IV نیو آرمی ڈاکٹرائن
یہ بلاگ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا چوتھا حصّہ ہے جس میں پاکستان کے اندرونی دشمن کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے؛ اور یہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کیوں اور کیسے اس خونخوار عفریت کو کئ دہائیوں تک پالا. پہلا حصّہ یہاں، دوسرا یہاں اور تیسرا یہاں دیکھیے.
انسانی شناخت انسان کے عزم اور عمل سے بنتی ہے- ڈی این اے تو صرف اس کے نسلی تعلق کو ظاہر کرتا ہے- با شعور اور با ارادہ ہونے کے سبب انسان کی شانخت اس سے بنتی ہے کہ وہ خود کو کیا دیکھنا چاہتا ہے-
لہٰذا یہ اہم نہیں کہ برصغیر کے کتنے مسلمانوں کے باپ دادا ہندو تھے یا وہ کیسے مسلمان ہوئے- اہم ان کا وہ عہد و عزم اور وابستگی ہے جس کی بنیاد پر وہ دنیا سے اپنے تعلق کا فیصلہ کرتے ہیں-
ڈی این اے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی جب ایک سفید فام امریکی عیسائی، اسلام قبول کر کے اپنا نام بدلتا ہے اور اپنے نئے عربی نام کے ساتھ اپنے ہی ڈی این اے کے خلاف القاعدہ کی جہاد کا سپاہی بن جاتا ہے-
گرچہ اسلام نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی لیکن ہمارے علماء کی تعلیم کچھ یوں رہی ہے کہ الله نے آدم اور اسکی نسل کو صرف مسلمان ہونے کے لئے پیدا کیا، لہٰذا جو اسلام قبول نہیں کرتا وہ اپنی انسانیت کے بر عکس چلتا ہے-
پچھلے پینسٹھ برس میں انسان ہونے کی اس تعریف نے ہماری طرز فکر میں گہری جڑ بنائی ہے- ہمارے دلوں میں یہ یقین گہرا کر دیا گیا ہے کہ صرف مسلمان ہی پورے انسان ہیں، سچی راہ والے اور بخشے ہوئے، اور یہ کہ باقی سب لوگ غلط رستے پر ہیں، ہم سے جلتے ہیں، اور ضروری ہے کہ انھیں سیدھے راستے پر یا ہدایت یافتہ اسلامی سلطنت کے ماتحت لایا جاے-
اسی یقین کا پرچم اٹھاۓ ہوئے ابن وہاب اور سید قطب کے پیروکار عالمی عرب سلطنت کے قیام کے لئے کوشاں ہیں- تاکہ ہر وہ نظام مٹا دیا جاۓ جو انکے مخصوص اسلامی تصور کے مطابق نہیں- وہ عفریت جسے ہماری حکمرانیہ نے اپنی اندھی بےعقلی سے پالا پوسا انہی عالمی تاجروں کے ہاتھ بک گیا-
کئی دہائیوں تک ہم اپنے تمام تر وسائل جس سیکورٹی اسٹیٹ کے دوزخ میں جھونکتے چلے گئے، آج وہ اسٹیٹ انہی بھٹکے ہوئے میزائلوں کی زد میں ہے-
لیکن ساری دنیا سے ہماری علیحدگی اورتنہائی ہمارا واحد المیہ نہیں- مسلم امّہ کے اندر ہماری مزید تقسیم اس سوال کے ساتھ شروع ہوجاتی ہے کہ سچھا مسلمان کون ہے؟ کہ ہمارے مسلک پر نہ چلنے والاشخص مسلمان ہے یا نہیں؟
اہل ایمان کی حیثیت سے ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ اسلام کے عالم ہی بہتر جانتے ہیں، اور وھی ہماری روح کے ڈاکٹر ہیں- چونکہ ہر مکتب فقہ کے اپنے اپنے علماء موجود ہیں، وہ اپنےاپنے نظریہ سے صحیح مسلمان کی تعریف کرتے ہیں- اس کے نتیجہ میں مسلم معاشرہ میں کشیدگی بڑھتی رہی ہے- ایک دوسرے کو کافر نہیں تو گمراہ کہنا معمول ہے جس کے نتیجہ میں نوبت تصادم اور خون ریزی تک آ پہنچی ہے-
