نقطہ نظر

تو میں کیا کروں؟ روؤں؟

کاؤس جی کی ہر گزرتے دن کے ساتھ اس سسٹم سے لڑنے کی قوت اور جذبہ ہمیشہ ایک معمہ رہے گی۔

یہ پہلا موقع تھا کہ جب میں ایک خوبصورت مرسڈیز میں سفر کر رہی تھی اور وہ بھی ایک مرد کے ساتھ، اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ان کی عمر اسی سال سے زائد تھی اور وہ مجھے کلفٹن کے پارک میں لے گئے تھے۔ ان جیسا کوئی نہیں تھا لیکن اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، جی ہاں یہ کوئی اور نہیں اردشیر کاؤس جی تھے۔

میں اپنی زندگی میں کاؤس جی جیسے جرات مند اور باہمت شخص سے نہیں ملی لیکن برسوں تک مسلسل اپنے پاکستانی بھائیوں کو احساس دلانے والا یہ شخص اس دنیا سے منہ موڑ گیا۔ حالانکہ ہر شخص ہی ان کی شستہ بیانی، خوش لباسی اور لچکدار و بارعب شخصیت کا معترف تھا لیکن کاش کہ کوئی ان کے الفاظ کی اہمیت کو سمجھ پاتا؟۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب انہوں نے ہمارے نیوز روم کے دورے کے موقع پر مجھ سے سوال کیا تھا ۔۔۔ " کیا تم جانتی ہو کہ ٹونگا کہاں ہے"؟

اس موقع پر مجھے انتہائی کم مائیگی اور شرمندگی کا احساس ہوا اور میں جلدی جلدی گوگل پر ٹونگا کے حوالے سے معلومات ڈھونڈنی لگی تاہم کئی بار کوشش کے باوجود بھی مجھے ناکامی کا سامنا رہا اور انہیں اس سوال کا مثبت جواب نہ دے سکی اور بالآخر میں نے انہیں جواب دیا ۔۔ نہیں، میں نہیں جانتی۔

انہوں نے انتہائی افسردگی کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا کہ "جتنی جلدی ہو سکے ٹونگا کو تلاش کرو، پھر وہاں ایک لڑکا دیکھ اس سے شادی کرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلیے پاکستان سے کہیں دور چلی جاؤ۔

ایک ایسا شخص جس نے ہمیشہ دوسروں کو پاکستان چھوڑنے اور کسی اور جگہ بہتر زندگی گزارنے کے مشورے دیے، اس نے کبھی خود اس نصیحت پر عمل نہیں کیا۔

جب کوئی ان سے پوچھتا کہ وہ خود کیوں یہاں رکے ہوئے ہیں تو وہ قدرے جھنجھلاہٹ سے جواب دیتے "کیوں جاؤں بھائی" اور پھر فوراً جواب دیتے "یہ میرا گھر ہے"۔

میں ان سے سوال کیا کہ "لیکن اس حقیقت کا آپ کیا جواب دیں گے کہ آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہردلعزیز شہر کو خوف ودہشت کی علامت بنتے دیکھا ہے؟۔

انہوں نے انتہائی کرب اور افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ ذومعنی الفاظ میں جواب دیا "تو میں کیا کروں، روؤں؟"

وہ 1988 سے 2011 تک مسلسل 23 سال تک ڈان کیلیے ہفتہ وار لکھتے رہے۔ قارئین انتہائی اشتیاق سے ان کی تحریر پڑھتے اور ان کے دلیرانہ انداز اور فراست کی داد دیتے۔ ملک بھر میں طلبا کو تعلیم کے حصول کیلیے مالی معاونت فراہم کرنا ہو یا کراچی میں مینگرووز کے مسئلے پر آواز اٹھانا، کاؤس جی نے کبھی بھی بولنے یا عمل کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کی۔

تیرہ اپریل 1926 کو کراچی میں پیدا ہونے والے کاؤس جی نے بائی ویربائی جی سوپری والا پارسی ہائی اسکول اور ڈی جے سندھ گورنمنٹ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے خاندانی کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ 1953ء میں انہوں نے نینسی ڈنشا سے شادی کر لی جن سے ان کے دو بچے ہیں، بیٹی ان کے گھر کے ساتھ ملحقہ گھر میں رہتی ہے جبکہ ان کا آرکیٹیکٹ بیٹا اس وقت امریکہ میں مقیم ہے۔ ان کی اہلیہ کا 20 سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔

ایک چھوٹا خاندان ہونے کے باوجود وہ کبھی اکیلے محسوس نہیں ہوئے، گھر کے باہر وہ ہمیشہ شہر کے مسائل حل کرنے کیلیے لڑتے نظر آئے جبکہ گھر کے اندر پالتو جانور ان کی توجہ کا مرکز ہوتے۔

ایک انٹرویو کیلیے جب ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو ان کا کتا میری طرف لپکا، میں اس کی اس حرکت سے خوف کے مارے اچھل پڑی اور ان سے درخواست کی کہ براہ مہربانی اسے پیچھے ہٹائیں۔

کاؤس جی نے انتہائی غصیلے لہجے میں کتے کو پکارتے ہوئے کہا "ملا ہے کیا؟"۔

ان کی آواز سن کر کتا وہیں ٹھہر گیا اور میں نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس سیٹ پر بیٹھ گئی۔

