کلائمیکس سے انٹی کلائمیکس تک
گزشتہ چند روز سے پاکستان کے سیاسی سٹیج پر بھی ایسا ہی ڈرامہ کھیلا جارہا ہے جس کا آغاز 23 دسمبر کو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کے جوشِ خطابت سے ہوا اور بعدازاں ایک تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہونے والے واقعات اس میں دلچسپی کا سامان پیدا کرنے لگے جن کا آپس میں بہ ظاہر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا لیکن ایک غیر معمولی ربط ضرور ہے۔
ممکن ہے کہ یہ آبپارہ کی ’’کرشمہ سازی‘‘ ہو یا کوئی بیرونی قوت ملک میں اپنی منشا کے مطابق تبدیلی کی خواہاں ہو۔
شیخ الاسلام نے لاہور میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے چند مطالبات پیش کیے اور یہ الٹی میٹم دیا کہ مطالبات قبول نہ ہونے کی صورت میں حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا جائے گا۔
فضا میں ’’سیاست نہیں ر یاست بچاؤ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دیتی رہی۔ انتخابی اصلاحات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری سنجیدہ حلقوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے ماضی کے مضحکہ خیز دعوے ان کے لیے وبالِ جان بن گئے۔ چناں چہ یہ امید ظاہر کی جانے لگی کہ یہ سیاسی بلبلہ جلد ہی بیٹھ جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔
اس دوران متوازی طور پر کچھ ایسے ’’حادثات‘‘ رونما ہوتے رہے جو انتہائی غیر متوقع تھے اور تب اس ڈرامہ میں ٹریجیڈی اور سسپنس کے عناصر شامل ہوگئے۔
پاکستانی فوج نے اپنے سکیورٹی ڈاکٹرائن میں تبدیلی کرتے ہوئے ہندوستان کے بجائے طالبان کو سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔ نئے سال کا آغاز خوش آئند تھا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک کے طول و عرض میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے بالآخر مقتدر حلقوں کو یہ باور کروا دیا تھا کہ ہندوستان سے بہتر تعلقات قائم کیے بغیر طالبان کے خطرے سے نپٹنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ ’’اتقاق‘‘ تھا یا ’حادثہ‘؟ کشمیر کی سرحد پر جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔ یوں پاکستانی فوج کے ڈاکٹرائن میں تبدیلی ایک لایعنی کوشش ثابت ہوئی۔
اسی دوران کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی پر دہشت گرد حملہ پاکستانی عوام کے لیے ایک شاک کی مانند تھا۔ ملک بھر میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ ہزارہ عوام نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سانحہ کوئٹہ میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کے ساتھ طویل دھرنا دیا۔ کراچی سے گلگت بلتستان تک عوام کی ایک کثیر تعداد نے سڑکوں پر ڈیرے ڈال لیے۔ اقتدار کے ایوانوں میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ بالآخر حکومت کو پسپا ہونا پڑا اور بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ عمل میں آگیا۔
ہزارہ قتلِ عام کے خلاف دھرنا ختم ہوا تو شیخ الاسلام کا لانگ مارچ شروع ہوگیا۔ وزیرِ داخلہ رحمان ملک کا اس سارے ڈرامے میں کردار ایک کامیڈین سے مختلف نہیں تھا۔ وہ صحافیوں کو اکٹھا کرکے شیخ الاسلام کو دہشت گردی کے خطرات سے ڈرانے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف رہے لیکن موصوف کے ’’پایۂ استقلال‘‘ میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ یہ ان کا کوئی "خواب" نہیں تھا کہ وہ نیند سے بیدار ہوتے تو منظر یکسر مختلف ہوتا۔
شیخ الاسلام پنجاب یونیورسٹی میں کچھ عرصہ تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد تصوف کی جانب راغب ہوئے۔ بعدازاں پنجاب کے ’’فرشتوں‘‘ کی مدد سے سرکاری ٹی وی پر ایک پروگرام حاصل کرنے میں کامیاب رہے جس کے باعث ان کے علم کی دھاک ہر خاص و عام پر بیٹھ گئی۔ انہوں نے اپنے لیے خود ہی ’’شیخ الاسلام‘‘ کے لقب کا انتخاب کیا اور چند برس بعد ہی وہ سیاسی منظرنامے پر نمایاں ہوئے لیکن ناکامی پر گوشۂ نشینی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی اور کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کی جہاں وہ تحقیق و تالیف میں مشغول رہے۔