فرقہ واریت انسانوں کو فرقوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے سے دور کر دیتی ہے- لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں-
نفرت کا شجر اگانے والوں کو پھل بھی نفرت ہی کی صورت میں ملتا ہے- نفرت کا جادو لوگوں کی آنکھیں اور کان بند کر دیتا ہے- وہ ذہانت سے عاری روبوٹوں کی طرح چلتے ہیں اور عقل و خرد بے معنی ہو جاتی ہے- وقت نے اس صداقت کو بڑی المناک وضاحت کے ساتھ ثابت کیا ہے-
ہندوستان کے رہنماؤں نے فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے کے لئے شمولیت کے نظریات سے کام لیا- اس دانشمندی کے بغیر ہندو عوام کا جذبہ انتقام ایک مہیب خون ریزی کا سبب بن سکتا تھا جو صدیوں تک اپنے ہی وطن میں جبر کا شکار رہے تھے-
انتقام کے اس جذبہ کا اندازہ لگانے کے لئے تصوّر کریں ایک مسلم معاشرہ جس کی مسجدیں صدیوں تک بار بار حملہ آور حکمرانوں کے حملوں اور بے حرمتی کا شکار ہوتی رہی ہوں، نسل در نسل انکی مقدّس اور محترم ہستیوں کی توہین کی گئی ہو، اور پھر یہ مسلمان آزاد ہو کر اقتدار میں آ جائیں! انتقام اور قتل عام کا منظر کیا ہو گا!
طیش اور جنوں کی حالتوں کو بتدریج ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک روادار جمہوری نظام ہی میں ممکن ہے جہاں ہر عقیدہ کی برابری ہو اور تبادلہ خیال کی آزادی ہو- ہندوستان کو اسی آئینی کشادگی نے بکھرنے سے بچا لیا-
پاکستان میں ہم نے ہر مسئلے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا- چنانچہ ہمارے علماء نے پہلے غیر مسلم عوام کو کافر کے طور پر مسترد کیا، پھر ایک ایک کر کے اپنی مذہبی اقلیتوں کو باہر کر دیا-
کیا ہندوستان پاکستان کو لپیٹنا چاہتا ہے؟ یہ سوال ابھی قائم ہے. 1946 میں مسلم لیگ کی قیادت ہندوستان کی فیڈریشن میں رہنے کو تیار ہو گئی تھی جس میں کیبنٹ مشن پلان کے تحت مسلم اکثریتی صوبوں کو مکمل آئینی خود مختاری دی جانے پر اتفاق ہو گیا تھا-
فریقین کا اس پر اتفاق ہوا تھا کہ آئین اس نکتہ کے مطابق بنے گا- لیکن چند ہی دن میں کانگرس نے پالیسی بدل دی- مولانا آزاد نے کانگرس کی صدارت سے استعفیٰ دے کر نہرو کو صدر بنوا دیا جنہوں نے آتے ہی بیان دے دیا کہ پارلیمان اکثریت سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہے- کانگرس کمیٹی نے اس بیان کی تردید سے پہلو بچایا-
یہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کا حصہ معلوم ہوتا ہے- جس کا مقصد ہمیں کندھے سے اتارنا تھا ایک ایسا وزن جو فائدہ دینے کی بجاے پریشان کرے گا- اس وقت کی ہندوستانی قیادت چاہتی تو ہمیں ساتھ رکھ سکتی تھی- وقت کے ساتھ ہمارا الگ ہونے کا جذبہ ماند پڑ سکتا تھا-
لیکن یہ سب تب ممکن تھا- جہاں تک اب کا تعلق ہے، ہم نے اپنی جو حالت بنالی ہے کہ ہم مکمل طور پر بھڑوں کا ایک چھتا بن گئے ہیں، خود پسند اور جنگ پسند دیوانوں کا ایک ہجوم بن گئے ہیں،تو ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ہندوستان کا کوئی بھی ہوشمند منصوبہ ساز پاکستان کو بھارت کا حصّہ بنانے کا منصوبہ بناتا ہو-
