دنیا کی کوئی بھی زبان اپنی بے شمار خوبیوں کے باوجود عیب اور خامیوں سے خالی نہیں دنیا کی کسی بھی زبان کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خامیوں سے بالکل پاک ہے۔
کسی کی لکھائی بہت پیچیدہ ہے تو کسی کے قواعد انتہائی مشکل ہیں اور کسی میں بعض مخصوص آوازیں موجود نہیں ہیں۔ مثلاً انگریزی زبان میں ت، ڑ، غ اور ق کی آوازیں نہیں ہیں۔ فارسی زبان میں ٹ، ڈ اور ڑ کی آوازیں موجود نہیں جبکہ عربی زبان میں ٹ، پ، ج، ڈ، ڑاور گ کی آوازیں نہیں ہیں۔ سندھی، ہندی اور اردو زبان میں سب سے زیادہ آوازیں ہوتی ہیں۔
ہمیں انگریزی زبان سے کچھ الرجی سی رہی ہے۔ بھلا بتائیے کافروں کی زبان ہے، ایک مؤمن مسلمان کے قلب میں نجس لوگوں کی زبان کہاں سے سمائے؟
قیامت کی گھڑی بس آیا ہی چاہتی ہے، اسی لیے جگہ جگہ انگریزی اسکول کھل گئے ہیں۔ ورنہ جب مردِمؤمن حضرت ضیاءالحق کا دور دورہ تھا تو انہوں نے قوم کو بہت سی مکروہات، بدعات اور کفریہ رسومات سے دور کرنے کے لیے جہاں اور بہت سے اقدامات کیے، وہیں پاکستانیوں کو گوروں کی اس منحوس زبان سے تاقیامت محفوظ رکھنے کے لیے بھی راست اقدام فرمایا۔
ہم شاید اس وقت دوسری جماعت کے طالبعلم رہے ہوں گے۔ ایک تو حضرت نے اس سال تمام طالبعلموں کو بغیر امتحان دیے ہی اگلی کلاس میں پہنچوادیا، دوسری مہربانی یہ کی کہ انگریزی زبان کو پرائمری جماعتوں سے ختم کردیا، یعنی جو کچھ ہم نے پہلی جماعت میں پڑھا تھا، وہی کچھ چار سال کے وقفے کے بعد چھٹی جماعت میں ہمیں پڑھایا گیا۔
ایک خصوصی اقدام یہ بھی کر گئے حضرت کہ میٹرک کے کورس میں انگریزی کی کتاب اُسی سطح کی رہی جس سطح کی پہلے تھی. چنانچہ آٹھویں جماعت کے بعد طالبعلموں کو نویں جماعت میں داخل ہونے کے بعد کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ کسی فٹ پاتھ پر چلتے چلتے اچانک گٹر میں جاگرے ہوں!
اس طرح طالبعلموں کو یا تو انگریزی سے شدید نفرت ہوجاتی تھی یا پھر انگریزی کا خوف بھوت بن کر ساری زندگی ان کے ذہن سے چمٹ جاتا تھا. کس قدر نیک کام کیا کہ ہماری نسل کے بیشتر لوگ سوائے ہمارے جو بزرگ ہوچکے ہیں، انگریزی جیسی منحوس زبان سے دُور دُور ہیں اور کافروں کی دست بُرد سے بچے ہوئے ہیں۔ دُور تو ہم بہت ہیں اس کلموہی انگریزی سے بس ہم بزرگ نہیں ہوئے ہیں۔
خدانخواستہ انگریزی زبان اگر سمجھ جاتے تو کافروں کے علوم پڑھتے اور ایمان خراب کرتے. ایمان تو کسی صورت خراب نہیں ہونا چاہیے بھلے سے زندگی خراب ہو، نیت خراب ہو، دل خراب ہو، شلوار خراب ہو وغیرہ وغیرہ
حضرت ضیاءالحق اب اِس دنیا میں نہیں رہے اور اُس دنیا میں بھی پہنچ پائے یا نہیں؟ اس کا کوئی تصدیقی خط اب تک تو موصول نہیں ہوسکا لیکن حضرت کے فیض یافتہ اور حواس باختہ بعض اہل علم وادب جن کا ادب اب کہیں نہیں کیا جاتا، اردو زبان کو کافروں کی زبان سے محفوظ و مامون رکھنے کے لیے اردو کی ہتھیلی پر فارسی اور عربی کی سرسوں جمانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انہے اہل علم و ادب اور ماہرین لسانیات کی نئی نسل سے یہ شکایت ہے کہ وہ اردو زبان میں انگریزی کی آمیزش کرتے چلی جارہی ہے۔
ہمیں ان اہل علم و ادب سے لاکھ شکایت رہی ہو لیکن ہم اپنی نسل کے نوجوانوں سے اتنا ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ ایک حد تک تو ان اہل علم وادب کی شکایت جائز معلوم ہوتی ہے کہ جہاں اردو کا لفظ موجود ہے تو پھر انگریزی لفظ کا اردو بول چال اور لکھت پڑھت میں استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟
لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ضمن میں سب سے بڑا مسئلہ خود بعض اہلِ ادب اور ماہر لسانیات ہیں جو اردو کو خالص کرنے کی کوشش میں اِس قدر چھان پھٹک کردیتے ہیں کہ کنکر پتھر کے ساتھ اصل اناج بھی نکل جاتا ہے۔
جی ہاں کچھ ایسا ہی ہے!