ایک روز یہ خبر آئی کہ وہ ’’ریاست‘‘ بچانے کے لیے وطن واپس آرہے ہیں۔ ضرور ان پر ’’کشف‘‘ ہوا تھا۔
شیخ الاسلام کے ہم عصر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہورکے ایک پروفیسر کا ڈرامائی سفر بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ تصوف کے بجائے افغان و کشمیر جہاد سے وابستہ ہوئے اور بعدازاں فلاحی سرگرمیوں کی جانب متوجہ ہوئے۔ اب یہ خبریں گرم ہیں کہ وہ انتخابی سیاست میں طبع آزمائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ حسنِ اتفاق تھا یا غیبی مدد۔ شیخ الاسلام حکومت پر تنقید کررہے تھے کہ سپریم کورٹ نے کرایے کے بجلی گھروں کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ ممکن ہے کہ یہ اس ڈرامے میں مزید سسپنس پیدا کرنے کی کوشش ہو۔
۔بہرحال سیاسی قیادت کو یہ ادراک ہوگیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ حکومتی ایوانوں میں سرگرشیاں ہوئیں۔ اپوزیشن کا اکٹھا اجلاس ہوا۔ اور یہ طے پایا کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ لیکن عمران خان مکمل طور پر تنہا نظر آئے۔ ان کے ’’گاڈ فادر‘‘ ریٹائر ہوچکے ہیں اور اب ان کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ وہ خاصے تذبذب کے بعد یہ فیصلہ کرپائے کہ یہ وقت لانگ مارچ یا دھرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔
سیاسی تنہائی شیخ الاسلام کی بے بسی کا سبب ٹھہری، یا غیب سے ملنے والے اشارے۔ وہ حسینی لشکر کے سالار ہوتے ہوئے یزیدی قوتوں کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہوگئے جو حسبِ توقع کامیاب رہے کیوں کہ پارسی تھیٹر کا اختتام بھی خوش کن ہی ہوا کرتا تھا تاکہ شائقین جب گھروں کو واپس لوٹیں تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہو۔
لیکن جناب! یہ ڈرامہ تو ایکسٹراز پر ہی چلتا رہا۔ ہیرو اور ولن منظرِعام پر آئے ہی نہیں، اس کے باوجود عوام کے ایک ٹکٹ میں دو مزے ہوگئے۔ انہوں نے کئی روز تک بھرپور انٹرٹینمنٹ ڈوز حاصل کی اور وہ بھی بلامعاوضہ!
لیکن ان لوگوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا جو یہ تصور کر رہے تھے کہ شاید کوئی خون خرابہ ہو۔ اور فوج کے سربراہ کو ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کا راگ الاپنا پڑے۔ فصلی بٹیروں کی تیاری مکمل تھی۔ لیکن ڈرامے کے سکرپٹ میں ایسا کچھ نہیں تھا، چناں چہ مایوس ہونا فطری تھا۔ پنجاب کے فرشتے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اس ڈرامے کا سکرپٹ ہی کم زور تھا۔ لیکن ان کا اشارہ شاید شیخ الاسلام کی ’’سولو پرفارمنس‘‘ کی جانب تھا۔ اس سے پہلے اور بعد کے واقعات سے ان کو کوئی سروکار نہیں تھا جنہوں نے درحقیقت ملک میں حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھی ہے۔
ہزارہ برادری کا قتلِ عام اور دھرنا، فوج کے ڈاکٹرائن میں تبدیلی اور کشمیرکی سرحد پر جھڑپیں، باڑہ میں قتلِ عام اور فوج کے خلاف احتجاج، سیاسی قیادت کا یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہونا اور طالبان کے خلاف فروغ پذیرنفرت۔ یہ بھی اس ڈرامہ کے اہم اجزا تھے۔
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر جاری ڈرامہ اب انٹی کلائمیکس کی جانب بڑھ رہا ہے جس میں کچھ "اتفاقیہ واقعات" یا "حادثات" رونما ہوں گے اور عوام کو اپنے دشمن کی شناخت ہوجائے گی۔ فی الحال ان کو اپنی قوت کا ادراک ہوا ہے۔ وہ ’’بوٹوں‘‘ کی گونج سے خوف زدہ نہیں ہوں گے اور سب سے اہم یہ ہے کہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھنے لگا ہے۔