نہرو، پاٹل اور ان جیسوں کی طرف سے لوڈ شیڈنگ کی اس حکمت عملی کو زیادہ سے زیادہ ایک ہوشیاری کہا جا سکتا ہے- جیسا کہ تب کے انسانیت دوستوں کا خیال تھا یہ کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہ تھا-
نفرت سے کی گئی تقسیم انتشار ہے، نہ کہ تنوع ( ڈائی ورسٹی)- ڈائی ورسٹی تو ایسی انفرادیت ہے جو اپنی دنیا کے ساتھ حالت امن میں ہو - جبکہ انتشار اس حالت امن کی ضد ہے-
ہشیاری کے اس اقدام نے "دو قوموں" کو اس راستے پر ڈال دیا جس میں انہوں نے اپنے عوام کو ذلّت بھری تکلیفوں میں چھوڑ کر تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پر کھربوں خرچ کر دیے-
اس فیصلہ نے بر صغیر کو کئی جنگوں میں دھکیلا اور ہمارے والے حصّہ کو ایک کے بعد ایک خانہ جنگی کا سامنا ہے جس نے ہمیں ایک خیالی امہ کے منتشر قبائل بنا دیا ہے جس میں قوم کا کوئی وجود نہیں-
کیا ہمیں اپنے اجداد کے قرض اور گناہ ورثہ میں ملتے ہیں؟ ہاں، اسلئے کہ ہم انکی خوبیوں اور خزانوں کے وارث ہوتے ہیں- ہر فاتح کی طرح ہمارے وسطی صدیوں کے اجداد نے اپنی مفتوح رعایا کی مرضی کے خلاف ان پر حکومت کی- ہندو بر صغیر سے نکل کر دوسری قوموں پر حکومت کرنے کے لئے حملہ آور نہیں ہوئے، جبکہ حملے کرنا اور غلبہ حاصل کرنا مسلمانوں کا پیدائشی فخر رہا ہے-
مسلم فاتحین رعایا کو دوست بنانے کی بجاۓ غلبہ پانے کو ترجیح دیتے تھے- تسخیر اور قتل و غارت گری زخموں کے گہرے داغ چھوڑ جاتی ہے- شکست اور تذلیل سہنے والے اپنی نسلوں کے لئے اپنی اذیت کی یاداشت چھوڑ جاتے ہیں- جو نئے تصادموں کو جنم دیتی ہے-
صرف زیادتیوں کا اعتراف ہی نفرتوں سے نجات کا راستہ ہے- وائی کنگ، رومن اور منگول قوموں کے عصری وارث اپنے اجداد کی پر تشدد تاریخ پر فخر نہیں کرتے- اس کے بر عکس اپنے ماضی پر ہمارا فخر ہمیں مزاحیہ طور پر منفرد بناتا اور دنیا سے الگ کرتا ہے-
اس کے برعکس خلوص کے ساتھ کیا جانے والا اعتراف بقاۓ باہمی کا نسخہ بن سکتا ہے- ایسے مہذب رویے سبکی کا سبب نہیں بنتے، بلکہ یہ اقوام عالم میں ہمیں معزز بنا سکتے ہیں- لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان دہشت گردوں کو سختی سے مسترد کر دیں جو ہماری ذہنیت کے تاریک ترین گوشوں کے نمائندہ ہیں-
یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ تاریخ کو الٹانا ممکن نہیں- دو قوموں کو دو اور اب بنگلہ دیش کے ساتھ تین قوموں کی حیثیت سے قائم رہنا چاہئیے- ہم ڈائی ورسٹی کی روح کا گہرا شعور حاصل کرنے کے بعد اس قبل ہو سکیں گے کہ یورپی اقوام کی طرح مل بیٹھیں-
معقولیت اور امن کی خواہش کرنے والے دانشوروں اور سیاسی مدبروں کو اس امر کا اعتراف کرنا ہوگا کہ مستقبل کی اس مفاہمت کے لئے عوام کی تائید بلکہ اتفاق راۓ ہی فیصلہ کن عنصر ہے- ہمیں وہ شعور بیدار کرنا ہے جو انسانوں کی تقدیر اور دنیا کو بدل دیتا ہے -
اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ ہم اپنے رویوں کی اصلاح کریں اور انکسار سے دنیا کے ساتھ جینا سیکھیں 'دنیا جو ہمساۓ کے دروازے سے شروع ہوتی ہے'-