نقطہ نظر

تعلیم یا کاروبار

یہ تجارتی سوچ ہی تو ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام معاشرے کو معقول اور شائستہ تعلیم دینے سے قاصر رہا ہے۔

تعلیم کسی بھی قوم کی معاشی، معاشرتی، شعوری، اور اخلاقی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کرتی  ہے۔ آج دنیا میں جتنی بھی ترقی یافتہ اقوام ہیں، لگ بھگ سب ہی میں تعلیم کی شرح  پچا نوے فیصد سے زیادہ ہے۔

بعض رپورٹوں میں پاکستان میں تعلیم کی شرح پینتالیس فیصد بتا ئی گئی ہے، جو اکثر ماہرین کے خیال میں مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ صرف ہمارا یہی ایک مسئلہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں شرح تعلیم ہی کم ہے بلکہ اس  کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جو تعلیم دی جارہی ہے اُس کا  معیاربھی نہایت پست ہے۔ مثال کے طور پر جو چیزیں ہمارے ہاں  انٹرمیڈیٹ میں پڑھائی جاتی ہیں، وہ ترقی یافتہ ممالک میں طلباء وطالبات پانچویں یا چھٹے اسٹینڈرڈ  میں پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ جو کچھ بھی ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جارہا ہے، کیا کبھی اس پر غور کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے طلباء کے ذہنوں میں بھی اُتر رہا ہے یا نہیں ؟

ہمارے خیال میں ملکی تعلیمی نظام کی جو سب سے بنیادی خرابی ہے، وہ یہ ہے کہ اِس نظام کے تحت زیادہ تر وہی طلباء وطالبات اچھے نمبر لینے میں کامیاب ہوتے ہیں جو ”رٹّا“ اچھا لگا سکتے ہیں۔ زیادہ تر طالبِ علم الفاظ کو حفظ کرتے  رہتے ہیں اور مضامین کے مفہوم سے یکسر نابلد رہتے ہیں، یوں اکثر کو  یہ علم  ہی نہیں ہوپاتا کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے۔ کیا یہ صورتحال ہمارے تعلیمی نظام  کے موجودہ دور اور اس کے تقاضوں سے لاتعلق ہونے اور اس میں موجود فرسودہ پن کی نشاندہی نہیں کررہی ہے؟

ایک ہی ملک میں مختلف سطحوں پر پڑھایا جانے والے نصاب سراسر متضاد نوعیت کے ہیں۔  پاکستان میں گورنمنٹ کی تعلیمی پلاننگ اتنی ناقص ہے کہ طالب علموں پر کتابیں خریدنے کے لیے تو بھر پور زور دیاجاتا ہے، لیکن اکثر کورس کی کتابیں  مارکیٹ میں ناپید ہوتی ہیں۔ طلباء کتابوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بعض پبلشرز اپنے منافع کے لیے کتابوں کے نئے نئے ایڈیشن شائع کرتے رہتے ہیں، جن میں صرف ٹائٹل کے علاوہ کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی۔ کتابیں بروقت  دستیاب نہ ہونے  کی وجہ سے طالب علم اور اُن کے والدین بھی شدید پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔

کبھی کبھی  جب تعلیمی شعبے کے کرتا دھرتاؤں کے دل میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے  کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، تو  وہ ہرسال نت نئے سلیبس بناکر اور اُن میں تبدیلیاں کرکے اپنے اس جذبے کی تسکین کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنا فرض پورا کردیا ہے۔ اِس سے تعلیمی معیار  پر تو کبھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا، لیکن دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ طلباء اچھی خاصی مصیبت میں پڑ جاتے  ہیں۔ اکثر طلباء اس حوالے سے شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے  ہیں کہ پیپر کس طرح کا آئے گا اور کس سلیبس میں سے آئے گا۔ اِن تبدیلیوں سے ناصرف طالب علم بلکہ اساتذہ بھی تذبذب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں درس وتدریس کا تمام تر طریقہ کار مقابلے بازی پر مبنی محسوس ہوتا ہے۔ بہت سے طالبعلموں کو مقابلے بازی کی اس اذیّت اور پوزیشن نہ آنے پر والدین کے غم و غصے کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

کاروبار کی تعریف ہے ”ایسا کوئی کام جو منافع حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔“

کیا ہمارے ملک کے بہت سے تعلیمی ادارے مذکورہ اصول کے تحت کام کرتے  نظر نہیں آتے ہیں؟

بہت سے تعلیمی ادارے طلباء کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ہر سال اشتہارات پر لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن اکثر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اس قدر اخراجات تو کجا محض توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ اس بھیڑچال میں  بعض حکومتی ادارے بھی نجی اداروں سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔

سب سے پہلا مسئلہ  تو ہمارے ہاں تعلیمی اداروں کی ہوشربا فیسیں ہیں، اِس کے علاوہ  کتابوں کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی اپنے بچوں  کو اعلیٰ تعلیم دلوانے سے قاصر ہے۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایسے طلباء جوآگے پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں، اُن میں سے زیادہ تر  کالجز اور یونیورسٹیز کی بھاری فیسیں  جمع کرانے سے قاصر رہتے ہیں۔  کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ واپس اپنے مقام پر چلے جائیں اور کسی دُکان پر یا مکینک وغیرہ کے ساتھ کام کریں؟

ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم معاشرے کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے نہ کہ بھیک یا کوئی  رعایت! اس لیے تعلیم کے شعبے کو  تجارتی منافع کی طرح  استعمال کرنا انسانیت کے خلاف ایک جرم سمجھنا چاہیے۔ یہ تجارتی سوچ ہی تو ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام معاشرے کو معقول اور شائستہ تعلیم دینے سے قاصر رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مختلف طبقات میں تقسیم ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم بھی  ہمارے نوجوانوں میں لالچ، استحصال اور حسد پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانے میں ممد ومعاون بنتا رہا  ہے۔ متمول گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اکثر طلباء وطالبات  میں پایا جانے والا اعلیٰ و ارفع ہونے کا احساس بعض اوقت ایک طرح کے نفسیاتی عارضے میں تبدیل ہوجاتا ہے جس میں مبتلا ہو کر وہ پسے ہوئے طبقات کو حقارت اور نفرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، اس لیے  کہ عام طورپرانسانوں کی سماجی سوچ اور رجحان اس طبقے کی معاشی ضروریات پر منحصر ہوتے ہیں جس وہ تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب ایسے نوجوان زندگی کے مختلف شعبوں میں قدم رکھتے ہیں تو نچلے طبقات کے لیے ان کا حقارت آمیز جذبہ انہیں مفادِ عامّہ کے کاموں سے روک دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے ملک میں عام شہریوں کی سہولت اور ان کے فائدے کےلیے منصوبوں پر سنجیدگی اور خلوص نیت کے ساتھ غور وخوض ہی نہیں کیاجاتا۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان تعلیم کے شعبے پر دنیا میں سب کے کم خرچ کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ جس کا نتیجہ اس المیے کی شکل میں برآمد ہورہا ہے کہ پاکستان میں ساٹھ فیصد بچے پرائمری اسکول کی سطح تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ لڑکیوں کے معاملے میں حالات اوربھی زیادہ افسوسناک ہیں۔ ریاست کی عدم توجہی کے باعث تعلیمی نظام کی اس برباد صورتحال  کا سب سے زیادہ فائدہ نجی شعبے نے اُٹھایا ہے، جسے اتنا بھاری بھرکم  منافع شاید کسی  اور شعبے میں نصیب نہ ہوسکے۔ جبکہ نجی شعبے کے بہت سے اساتذہ شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہیں اور بیشتر  کے لیے ٹیوشن کی آمدنی آخری سہارا بن کر  رہ گئی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے بعض قابل اساتذہ چاہے جس قدر کوشش کرلیں وہ اپنے طالبعلموں  کو اپنی مرضی سے نہیں پڑھا سکتے، کیونکہ انہیں تقریباً روزانہ ہی اسکول انتظامیہ کی جانب سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کے  رزق کی ضمانت انہی طالبعلموں  کے ہاتھ میں ہے اور اگر انہوں نے ذرا بھی سختی سے کام لیا  یا کسی طالبعلم کی طرف سے ان کے متعلق کسی بھی قسم کی شکایت ملی تو انہیں کوئی بھی بہانہ بنا کر مثلاً محض پڑھانے کے طریقہ کار کا ہی شکوہ کر کے نوکری سے نکال برخواست کردیا جائےگا۔

دوسری طرف سرکاری اداروں میں ایسے  خودغرض اساتذہ بھی موجود ہیں جو یہ ملازمت لاکھوں کی رشوت دے کر حاصل کرتے ہیں تا کہ پنشن مل سکے اور بغیر کسی کام کے معقول معاوضہ بھی۔ سرکاری اسکولوں میں میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرواکے لمبی رخصت بھی مل جاتی ہے، ساز باز کر کے حاضریاں بھی لگوائی جاسکتی ہیں اور سرکاری اسکولوں کے بعض اساتذہ تو اتنے غیر حاضر رہتے ہیں کہ طالبعلم ان کی شکل تک بھو ل جاتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر شاید اپنی پرائیویٹ اکیڈمیز سے ایک دن کے لیے بھی غیر حاضر نہیں رہے ہوں گے، کیونکہ وہاں مسئلہ چند ہزار کی تنخواہ کا نہیں بلکہ لاکھوں کی آمدنی کا ہے جو علم کی دولت کو بیچ کر حاصل ہوتی ہے۔

اکثر درمیانے طبقے کے نوجوان جب عملی طور پر سماجی زندگی کا حصہ بنتے ہیں تو وہ زندگی کی ہر نعمت کو خود سے دور محسوس کرتے ہیں اور طبقاتی نظام  کی مضبوط گرفت کو دیکھ کر ہر اُس شخص کو ڈاکو یا کرپٹ سمجھنے لگتے ہیں، جو معاشی لحاظ سے ان سے بہتر ہو۔ اکثر اس حقیقت کی طرف دھیان بھی نہیں دے پاتے  کہ ان کی اس حالت کی ذمہ داری  حقیقی معنوں میں کس پر عائد ہوتی ہے؟

 یوں ان میں سے بعض جذبات کو مشتعل کرنے والے نعروں کے اسیر بن کر تخریب کی تربیت دینے والے گروہوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔

یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے ہر امیر گھرانے کا بچہ ہر غریب کے بچے سے تعلیمی لحاظ سے اتنا ہی آگے ہے جتنا کہ کوئی بھی ترقی یافتہ ملک ہمارے ملک سے آگے ہے۔


جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