نقطہ نظر

عاصمہ جہانگیر اور اختلاف رائے کا تحفظ

عاصمہ کے نظریات کے مخالفین کا کسی باعمل مکالمے کی جگہ تشدد کا سہارا لینا ایک المیہ ہو گا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی علم بردارعاصمہ جہانگیر نے اپنے خلاف قتل کی سازش پر کھل کر بات کر کے ملک میں پہلے سے موجود خوف کی فضا میں اضافہ کر دیا ہے

عاصمہ کے مطابق انہیں یقین ہے کہ یہ منصوبہ کسی انفرادی دماغ کی اختراع نہیں بلکہ ایسی سازش ہے جس کے تانے بانے ریاست کے سیکورٹی آپریٹرزتک جاتے ہیں۔

عاصمہ کو دنیا بھر میں مشکل ترین حالات میں اپنے دوٹوک موقف اور مشکل صورت حال میں اپنے خیالات کے اظہار کرنے پر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بطور ایک وکیل وہ ہمیشہ اس مسلمہ اصول پر قائم رہیں کہ ہر ملزم کوعدالت میں اپنےدفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔

سالوں پر محیط اس سفر کے دوران عاصمہ نے کبھی بھی اپنی حفاظت کے معاملے پر خطرے کی گھنٹیاں نہیں بجائیں مگراس موقع پر ان کے خدشات کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ ان کا الزام انتہائی سنگین ہے جس پر حکام کوفورا سے پیشتر تحقیقات شروع کرنی چاہیں ۔

بلاشبہ عاصمہ جن عظیم مقاصد کیلئے کام کر رہی ہیں اور جن لوگوں کو آواز فراہم کر رہی ہیں ان کیلئے وہ بہت اہم ہیں لیکن یہ ایک فرد کی حفاظت کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ لا محالہ اختلاف رائے کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو انسانی جدوجہد کیلئے انتہائی اہم ہے۔

عاصمہ پرعزم ہیں کہ ملک میں موجود ترقی پسند اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے لیکن یہ ایک المیہ ہو گا اگر عاصمہ کے نظریات کے مخالفین کسی باعمل مکالمے کی جگہ تشدد کا سہارا لیں۔

چونکہ مذاکرات اور بات چیت کو ترجیح دیئے جانےکی ضرورت  ہے لہذا محترمہ جہانگیر کے الزامات کے بعد کچھ مثبت اشارے بھی سامنے آئے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے ارکان کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی، جن میں ایم کیو ایم،جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی شامل ہیں، سبھی نے عاصمہ کے خلاف دھمکیوں کی شدید مذمت کی ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کو میڈیا اور منتخب اسمبلیوں جیسے دیگر فورم پر لیجایا جائے۔