ان کی زبانی کراچی کی داستان سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ کسی اور ہی دنیا کی بات کر رہے ہیں۔ وہ جس خوشی سے کراچی کے ابتدائی ایام کی باتیں کرتے تو سننے والا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر ان کے الفاظ کے پیچھے چھپے دکھ کا اندازہ کر سکتا تھا تاہم جب کبھی بھی وہ بھٹو کی بات کرتے تو ان کا لہجہ یکدم تلخ ہوجاتا۔

انیس سو بہتر میں بھٹو نے انہیں 72 دن کیلیے جیل بھیج دیا تھا۔ وہ جب کبھی اس واقعے کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک اور چہرے پر ایک شرارتی مسکراہٹ نمودار ہو جاتی۔

وہ آخر وقت تک قسم کھا کر کہتے رہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ بھٹو نے کس وجہ سے انہیں جیل بھیجا تھا تاہم ان کی بے باک فطرت اور دور کی سوچ کو جانتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ یقیناً انہوں نے ہی کچھ بولا ہو گا۔

انہوں نے اپنی بے باک فطرت کے باعث متعدد لوگوں کو ناراض جبکہ کئی دفعہ انہیں اس کے جرم میں دھمکیاں بھی موصول ہوئیں لیکن کیا یہ سب چیزیں ان کے عزم کو کمزور کر سکیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔

انہوں نے ہمیشہ ملک کی خراب صورتحال کا ذمے دار زائد آبادی اور ناقص نظام تعلیم کو ٹھہرایا۔ وہ ہمیشہ کہتے کہ اگر یہ دونوں مسائل حل کر لیے جائیں تو پھر ہر مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ہم کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں واقع باغ رستم میں ٹہل رہے تھے، وہ پارک جو انہوں نے خود بنایا اور اسے اسے اپنے والد کا نام دیا۔

انہوں نے گھٹنے تک آنے والے اپنے گاؤن کو پہنا اور باغ میں لگے پودوں اور جھاڑیوں کے درمیان ٹہلنے لگے، میں نے بغیر کسی توقف کے ان کے پیچھے پیروی کرتے ہوئے ان کے الفاظ کو اپنی نوٹ بک میں رقم کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران میں ان کی گفتگو کے سحر میں ایسی کھوئی کہ میں ان کی باتیں نوٹ کرنا بھول گئی، یقیناً ان کی گفتگو ہی ایسی ہوتی تھی کہ ہر شخص اس کے سحر میں کھو جائے۔

انہوں نے انتہائی خوشی سے فخریہ انداز میں باغ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ "یہ میرے لیے نہیں بلکہ سب کیلیے ہے"۔

چاہے فنڈز ہوں، زمین ہو یا حکمت، کاؤس جی نے کبھی بھی لوگوں تک اس کا فائدہ پہنچانے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی حالانکہ سیاستدانوں اور حکام نے انہین کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن اس کے جواب میں کاؤس جی نے عوامی سطح پر پاکستانی رہنماؤں کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موققع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کے خیالات قارئین کیلیے سب سے قیمتی اثاثہ اور یہی وجہ ہے کہ جب سال 2011 میں انہوں اپنا ہفت روزہ کالم لکھنا بند کردیا تو دنیا بھر سے ان کے قارئین نے انہیں یہ فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا، قارئین کا کہنا تھا کہ ان باتیں کوئی نہیں تحریر کرتا لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ کی طرح اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہی چیز لکھ لکھ کر بور ہو چکے ہیں اور اب انہیں لگتا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔

اور اب وہ اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ تبدیلی کی موہوم سے امید مزید دھندلا گئی ہے۔ پاکستان کیلیے ان کے خواب شاید کبھی پورے نہ ہوسکیں گے لیکن ان امید اور کوششوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔

زیتونی رنگ کا تھری پیس سوٹ پہنے، جیب میں ایک چمکدار رومال اور ہاتھ میں چھڑی لیے ڈان کی راہداری میں ٹہلتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ عیاں تھی۔

ان سے ملنے سے قبل میں انتہائی نروس تھی اور یہ سوچ رہی تھی کہ آخر اس وہ وقت کیا سوچ رہے ہوں گے: کیا اس وقت ان کی سوچ کا دھارا جناح کی جانب ہو گا، یا پھر وہ صحافت کے بارے سوچ رہے ہونگے؟ یا پھر ان سوچیں اس بات کی جانب مرکوز ہوں گی کہ پاکستان میں خواتین ٹخنے سے اوپر شلوار کیوں نہیں پہنتیں؟۔۔۔۔ مجھے ان سب خیالات کا اس لیے پتہ تھا کیونکہ وہ ایک بار مجھ سے اس بارے میں گفتگو کر چکے تھے اور ان کے نزدیک یہ چیزیں معمہ تھیں۔

میرے نزدیک کاؤس جی کی ہر گزرتے دن کے ساتھ اس سسٹم سے لڑنے کی قوت اور جذبہ ہمیشہ ہی ایک معمہ رہے گی۔

شائمہ سجاد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