نقطہ نظر

نسخۂ عبدالغفور، ہربلا دور

جہاں یہ حضرت موجود ہوں وہاں ڈاکٹروں سمیت تمام بلائیں پناہ مانگتی ہیں۔

چوہدری عبدالغفور کتاب "جہاں ڈاکٹر نہ ہو" کا چلتا پھرتا انسانی ورژن ہیں۔ جہاں یہ ہوں وہاں ڈاکٹروں سمیت تمام بلائیں پناہ مانگتی ہیں۔ ان کو چوہدری عبدالغفور کہنے والے کم اور آپا کہنے والے زیادہ ہیں۔ حالانکہ نہ تو یہ مشہور ومعروف جگت آپا کی طرح سج دھج کر رہتے ہیں، نہ ہی ان کی بانہیں رنگ برنگی چوڑیوں سے بھری رہتی ہیں اور نہ ہی وہ نت نئی کامدانی ساڑھیاں پہنتی ہیں، لیکن انہیں "آپا" ہی کہا جاتا ہے۔ اور وہ کوئی نسوانی شخصیت تو ہیں نہیں کہ اس طرح کا کوئی اہتمام کریں، یعنی بظاہر تو مرد ہی ہیں۔ لیکن انہیں مشہورِ زمانہ اصلی تے وڈّی جگت آپا سے کہیں زیادہ ردّبلا قسم کے ٹوٹکے ازبر ہیں۔

لوگ اب تک شش وپنج میں ہیں کہ چوہدری عبدالغفور کے اعمال زیادہ سیاہ ہیں یا اُن کی صورت؟ ان کے خاندان میں کوئی بھی ایسا سیاہ چہرہ لے کر پیدا نہیں ہوا، کرتوت شاید اُن کے زیادہ سیاہ ہوں گے، لیکن چہرے کی سیاہی میں انہی کو یدِ طولیٰ حاصل ہے۔

بعض بڑی بوڑھیوں کا خیال ہے کہ ان کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ محترمہ نے کاجل کھا لیا تھا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کی عادت تھی کہ وہ جو بھی چیز پکاتی تھیں، جلا دیتی تھیں۔

ان کے پورے خاندان میں دور دور تک کوئی بھی سانولا نہیں تھا، پھر نامعلوم کیا وجہ تھی ان کے اس قدر پکے رنگ کی؟

اصل حقیقت تو اُن کی والدہ مرحومہ ہی جانتی ہوں گی، لیکن برسوں پہلے وہ دوسری دنیا کو سدھار گئیں اور وہاں پہنچ کر وہ اوّل روز سے ہی آپا کی منتظر ہیں، یہاں بھی بہت سے ان کی روانگی کے منتظر ہیں اور بعض نے تو اس بات کا یقین دلانے کی بہتیری کوشش کرڈالی لیکن ان کا فی الحال فوت ہونے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔

کہتے ہیں کہ سیاہی میں بھی کشش ہوتی ہے، لیکن آپا! معاف کیجیے گا، چوہدری عبدالغفور کے چہرے کے خدوخال خاصے بھیانک ہیں، ہمارے دوست نون کا خیال ہے کہ یہ ان کی گندی سوچ کا اثر ہوسکتا ہے۔

مہندی سے رنگی اُن کی داڑھی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے تارکول میں آگ لگی ہو۔ موٹرسائیکل پر آتے جاتے تیز ہوا کی وجہ سے وہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور اندھیرا ہو تو چہرہ نظر نہ آنے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل دنیا کی سب سے بڑی مونچھوں والے شخص کو دیکھ رہے ہیں۔

اب ذکر ہوجائے کچھ ان کے ردّبلا قسم کے ٹوٹکوں کا۔ دنیا کی کوئی بھی سبزی ہو یا پھل، ان کے سامنے آجائے  تو وہ اس میں ایسی ایسی خوبی ڈھونڈ نکالتے ہیں، جو ابھی سائنس کے سامنے بھی نہیں آسکی ہے۔

مثلاً:

امرود ہرقسم کے دردِ مردود کا علاج ہے۔

"اللہ کافی اللہ شافی" پڑھ کر روزآنہ کافی پی جائے تو کافی بیچنے والے دکاندار کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔

ایک کلو کلونجی کو ایک لیموں کے رس میں اچھی طرح بھگا کر دھوپ میں سکھالیں، خشک نہ ہو تو چولہے پر رکھ کر خشک کریں۔ اگر جل جائے تو یہ عمل دوبارہ کریں۔ دھوپ میں خشک ہوجائے تو مکھیوں کی لاشیں اور چوہوں کی مینگنیاں نکال کر اچھی طرح پیس لیں، اور ایک ایک چمچ روزانہ پھانک لیں۔ کلونجی احتیاط سے شیشے کے مرتبان میں سیل پیک کرکے رکھ لیں اس سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔

کافور کی دو درجن گولیوں کو ایک کلو آٹے میں پیس کر دو سیر نمک کے تیزاب گھول کر........اگر کھالیا جائے تو زندگی کی تمام مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔

صبح سویرے بیدار ہو دس دانے بادام، بارہ دانے پستے کے اور پچاس گرام چار مغر کو ایک لیٹر دودھ میں اچھی طرح پیس کر مکس کرلیں اور پھر گھر کا دروازہ کھول کر باہر پھینک دیں۔ دو دن ایسا کریں گے تو آپ کا دماغ روشن ہوجائے گا، اور آپ کو اچھی طرح عقل آجائے گی۔

