نقطہ نظر

خود سے جنگ

آج تک صرف کئے گئے کل جنگی اخراجات اگر تعمیر و ترقی پر خرچ ہوتے تو برصغیر کی حالت موجودہ یورپ جیسی ہوتی

is blog ko sunne ke liye play ka button click karen | اس مضمون کو سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/76945613" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


پاکستان میں ہمارے پیشہ ور دینی علما نے ہماری فکر کو ایسا متأثر کیا ہے کہ ہم ہر معامله کو مذہب کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گیے ہیں-

"مسلمانوں کے خلاف کافروں کے مظالم" کا حساب تو ہم بڑی احتیاط سے رکھتے ہیں لیکن اپنے اندر کے اس دشمن کو دیکھ ہی نہیں پاتے جو اسلام کی آڑ میں حملہ کرتا ہے- پہلے ہمیں بدی کے دو مرکز دکھائی دیتے تھے یعنی ہنود و یہود یعنی ہندوستان اور اسرائیل- پھر اس میں امریکا اور یورپ کا اضافہ ہو گیا- اب ہماری فرقہ وارانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں شاید ایران بھی جلد ہی دشمنوں کی صف میں شامل ہو جاۓ-

ہم ساری دنیا میں کسی ایک مکمّل دوست کا نام نہیں بتا سکتے- چین اور سعودی عرب ہمارے دوست صرف اس حد تک ہیں کہ وہ ہماری مخالفت نہیں کرتے- ہمارے "دشمنوں" سے ان کے تعلقات نہایت عمدہ ہیں، اور امریکا یا ہندوستان کے ساتھ ہمارے جو تنازعات ہیں، ان میں ہمارے یہ دوست ہماری حمایت نہیں کرتے نہ ہی اسرائیل کے خلاف ہمارے طیش میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں-

ہمیں پورا یقین ہے کہ ہماری پینسٹھ سالہ قومی تاریخ میں ہم پر بہت حملے ہوئے ہیں- پانچ بار ہندوستان نے حملہ کیا، پھر روس نے حملہ کر دیا، ہندوستان نے ہمارا آدھا ملک ہم سے الگ کر دیا تو اقوام عالم نے تعصّب کی وجہ سے ہندوستان کا ساتھ دیا-

اب بارہ برس سے ہم امریکا کے حملے کا روحانی سطح پر مقابلہ کر رہے ہیں- ہمیں یقین ہے کہ ہم ہمیشہ حق پر تھے، کہ ہمیشہ ہمارے اوپر بہت ظلم ہوا-

ہم خود سے کبھی یہ سوال نہیں پوچھتے کہ کیا ہم واقعی اتنے معصوم اور مظلوم ہیں؟

آخر دنیا کو ہم سے کیوں نفرت ہے؟ ہم نے پینسٹھ برس اپنی نسلوں کو یہی پڑھایا ہے کہ ایک ارب ہندو اتنے تنگ نظر ہیں کہ ہمیں پھلتا پھولتا دیکھ نہیں سکتے- یہ پوچھنا منع ہے کہ آخر سات سو سال کی حکومت کے دوران ہم ہندو عوام کو کیوں اپنا دوست نہیں بنا سکے؟

جنگ ایک المیہ سہی، اذیت سہی لیکن کسی معاشرہ کا خود سے گتھم گتھا ہونا تو کراہت انگیز ہے، مکمّل بربادی ہے- ہم خود کو "ہم" کہنا پسند کرتے ہیں، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم صرف دوسروں سے نفرت کرنے میں متحد ہیں لیکن جونہی اجتماعی خدمت اور قربانی کا مرحلہ آتا ہے ہم الگ الگ فرد بن جاتے ہیں، اپنی اپنی قبر کا فلسفہ یاد آ جاتا ہے-

جنگ ایک المیہ ہے- اس لئے کہ جنگ میں فریقین اپنے مقاصد کا حصول قوّت اور تباہی کے ذریعے کرتے ہیں- ایک فریق کی فتح سے بھی جنگ ختم نہیں ہوتی- بلکہ مستقبل کی جنگوں کا بیج بو جاتی ہے کیونکہ جنگ میں ہزیمت اور تذلیل اٹھانے والے اپنی شکست کے زخم نہیں بھولتے- انکی اجتماعی یاداشت نسل دار نسل سفر کرتی اور انتقام پر اکساتی ہے-

ہمارا برصغیر صدیوں جنگ کی حالت میں جکڑا رہا جو کہ مختلف ہندو مسلم بادشاہوں اور مزاحمت کاروں کے درمیان جاری رہی- ان جنگوں سے مسلم فاتحین کی ایک محدود سی اقلیت کو اقتدار اور خوشحالی ملی لیکن وسیع ہندو آبادی کو شکست اور مصیبتوں کا سامنا رہا، حتیٰ کہ مسلم عوام کی اکثریت کے حصے میں بھی مہمل فخر اور کم علمی کے سوا کچھ نہ آیا-

