عورت تحریک کا سفر
آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کا بین الاقوامی دن منایا گیا. آئیے دیکھتے ہیں اس کی ابتدا کب ہوئی اور عورتوں کے حقوق کی تحریک اپنے آغاز سے اب تک ارتقاء کے کون کون سے مرحلوں سے گزری-
بیسویں صدی شروع ہو چکی تھی- دنیا کے صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں اضطراب و ہیجان کے حالات تھے- آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا اور ساتھ ہی مختلف انتہاپسند نظریات فروغ پا رہے تھے-
1908 میں عورتوں کا طبقہ بھی بے چینی کا شکارتھا- عورتوں پر تشدد کے واقعات عام تھے اور انہیں عدم مساوات کا سامنا تھا- عورتیں اس صورت حال سے لا تعلق نہیں رہ سکتی تھیں- انہوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی اور 1908 میں نیویارک سٹی میں پندرہ ہزار عورتوں نے مظاہرہ کیا-
ان کا مطالبہ تھا کام کے گھنٹے کم کئے جائیں، ان کی اجرتیں بڑھائی جائیں اور انہیں ووٹ دینے کا حق دیا جائے -
1909 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے 28 فروری کو امریکہ میں عورتوں کا قومی دن منانے کا اعلان کیا- اس کے بعد سے 1913 تک امریکہ میں فروری کے آخری ہفتے میں عورتوں کا قومی دن منایا جاتا رہا-
1910 میں کوپن ہیگن میں محنت کش عورتوں کی دوسری بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی- اس کانفرنس میں جرمنی کی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما کلارا زیتیکن نے یہ قرارداد پیش کی کہ عورتوں کا بین الاقوامی دن منایا جائے-
اس کانفرنس میں 17 ممالک کی سو سے زیادہ خواتین نے حصہ لیا تھا جن کا تعلق مختلف یونینوں، سوشلسٹ پارٹیوں اور عورتوں کے مختلف کلبوں سے تھا- ان میں سے تین عورتیں فن لینڈ سے آئی تھیں جو پہلی بار پارلیمنٹ سے منتخب ہوئی تھیں- ان تینوں خواتین نے کلارا کی تجویز کی حمایت کی اور اس طرح عورتوں کا بین الاقوامی دن منانے کی روایت قائم ہو گئی-
1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی، اور سویٹزرلینڈ میں پہلی بار 19 مارچ کو عورتوں کا بین الاقوامی دن منایا گیا- اس دن جو ریلیاں نکالی گئیں ان میں تقریبا دس لاکھ عورتوں اور مردوں نے حصہ لیا- ان کا مطالبہ تھا کہ عورتوں کو کام کرنے اور ووٹ دینے کا حق دیا جائے- انہیں دفاتر میں ملازمتیں دی جائیں اور ان کے خلاف امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے-
اس کے ایک ہی ہفتہ بعد 25 مارچ کو ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا- نیویارک سٹی کے ٹرینگل فائر کے حادثے میں ایک سو چالیس محنت کش عورتیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں- ان میں سے بیشتر اطالوی اور یہودی تارکین وطن تھیں-
امریکہ میں اس واقعہ نے اضطراب کی لہر دوڑادی چنانچہ حالات کو بہتر بنانے اور قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا- 1911 ہی میں عورتوں کی ایک اور تحریک "بریڈ اور روزز" کے نام سے شروع ہوئی-
روس کی عورتوں نے امن کے قیام کیلئے فروری 1913 کے آخری اتوار کو عورتوں کا بین الاقوامی دن منایا- اسی سال یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ دن آٹھ مآرچ کو منایا جائے اور اس وقت سے دنیا بھر میں یہ دن آٹھ مارچ کو منایا جاتا ہے-
1914 میں یورپ بھر میں عورتوں نے جنگ کے خلاف تحریک چلائی- اور عورتوں کی یک جہتی کا اعلان کیا- 1917 تک جنگ میں بیس لاکھ روسی فوجی مارے جا چکے تھے-
روس کی عورتوں نے فروری کے آخری ہفتے میں "روٹی اور امن" کے نام پر ہڑتال کی- روس کے سیاسی رہنماؤں نے اس کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود ہڑتال چار دن تک جاری رہی- چنانچہ زار کو حکومت سے دستبردار ہونا پڑا- صوبائی حکومت نے عورتوں کو ووٹ کا حق دیا- ان دنوں روس میں جولین کیلنڈر پر عمل ہوتا تھا- گریگورین کیلنڈر کے مطابق اس دن آٹھ مارچ کا دن تھا-
