سیاست کم، آرٹ زیادہ
آجکل کراچی لٹریچر فسٹیول کی تیاریاں جاری ہیں اوریہ دن ہم جیسے لوگوں کے لئے خوشگوار دن ہوتے ہیں جو اپنے ذہن کو سیاست سے ہٹا کرآرٹ کی طرف موڑنا چاہتے ہیں-
تاہم، جیسے جیسے منتظمین لکھاریوں، دانشوروں اورشرکاء کے ساتھ رابطہ قائم کر رہے ہیں اور ہمیں اپنے پینلز کے عنوانات اور موضوعات سے آگاہ کر رہے ہیں مجھے قدرے تشویش ہونے لگی ہے کہ پاکستانیوں کے ذہن پر سیاست جس طرح مسلط ہے اسکے نتیجے میں فنکاروں کو دور کہیں دھکیل دیا جاےگا-
مثلاً، مجھ سے ایک پینل میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی جس کا عنوان ہے 'کس کاپاکستان، کس کی سیاست؟ آج کے پاکستان میں انگریزی ادب'- جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ادب بطور آرٹ پر گفتگو کرنا چاہونگی نہ کہ سیاست کے آلہ کارکے طور پر، تو مجھے یقین دہانی کرائی گئی کہ بطور آرٹ بھی ادب پر گفتگو ہوگی- لیکن جب بات پاکستانی شناخت کی ہو رہی ہو، ادب میں مزاحمت کی بات ہو رہی ہو اور انگریزی ادب میں پاکستان کے مقامی اور عالمی امیج کی بات ہو رہی ہو تو مجھے ڈر ہے کہ تخلیق کے فنی پہلووں کو نظر انداز کر دیا جاے گا اور اسکے بجاے ہر چیز کو جانی پہچانی سیاسی عینک سے دیکھا جاے گا جیسا کہ آجکل ہمارا خاصہ بن گیا ہے-
میری تشویش کے جواب میں پینل کا موضوع بدل کر' کس کا پاکستان؟ آج کے پاکستان میں انگریزی ادب' کردیا گیا-
ایک اور مصنف سے درخواست کی گئی کہ وہ "پاکستانی ناول میں سیاسی شعور" کے موضوع پر اظہار خیال کریں- سیاست کو ادب کے ساتھ خلط ملط کرنے کے اس عمل پر اپنے اضطراب کا اظہار کرنے کے لئے انہوں نے ناول نگار جارج سینڈ کا حوالہ دیا:
"ایسے وقتوں میں جب کہ برائی کا چلن ہوتا ہے کیونکہ انسان ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کرتے اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں تو پھر فنکاروں کا فرض بن جاتا ہے کہ پیار، اعتماد اور دوستی کی بات کریں اور لوگوں کو جو سخت دل ہو چکے ہیں یا جن کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں، یاد دلائیں کہ کھرے اخلاق، نازک جذبات اور قدیم عدل و انصاف آج بھی موجود ہیں یا کم از کم انہیں اس دنیا میں قائم رکھا جاسکتا ہے"-
سرحد کے اس پار جے پور میں بھی ادبی میلہ سیاست کی دھند میں چھپ گیا- گزشتہ سال میلہ میں سلمان رشدی کی شرکت پر، اسلام پسندوں نے اسقدر واویلا مچایا کہ انہوں نے اس میں شرکت نہ کی- اس سال مسلم بنیادپرست یہ چاہتے ہیں کہ ان لکھاریوں کو شرکت کی دعوت نہ دیجائے جنہوں نے گزشتہ سال سلمان رشدی کی کتاب سے اقتسابات پڑھ کر سنائے تھے-
اس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پاکستانی لکھاریوں فہمیدہ ریاض، ندیم اسلم، جمیل احمد، محمد حنیف اور مشرف علی فاروقی کی موجودگی پر بھی اعتراضات کئے- ہندوستانی افسروں نے بھی پاکستانی سفارتکاروں کے وفد کو میلہ میں شرکت کرنے سے روک دیا. ہندوستانی جرنلسٹ راجن نائر نے ٹویٹر پر لکھا:
"ہندوستان کے امور خارجہ کے محکمہ کوزیب نہیں دیتا کہ وہ ایک ادبی پروگرام پرسیاست کھیلے"-
پاکستانیوں کو طویل عرصے سے ادبی مسائل سے زیادہ سیاسی واقعات میں دلچسپی رہی ہے- اگر آپ کو میری بات پر یقین نہ ہو تو دیکھئے کہ لوگوں کی کتنی بڑی تعداد جلسوں اورریلیوں میں شرکت کرتی ہے اورکتنی تعداد میں لوگ کتابی میلوں یا ادبی کانفرنسوں میں جا تے ہیں- یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ادب کا تعلق 'اشرافیہ' سے ہے جبکہ 'عوام' کی دلچسپی کا محور سیاست ہے-
