جلوس جائے وقوعہ سے گزر رہا تھا کہ اس دوران جلوس کے شرکا نے تضحیک آمیز رویہ اپنانے پر ایک مدرسے سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔

حکام کے مطابق نامعلوم مشتعل افراد نے فوارہ چوک کے قریب کپڑے کی مارکیٹ کو آگ لگا دی جس سے کروڑوں روپے مالیت کا کپڑا اور دیگر سامان جل کر خاک ہو گیا اور علاقے میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہو گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق واقعہ اس وقت رونما ہوا جب 10 محرم الحرام کا ماتمی جلوس سنی مکتبہ فکر کی ایک مسجد کے پاس سے گزرا جہاں اس وقت خطبہ جاری تھا۔

راولپنڈی ڈسٹرکٹ اسپتال کے آفیشل قاسم خان کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے جبکہ واقعے میں 44 افراد زخمی بھی ہوئے۔

اے ایف پی کے مطابق اس موقع پر مشتعل نوجوانوں نے دوسرے گروہ پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ موقع پر موجود صحافیوں کے کیمرے بھی توڑ دیے۔

ایک پولیس افسر افضل حسین نے اے پی کو بتایا کہ پولیس نے تصادم کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس دوران دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ہونے والے پتھراؤ سے پولیس افسران زخمی ہو گئے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے یوم عاشورہ پر راولپنڈی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کا نوٹس لیتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کر لی۔

شہباز شریف نے فسادات کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت قانونی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔

متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ہنگامہ آرائی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صورتحال پر قابو پانےکے لیے ہر ممکن اقدامات کیےجائیں۔

مجلس وحدت مسلمین اور جعفریہ الائنس نے بھی ہنگاموں کی مذمت کی اور حکومت پنجاب سے فائرنگ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔

راولپنڈی دارالحکومت اسلام آباد سے صرف چند منٹ کی دوری پر واقع ہے جہاں پاکستانی فوج کا صدر دفتر جی ایچ کیو بھی موجود ہے۔

پاکستان میں اس پہلے بھی متعدد بار اہلِ تشعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جاچکا ہے اور ان میں اکثر واقعات صوبہ بلوچستان میں رونما ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ کزشتہ سال بم دھماکوں اور دیگر واقعات میں اہل تشعہ مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے سو افراد کو ہلاک کیا گیا جن میں بچے اور ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