بیسویں صدی کی ابتدا سے اختتام تک دنیا کے تقریبا تمام ترقی یافتہ، ترقی پذ یر اور پسماندہ ممالک میں عورتوں کے بین الاقوامی دن کی تقریبات منعقد ہوتی رہیں-
اقوام متحدہ نے پہلی بار 1975 میں بین الاقوامی عورتوں کا دن منانے کا اعلان کیا تاکہ عورتوں کو سماجی، سیاسی اور معاشی شعبوں میں ترقی کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں-
اب اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال عورتوں کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے اور روایت یہ ہے کہ ہر سال ایک نیا موضوع اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ تمام ممالک اپنے اپنے طور پر اس خاص مقصد کو حاصل کرنے کیلئے قانون سازی کریں، عوام میں آگہی پیدا کریں اور عورت کو مساوی درجہ دینے کی کوشش کریں-
اگر پچھلے پانچ سال کے موضوعات پر نظر ڈالیں تو موضوعات یہ تھے- عورت اور امن، مساوی مواقع، مساوی امکانات، عورت اور تشدد، لڑکیوں کی تعلیم، دیہی عورتوں کی ترقی کیلئے منصوبے، ایچ-آئی-وی اور عورت وغیرہ-
اس سال کا موضوع ہے "وعدہ وہی ہے جو پورا ہو- اب وقت آگیا ہے کہ عورتوں پر تشدد کے خلاف عمل کا آغاز کیا جائے"-
یوں تو دنیا بھر میں عورت تشدد کا شکار ہے- چاہے وہ مغرب کی عورت ہو جسے دنیا بھر کی آزادیاں حاصل ہیں یا پھر مشرق کی عورت جسے شرم و حیا کے نام پر چادر اور چاردیواری میں محصورکردیاگیا ہے-
جنوبی ایشیا کی عورت کو خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان میں پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کی کوکھ میں قتل کر دیا جاتا ہے، وہ مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے- لیکن پاکستان میں حدود آرڈیننس مردوں کو تو ناکافی شہادت کی بنا پر بری کر دیتا ہے اور عورت کو آبرو باختہ قرار دیکر ایک با عزت زندگی گزارنے سے محروم کردیتا ہے، اسکے اسکول بم سے اڑا دئے جاتے ہیں اور کئی ملالائیں دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتی ہیں.
یہاں عورت تجارتی جنس بن گئی ہے جسے ونی کے نام پرخوں بہا کے طور پر مخالف فریق کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جسے اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں اور مردوں کا معاشرہ اس پر کاروکاری کا الزام لگاکر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے یا پھر وہ پناہ گاہوں کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے-
اسے جائیداد بچانے کے لئے قران شریف سے شادی کرکے مذھب کے نام پر غیر فطری زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے- تیزاب پھینک کر اس کی شناخت چھین لی جاتی ہے- حتیٰ کہ ہمارے معاشرے میں خود عورت عورت پر ظلم ڈھاتی ہے، جہیز کے نام پر تیل چھڑک کر جلا دی جاتی ہے اور بچی پیدا کرنے پر طلاق کے کاغذات پکڑوا کر بے گھر کردی جاتی ہے-
غرض کہ ظلم و استبداد کی ایک طویل داستان ہے جس کا سرا کہیں ختم ہی نہیں ہوتا گویا کہ عمر عیار کی زنبیل ہے جسکے اندر سے چیزیں نکلتی ہی چلی آتی ہیں-
بہرحال دنیا بھر کی عورتیں چھوٹے سے لیکر بڑے جرائم کا نشانہ ہیں- افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم بات تو کرتے ہیں کہ ماں کے پیروں کے نیچے جنت ہوتی ہے لیکن اسکے پیروں سے یہ جنت نوچ کر اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں-
یہ صحیح ہے کہ یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو بے حد بھیانک اور دور دور تک پھیلا ہوا ہے- تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو نسبتاً روشن اور امید افزا ہے- جب سے عورتوں نے اپنے حق کیلئے آواز بلند کی ہے اس کی حالت نسبتاً بہتر ہوئی ہے-