جنگوں کی یہ طویل تاریخ دونوں طرف دکھتے زخم چھوڑ گئی ہے- اور یہی تاریخ دونوں طرف کے عوام کی موجودہ بد حالی کا سبب بنی ہوئی ہے- گرچہ ہم کئی وجوہات کی بنا پر اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں، تاہم سچ یہی ہے کہ صدیوں سے رکا ہوا ہندوستان 1947 میں اور بنگلہ دیش 1972میں ترقی کے سفر پر روانہ ہوا جب کہ ہم ابھی روانہ ہونے کا سوچ رہے ہیں-

اس طویل جنگ کے نتیجہ میں ہند کے مسلمان صدیوں تک ایک پسماندہ ہجوم کی حالت میں رہے، جنھیں اپنی تلوار بازی پر ناز رہا، بلآخر سر سیّد کی جدید علوم کی تحریک سے کچھ بہتری کے اثار پیدا ہوئے- لیکن ہم جو پاکستان میں ہیں، ہم نے کبھی اپنی تہذیبی نرگسیت پر اعتراض نہیں کیا جو کہ نت نئے جذباتی بحرانوں اور انتشار کو جنم دیتی رہتی ہے- صدیوں کا یہ جنگی ورثہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا- 1947 سے ابتک دونوں قوموں نے ہر سال کھربوں روپے اپنی بڑی بڑی فوجوں اور ایٹمی تیاریوں پر خرچ کئے ہیں جبکہ دونوں طرف کے عوام جہالت، بدحالی اور نفرت میں ڈوبے ہیں-

آج تک صرف کئے گئے کل جنگی اخراجات اگر تعمیر و ترقی پر خرچ ہوتے تو برصغیر کی حالت موجودہ یورپ جیسی ہوتی -

جنگ بلاشبہ ایک المیہ ہے، مگر ایک ایسا سماج نری بربادی ہے مکمّل تباہی ہے کہ جو خود سے اور ارد گرد کی ہر حقیقت سے دست و گریبان ہے گتھم گتھا ہے- ہمارا معاشرہ اپنے مخصوص طرز فکر کی وجہ سے خود سے، دنیا سے، دوسرے مذاہب سے اور اپنی ہی دینی اقلیتوں سے جنگ کر رہا ہے- جو شق الذات اور جنونی کیفیت کی طرف بڑھ رہا ہے- اس کیفیت کی جڑیں ہمارے دینی احساس فضیلت اور نرگسیت میں ہیں- ہم تنقید برداشت نہیں کرتے اور انسان کے سامنے اپنے قصور پر شرمسار ہونے کو ذلّت سمجھتے ہیں- ایک نیم خواندہ نوجوان بھی معمولی حیثیت کے آدمی کی تنقید برداشت نہیں کرتا-

یہ صورت حال یقینی طور پر مایوس کرنے والی ہے- بہت سے محب وطن بحالی کی امید چھوڑ بیٹھے ہیں- 1947 سے ابتک قوم مسلسل زوال کی طرف جا رہی ہے- ہر دور ہمیں پچھلے دور کے مقابلے میں زیادہ بے امید اور بد دل چھوڑ جاتا ہے- ہر دور میں ہمیں اپنے معیار پہلے سے گرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں- لیکن بے پناہ امکانات کے اس دور میں قومیں اس طرح حرکت نہیں کرتیں- ہماری یہ حالت ہرگزفطری نہیں ہے -

جو کچھ اب تک غلط تھا اسے غلط کہنا بجا لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ کچھ اچھا نہیں ہو سکتا، یا خرابی کا عمل رک نہیں سکتا- مانا کہ بڑے پیمانے پر تباہی کرنا انسان کی خصوصی صلاحیت ہے- انسانی ذہن کی قوت کا ایک منفی اظہار یہ بھی ہے- لیکن اسی ذہن کی صلاحیتوں میں دانش اور سائنس اوربرداشت اور شمولیت بھی ہیں-

ہم یقیناً تنقیدی طرزفکر اور انکسار کے رویے اپنا کر اور دوسروں کو ایسا کرنے کی دعوت دے کر تباہی کے عمل کو روک سکتے ہیں- ہمارے چاروں طرف معاشرے سنور اور ابھر رہے ہیں- آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری یہ بربادی کی زد میں آئ ہوئی مملکت اپنی حالت سے نکل نہیں سکتی؟ اور کیا ہمارے پاس کوشش کے سوا کوئی دوسرا راستہ بچا ہے؟


  پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن  میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.

مبارک حیدر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