گھر میں روزآنہ شام کے وقت لوبان کی دھونی دی جائے اور ہندوستانی گلوکار ہمیش ریشمیا کے گانے بلند آواز میں سنے جائیں تو کاکروچ ختم ہوجاتے ہیں۔ گھر سے چھپکلی بھگانے کے لیے نصیبو لال یا عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے خراب اسپیکر پر سنے جائیں۔

اگر اس دوران لوبان کی دھونی کے بجائے پکّے سگرٹ پیئے جائیں تو چھپکلیاں ایسے گھروں پر چار حرف بھیج کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتی ہیں۔

گھر میں موجود تمام مسالوں کی یکساں مقدار میں پیس کر چورن بنالیں۔ اور اس کو کسی ایسی جگہ رکھیں جو سب کی پہنچ سے دور ہو۔ اس نسخے سے پیٹ کے جملہ مزمن اور غیر مُزمن امرض دور ہوجاتے ہیں۔

تمام سٹھیائے ہوئے بڈھوں کی طرح وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ لوگ اُن کی ناقدری کررہے ہیں، ورنہ اگر ان کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو ہمارا ملک کب کا جنت نشان بن چکا ہوتا۔ نون کا کہنا ہے کہ جنت تو شاید کب کا ہی بن چکا ہے، اس لیے کہ جنت میں بھی مر کر ہی داخل ہوا جاسکے گا، اور ہمارے ہاں بھی مُردہ دل، مُردہ پرست، مُردہ ذہن، مُردہ سوچ کے حامل لوگوں کی اکثریت ہے۔

کافی عرصے سے وہ کوشش کررہے تھے کہ انہیں کسی ٹی وی چینل پر موقع ملے اور وہ لوگوں کے مسائل اپنے توپ نسخوں کے ذریعے حل کرسکیں۔

نون کا کہنا تھا کہ جو ان کے نسخوں پر عمل کرے گا، اس کے مسائل یقیناً حل ہوجائیں گے، کہ اس کی زندگی موت میں حل ہوکر غائب ہوجائے گی۔

بہت کوششوں کے بعد انہیں پنجابی زبان کے ایک مقامی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام مل گیا، گوکہ یہ ایک ہی پروگرام آن ایئر جاسکا، لیکن انہوں نے اپنے کیبل والے کو کچھ دے دلا کر علاقے کے نیٹ ورک پر اتنی بار چلوایا کہ لوگوں کو ازبر ہوگیا۔

اس پروگرام کا نام تھا:

تہاڈے وسائل....ساڈے مسائل دا حل

ہم یہاں اس کی ایک جھلک آپ کے لیے بھی پیش کررہے ہیں۔

میزبان....(چنری مروڑتے ہوئے) ناظرین!.... تہاڈے وسائل ساڈے مسائل دا حل....پروگرام دے نال حاضر ہیں....نال کھلوتے ہیں چوہدری عبدالغفور کھرڑیاں والوی....اے تہاڈے سوالاں دے جواب دیندے ایں....چلو جی چوہدری  صاحب شروع ہوجاؤ....

(چوہدری عبدالغفور صاحب جیب سے چرس نکال کر ہاتھوں میں مسلنے لگتے ہیں، میزبان گھور کر دیکھتی ہے، تو واپس رکھ لیتے ہیں)

میزبان: ناظرین تہاڈی کالاں دی لائن لگی پئی اے....پہلی کال اے، بھائی پھیرو تاں....کی نام اے تہاڈا....؟؟؟

کالر: ہائے مرجاواں کنّی سونہڑی آواز ہے....تسی وڈی پیاری ہو....ساڈا دل کردا اے........

میزبان:(زیرلب بڑبڑاتے ہوئے) اے کی بکواس اے....(پھر پلّو درست کرتے ہوئے) ناظرین فنّی خرابی دے نال کال کٹ گئی اے تے اسی دوسری کال لیتے ہیں....جی....یہ چھانگا مانگا توں کالر ایں منّو پہلوان....جی پہلوان جی....

کالر: ہیلو....ہیلو....ہیلو....ہیلو....

میزبان: تسی زور سے بولو....ہور تہاڈا مسئلہ کی اے، او گل کرو....

کالر: ہیلو....ہیلو....ہیلو....ہیلو....

میزبان: کچھ آگے وی بکو

کالر: بہن جی مسئلہ میرا اے ہے تے میرا منہ افتخار ٹھاکر ورگا ہوگیا اے....لوکی کیندے نیں تے کھوتے ورگا اے....میں وڈا پریشان آں....چوہدری جی اس واسطے کوئی وظیفہ تو عنایت کرو....!!

میزبان:(اونگھتے ہوئے چوہدری عبدالغفور کو ٹھوکا دے کر) چوہدری جی تُسی پہلوان جی دے مسئلے دا حل بتاؤ....!

چوہدری عبدالغفور کھرڑیاں والوی: پہلوان جی تہاڈے مسئلے دا حل اے ہے تے تُسی ٹُردے فِردے وضو بے وضو ....فٹے منہ، فٹے منہ....دا ورد کریا کرو....رب دی ذات شفا دے گی....!!


جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