یہ فرق پسماندہ ممالک اور ترقی یافتہ ممالک کے فرق کو ظاہر کرتا ہے، یہ فرق ایک تعلیم یافتہ معاشرے اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے معاشرے کے فرق کو ظاہر کرتا ہے، یہ فرق شہری معاشرے اور دیہی معاشرے کے فرق کو ظاہر کرتا ہے- یہ فرق حکومتوں کے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ رویوں کی عکاسی کرتا ہے-
ایک چیز واضح طور پر نظر آتی ہے- عورت کو بااختیار بنانے کیلئے اسے معاشی طور پر آزاد کرنا ہوگا- جب تک عورت مرد کی دست نگر بنی رہیگی اسکا استحصال ہوتا رہیگا- اس میں اپنے حقوق کی آگہی کا شعورپیدا کرنا ہوگا- اسے تعلیم حاصل کرنے کا حق دینا ہوگا، اسے حق دینا ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کے متعلق فیصلے خود کرسکے
آج ترقی یافتہ ممالک میں بلکہ ترقی پزیرممالک میں بھی عورت ہرمیدان میں سرگرم عمل نظرآتی ہے- وہ پارلیمنٹ میں ہے، کارپوریٹس کی سربراہ ہے، انجینئر، ڈاکٹر،فنی ماہر اور آرٹسٹ ہے، غرض کہ زندگی کے ہر شعبے میں اسکا وجود نظر آتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی وہ جنسی امتیاز کا شکار ہے-
ابھی تک کوششوں کے باوجود بھی انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی مساوی کام کیلئے مساوی اجرت کے قانون پر عمل نہیں ہوتا- امریکہ جیسے ملک کا صدر بھی تسلیم کرتا ہے کہ ہمیں اس سمت کی طرف بڑھنا ہے-
اقوام متحدہ اس سمت میں سرگرم عمل ہے- اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان-کی-مون نے عورتوں کی اس حالت زار کا جائزہ لیتے ہوئے مردوں کو پیغام دیا ہےکہ وہ عورت کو کمزور سمجھنا چھوڑدیں- اور اس کا احترام کریں- چنانچہ اب خود مردوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ عورت مظلوم طبقہ ہے اور انھیں بھی عورتوں کے کاز کو آگے بڑھانے میں حصہ لینا چاہئے- کئی ممالک مثلًا بنگلہ دیش میں خود مردوں کی تنظیمیں بھی عورتوں کے بین الاقوامی دن کے سلسلے میں مظاہرے کرنے میں پیش پیش ہیں-
اقوام متحدہ کی جانب سے ساری دنیا میں عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے سیمیناراور سمپوزیم منعقد ہو رہے ہیں- اس بار عورتوں کیلئے "ون وومن" کے نام سے ایک ترانہ بنایا گیا جس میں دنیا بھر کے بیس ممالک کے گلوکار حصہ لے رہے ہیں- اس ترانے کو 8 مارچ کو ریلیز کیا گا اور آپ اپنے کمپیوٹر پر بھی سن سکتے ہیں- اس ترانہ میں عورتوں کی یکجہتی کا پیغام دیا گیا ہے-
یہ سب کچھ اپنی جگہ پر، لیکن محض قانون سازی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے- اس کیلئے پورے معاشرے میں رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا- رویوں کو تبدیل کرنا صرف حکومتوں کا کام نہیں ہوتا- کیونکہ حکومتیں اپنے اپنے ایجنڈوں اور اپنے اپنے مفادات کے تابع ہوتی ہیں- اس کے لئے ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کرنا ہوگی- اپنے گھر کی عورت کی عزت کرنا ہوگا، بچوں کو بتانا ہوگا کہ وہ اپنی"ماں" کی عزت کریں- یہ عورت کوئی آٹومیٹک مشین نہیں کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ چل پڑے- اسکا ایک زندہ وجود ہے- اسے عزت، محبت اور پیار دیجئے کیونکہ یہی وہ عورت ہے "جسکے پیروں کے نیچے جنت ہے"
آج کی عورت پہلے کے مقابلے میں زیادہ باشعور ہے- وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے- آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں کی اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے اور اس دن کو بامعنی طور پر منایا جائے -
لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