لائف اسٹائل

'اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم'

پلے بیک سنگنگ میں نمایاں مقام رکھنے والے پاکستان کے ممتاز گلوکار احمد رشدی کی تیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

پاکستان کے ممتاز گلوکار احمد رشدی کی تیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

چوبیس اپریل 1934 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے رشدی کو بچپن سے ہی گانے کا شوق تھا لیکن ان کے گھر والے اس کے خلاف تھے۔

رشدی 1954 میں حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور اپنے فنی کریئر کا آغاز کراچی میں ریڈیو سے کیا۔

رشدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1955 میں دیگر گلوکاروں کے ساتھ مل کر پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ گایا تھا۔

انہوں نے فلم 'انوکھی' کے مقبول عام گانے 'بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی ہے گھوڑا گاڑی' سے شہرت حاصل کی۔

تاہم 1961 میں لاہور آنے کے بعد فلم 'سپیرن' کے گیت 'چاند سا مکھڑا گورا بدن'، اور اگلے سال فلم 'مہتاب' کے گیت 'گول گپے والا آیا گول گپے لایا' نے رشدی کو صف اول کا گلوکار بنا دیا۔

اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور پلے بیک سنگنگ میں ان کے انداز کی انفرادیت ہمیشہ قائم رہی۔

یوں تو انہوں نے لالی وڈ کے تمام ہیروز کے لئے گیت گائے لیکن چاکلیٹ ہیرو وحید مراد پر ان کی آواز کو موزوں ترین قرار دیا گیا۔

دونوں فنکاروں کے تال میل سے فلم 'ارمان' کا گیت 'اکیلے نہ جانا' کو کون بھول سکتا ہے۔

اسی طرح 'کچھ لوگ روٹھ کربھی'، 'اے ابر کرم آج اتنا برس'، 'ایسے بھی ہیں مہربان' جیسے سینکڑوں نغمے وحید مراد کی بے مثال اداکاری اور احمد رشدی کی گائیگی کی بدولت امر ہوگئے۔

انیس سو تریسٹھ سے 1977 کا دور رشدی کے عروج کا عہد تھا۔ اسی عرصے میں انھوں نے فلم 'خاموش رہو' کے لئے حبیب جالب کی غزل 'میں نہیں مانتا' بھی گائی۔

رشدی کو پاکستان کا پہلا پاپ سنگر ہونے اور سب سے زیادہ فلمی نغمے گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

گیارہ اپریل 1983 کو آج ہی کے دن احمد رشدی کی رسیلی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ انہیں بعد ازمرگ حکومت کی جانب سے ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔

آج وہ ہم میں نہیں تاہم ان کے گائے ہوئے گیت ہر دور کے سننے والوں کو محظوظ کرتے رہیں گے۔