یہ بیان بجائے خود انتہائی سیاسی نوعیت کا ہے- اس سے طبقاتی تفریق کی بو آتی ہے اور ان مفروضوں کی عکاسی ہوتی ہے جو اعلیٰ طبقات کے مقابلے میں متوسط طبقے اور نچلے طبقات کی ذہنی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے بارے میں قائم کر لئے گئے ہیں - لیکن ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے : کیا ہم سیاست پر بات اسلئے کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ آرٹ پر کس طرح بات کی جاتی ہے؟
میں نے ہالی وڈ کے اداکار فاران طاہر کی تقریر سنی جو انہوں نے دسمبر میں سیکنڈ فلور پر کی تھی- طاہر نے آئرن مین اور اسٹارٹریک میں اپنی اداکاری پر، بطور اداکار اپنے کام پر اظہارخیال کیا اور بتایا کہ وہ ہالی وڈ میں نسل پرستی اور حقوق و مراعات کی عدم دستیابی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں-
لیکن مجھے سب سے زیادہ دلچسپی اس گفتگومیں ہوئی جو انہوں نے اپنے مقالے پر کی جسے انہوں نے یو سی برکلے میں پیش کیا تھا- اس مقالے میں انہوں نے بتایا تھا کہ جن ممالک میں آمریت اور جبری سیاسی حکومتوں کا کنٹرول ہوتا ہے وہاں لوگ تھیٹر کی کتنی مختلف اصناف کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں- پاکستان میں اسٹریٹ تھیٹر، پولینڈ میں ماسکڈ تھیٹر اور جنوبی افریقہ میں لوک تھیٹر نے حکومت کے جبرواستبداد کے خلاف عوام کی مزاحمت میں اہم رول ادا کیا-
جب میں انکی گفتگو سن رہی تھی تو مجھے یہ خیال آیا کہ پاکستان میں فنون لطیفہ کا بلیک آوٹ کیا گیا جسکی تشبیہ ایک ایسے شخص سے دی جاسکتی ہے جسکے سر پر شدید گہری چوٹ لگی ہو اور جس کی ساری کام کرنے کی صلاحیتیں سلب کر لی گئی ہوں: آرٹ نے اپنی زبان، حرکت پذ یری اور یادداشت کھو دی ہے اور معاشرے میں اپنا مقام بنانے کیلئے، اگروہ کبھی بنا سکے، تواسے ہر چیز نئے سرے سے سیکھنی ہوگی-
اسی طرح جنرل ضیاء کی متشدد پابندیوں کے نتیجے میں جو ان کے دور حکومت میں ادب، تھیٹر، رقص اور موسیقی پر عائد کی گئیں، ہم پاکستانی جو پہلے فن کو فروغ دے رہے تھے دنیا کو آرٹ، شاعری، گیت اور رقص کے توسط سے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے-
ایک پوری نسل کو اس کے ذریعہ اظہار سے محروم کر دیا گیا اور اس پر ایک بالکل دوسری زبان لاد دی گئی -- سیاست اور تشدد کی زبان -- اب ہم وہ ساری چیزیں دوبارہ سیکھ رہے ہیں جو ہم سے دو دہائی پہلے چھین لی گئی تھیں، لیکن وہ سیاسی قوتیں آج بھی فنی قوتوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں جبکہ ہم فنی قوتوں کو دوبارہ تندرست و توانا دیکھنا چاہتے ہیں-
ایک لکھاری اور فنکار کے طور پر میرا یقین ہے کہ پاکستان کی بہت سی بیماریوں کا علاج سیاست، سیاست اور زیادہ سیاست میں نہیں بلکہ یہ انسانیت کیساتھ ہمدردی اور دلگدازی میں پنہاں ہے جسکی آرٹ حوصلہ افزائی کرتا ہے- آرٹ اور کلچر جمہوریت کی اعلی ترقی یافتہ شکلیں ہیں-
لوگوں کی آوازوں میں سچائی ہوتی ہے، وہ گیت گاتے اور رقص کرتے ہیں اور اپنی ضرورتوں، امیدوں اور خوابوں کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں-
یہ تحریک اسقدر طاقتور اور فطری ہوتی ہے کہ حکومتیں اس سے لرزاں رہتی ہیں اور وہ اس میں حصہ لینے والوں -- ادیب، شاعر اور فنکار -- کا منہ بند کردینا اور انھیں خاموش کردینا چاہتی ہیں- لیکن اس تحریک کو ہمیشہ دبایا نہیں جا سککتا-
کراچی لٹریچر فسٹیول اور اس جیسے دوسرے ثقافتی پروگرام ہمیں موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں سیاست کو کم اور فن کو زیادہ دخل انداز ہونے دیں-
میں چاہتی ہوں کہ ہمارا جھکاؤ آرٹ کی جانب زیادہ ہو کیونکہ آرٹ ہمیں تحریک دیتا ہے کہ ہم نفس کی روح کو پانے کی جستجو کریں، ہمارے احساسات کو اظہار کا موقع فراہم کرتا ہے اور ہمیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم انسانیت کے ساتھ اپنی مشترکہ اقدار کو تلاش کریں- اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر پاکستان امن اور رواداری کی را ہ پر گامزن ہو سکتا ہے-
ترجمہ : سیدہ صالحہ