ہاتھی پر سواری کا شوق-2
دوسرا اور آخری حصہ
پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
امریکہ کے سابق صدر روز ویلٹ نے درست کہا تھا کہ ’’ہم اِس وقت جس دنیا کو امریکہ یا سوویت یونین کی دنیا کہہ رہے ہیں وہ بہت جلد ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دنیا میں تبدیل ہوجائے گی ‘‘۔
آج اس پیشین گوئی کی روشن مثال یہ ہے کہ صبح کے ناشتے سے لے کر رات سونے تک جو بھی اشیاء آپ کے استعمال میں آتی ہیں، 90 فیصد بلکہ بعض حالات میں تو 99 فیصد تک یہ اشیاء کثیر القومی اداروں یعنی ملٹی نیشنل کمپنیز کی تیار کردہ ہیں۔
دنیا کو ایک مخصوص کلچر میں رنگ دینے کے بعد غذا، لباس اور طرزِ زندگی میں بڑی حد تک مماثلت پیدا ہوگئی ہے اور ایسا خود بخود نہیں ہوا، بلکہ اس کے لیے برسوں پہلے سے منصوبہ بندی کرلی گئی تھی۔
یہاں ہم یہ باور کرادیں کہ ترقی یافتہ دنیا میں سب کچھ ہی خاص منصوبہ بندی Planning کے تحت ہوتا ہے، آج اْن کے جو اہداف ہیں، ان اہداف کا تعین وہ برسوں پہلے ہی کرچکے ہیں اور آج جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں، اس پر وہ مستقبل میں عمل پیرا ہوں گے۔ اپنی اس فکر میں وہ اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب ترقی یافتہ دنیا کے حلقۂ دانش میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ ’’کیا آج سے تقریباً ایک ہزار سال بعد کے مستقبل یعنی 3000ء کے لیے سوچنا کوئی عملی اور مفید بات ہوگی ؟‘‘
ایک ہزار سال بعد کے مستقبل پر غور و فکر سے متعلق مذکورہ سوال واشنگٹن ڈی سی میں قائم کوٹیس اینڈ جیرٹ کمپنی کے صدر جوزف این کوٹیس نے اُٹھایا اور امریکی روایات کے مطابق اس سوال پر غور و فکر کے لیے ورلڈفیوچر سوسائٹی واشنگٹن ڈی سی کے تحت ’’انسانیت تین ہزار میں‘‘ کے زیر عنوان ایک ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا، جس کے شرکاء خواتین و حضرات کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ تھی۔
یاد رہے کہ یہ بات لائق توجہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے خیال کے برعکس اُس ورکشاپ میں سائنس فکشن موضوعات سے سختی کے ساتھ گریز کیا گیا بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے نئے نکات کے ساتھ ساتھ گزشتہ تیس سال کے دوران انسانی مستقبل کے حوالے سے جو کچھ بھی غور و فکر کیا جاچکا تھا وہ سب کا سب شرکائے ورکشاپ کے پیش نظر رہا ۔
ہمارے ہاں گو کہ مغربی استحصال اور امریکی سامراجیت پر دشنام طرازی اور لعنت ملامت کا سلسلہ بلاتعطل جاری رہتا ہے لیکن شاید اس حوالے سے کبھی کوئی اجتماعی فکر سامنے نہیں آسکی کہ ترقی یافتہ اقوام کے عروج اور سرمایہ پرستوں کی دنیا بھر کے وسائل پر مضبوط ہوتی ہوئی گرفت کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ جب وہاں نجی شعبے میں قائم اداروں اور غیر سرکاری دانشوروں کی کوششوں کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے مستقبل کے لیے کسی سرکاری مراعات اور گرانٹ کے لالچ کے بغیر مسلسل و پیہم کوششوں میں مصروف ہیں تو خوب سمجھ لیجیے کہ اُن کے قومی اداروں اور کثیر القومی تجارتی کمپنیوں کے تحت ہونے والی کوششوں کا کیا عالم ہوگا، جن میں سے بعض کمپنیوں کا بجٹ بہت سے ترقی پذیر ممالک کے بجٹ سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔
مستقبل کی منصوبہ بندی اور غور و فکر کے حوالے سے مذکورہ صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے گلوبلائزیشن، آزاد تجارت اور خصوصاً تہذیبی تصادم کے نعروں پر غور کیجیے۔ درحقیقت یہ ایسے Illusion ہیں جن کو پھیلانے سے قبل ان کی منصوبہ بندی پر برسوں کام ہوا ہے۔
خوب جان لیجیے کہ ان تینوں عنوانات کی رات دن ڈفلی بجا کر سرمایہ پرست اپنے کون کون سے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں۔
دنیا کو عالمی گاؤں کے طور پر متعارف کرانا اور WTO کے قوانین کا نفاذ کا مقصد یہی ہے کہ وسائل پر عالمی سطح کے سرمایہ داروں کی مکمل اجارہ داری قائم ہوجائے۔
مزید یہ کہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے تہذیبی تصادم کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ حالانکہ صورتحال واضح ہے کہ ایک جانب ترقی یافتہ تہذیب ہے اور دوسری جانب تمدن اور تہذیب سے دور وحشیانہ جذبات کی حامل قوتیں جنہوں نے مذہب کی آڑ لے رکھی ہے۔
کیا ایسا نہیں لگتا کہ تہذیبی تصادم ملٹی نیشنلزکا اسپانسرڈ پروگرام ہے، جو بہت باریک بینی کے ساتھ اور برسوں کی سوچ بچار کے بعد تشکیل دیا گیاہے؟
پہلے اس پروگرام کے کرداروں کو سوویت یونین کے انہدام میں استعمال کیا گیا تھا جبکہ اب انہی کرداروں کو دہشت گردی کی علامت اور بدی کا محور قرار دے کر پوری دنیا کو اْن سے خوفزدہ کیا جارہا ہے؟
جبکہ ان سے نمٹنا ایک سپرپاور کے لیے کیا مشکل ہے؟
اور نیٹو میں شامل اٹھائیس ممالک بھی اس کے ہمراہ ہیں!
تو جناب! محترم ! قبلہ ! حضرت مولانا صاحب ! توجہ فرمائیے!
یہ سرمائے کی جنگ ہے!
ہوس کا پھیلاؤ ہے!
جس نے دنیا کا امن اور چین غارت کررکھا ہے۔ تلوار کی جنگ میں مقابلہ تلوار سے کیا جاتا تھا۔ اب جنگیں ذہن سے، عالمی میڈیا اور سرمائے سے لڑی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی کسی جنگ میں مدِ مقابل آنے والوں کو سب سے پہلے ذہن، عالمی میڈیا اور سرمایے پر بھرپور دسترس حاصل کرنی ہوگی۔
خود کش حملے، اشتعال انگیز کاروائیاں یا پھرمحض ’’گو امریکہ گو‘‘ کے جذباتی نعرے، جلسے، جلوس اور دھمکی آمیز یا بد دعاؤں اور کوسنوں سے لبریز اخباری کالم اس جنگ کا پانسہ نہیں پلٹ سکیں گے۔
بلکہ ان ’’ہتھیاروں‘‘ پر بھروسہ کرنے والوں کا معاملہ کچھ اس قسم کا بھی ہو سکتاہے جو اس حکایت میں ایک زاہد کا ہوا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک شخص لوگوں میں اپنے آپ کو نیک اور پرہیزگار ظاہر کرتا تھا، اور دوسرے لوگ بھی اسے نیک اور پرہیزگار تصور کرتے تھے، اسے ایک روز خواب میں ابلیس دکھائی دیا۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں خوبصورت پٹّے پکڑے ہوئے تھے، اس شخص نے تعجب سے پوچھا: یہ پٹے آپ نے کس لیے اٹھائے ہوئے ہیں؟
ابلیس نے کہا:جسے میں گمراہ کرنا چاہتا ہوں اس کے گلے میں ایک پٹہ ڈال دیتا ہوں، پھر جدھر چاہتا ہوں اُدھر لیے پھرتا ہوں۔
اس شخص نے پوچھا، میرا نام تو کسی پٹے پر نہیں لکھا ہوا ہے؟
ابلیس بڑے رازدارانہ انداز میں مسکرایا اور بولا : یہ پٹے تو ان لوگوں کے لیے ہیں جو واقعی پرہیزگار ہیں اور آسانی سے قابو میں نہیں آتے، تیرا معاملہ تو یہ ہے کہ تو سالہاسال سے میرے پیچھے پیچھے چلا آرہاہے۔
یعنی جس طرح منافق اور مذہب کا نام استعمال کرنے والے شیطان کے پیروکار ہو سکتے ہیں، بالکل اسی طرح قوم کو جذباتی نعروں کے ہتھیار دے کر امریکہ کے مدّمقابل کھڑا کردینے والے دانشور اُسی امریکہ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ معاوضہ وصول کرنے والے یا پھر مفت کے پیروکار بھی تو ہو سکتے ہیں؟