تختۂ مادر یعنی (Mother Board) سے تو ہم آپ کو پہلے ہی متعارف کروا چکے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ آلۂ لمسی قرص کیا چیز ہے؟ ارے نہیں جناب! یہ آلۂ تزکیہ نفس کی قسم کی کوئی چیز نہیں. نہیں نہیں یہ تصوف کی کوئی اصطلاح بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ قبلہ بڑے حکیم صاحب کی ایجاد کردہ دوا ہے جو فولادی قوت کے حصول کے لیے استعمال کرائی جاتی ہے۔ یہ تو ضیاءالحقویانہ دور میں مسمیرائز ہونے والے اہلِ علم و ادب نے ٹچ ٹیبلیٹ Touch Tablet کو مسلمان کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے اور کلیدی تختہ، میت نہلانے کا تخت ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے کمپیوٹر کا کی بورڈ (Key Board) ہے. برقیاتی تحریک، تحریک انصاف کی طرز کی کسی جماعت کا نام نہیں یہ Electronic Pulses کا اسلامی نام ہے۔
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہمیں ذہن اور دماغ کے موضوع پر کچھ معلومات درکار تھیں، ان ہی دنوں پرانی کتابوں کے اسٹال سے ہمارے ہاتھ لگی مقتدرہ قومی زبان کی کتاب "ذہن و دماغ" جسے دیکھ کر ہی دماغ گھوم گیا اور سر چکرانے لگا۔ جب پڑھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ الہامی طرز کی کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں، اس لیے وضو تو کرہی لینا چاہیے۔
آپ بھی دیکھیے کہ میڈیکل کی کچھ اصطلاحات کو اسلامائزڈ کردیا جاتا ہے تو وہ کس قدر مقدس مقدس سی محسوس ہوتی ہیں۔ مثلاً اعصابی مرسل، مرکز نظر شکیبہ، مکانی افعال، راس النخاع، شجرینے، مامونیات، مخروطی عصبانیہ، محوریہ وغیرہ وغیرہ....مقناطیسی گمکی ٔ عکس سے مراد Magnetic Resonance ہے. اگر یہ کتاب گھریلو خواتین کے ہاتھ لگ جائے تو شاید کچھ تو اس سے استخارہ بھی نکالنا شروع کردیں، جو بالکل درست بھی ثابت ہوسکتا ہے!
یہ جو کچھ علم وادب کے ساتھ ہمارے ہاں اہلِ علم و ادب کررہے ہیں، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پختہ ایمان اور صمیم قلب کے ساتھ کررہے ہیں، اور ان کا ارادہ ہر صورت میں اردو کو کافروں کی زبانوں کی نجاست سے بچانا ہے، لیکن اس سلسلے میں وہ اردو میں جس طرز کی فارسی زبردستی ٹھونستے چلے جارہے ہیں، یہ وہی طریقہ ہے کہ جس طرح ویگن کا کنڈکٹر ویگن میں مسافروں کو ٹھونستا ہے، اُس طرز کی فارسی تو ابن انشاء جب ایران گئے تھے تب ایران میں بولی نہیں جاتی تھی۔ حالانکہ وہ یہاں سے اچھی خاصی فارسی پیک کرواکے لے گئے تھے لیکن وہاں جاکر پتہ چلا کہ اس کا تو چلن ختم ہوگیا یا پھر شاید کبھی تھا ہی نہیں!
ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں اسکولوں میں آٹھویں جماعت تک فارسی پڑھائی جاتی تھی، لیکن اب فارسی کے حوالے سے صرف یونیورسٹیز میں قائم شعبۂ فارسی سے ہی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
پتہ نہیں یہاں جو فارسی پڑھائی جارہی ہے وہ ایران کی فارسی سے مطابقت رکھتی بھی ہے یا نہیں اس لیے کہ اگر یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے طلباء و طالبات ہوم ورک کا مترادف جدید فارسی میں دیکھیں تو یقیناً چونک جائیں، ممکن ہے قہقہہ بھی لگاتے ہوں. اس لیے کہ جدید فارسی زبان میں ہوم ورک کو تکلیفِ شب اوّل یا تکلیف شب دوئم کہتے ہیں۔
یہ عام سی بات ہے کہ پاس ہونے والا طالب علم خوش ہوتا ہے اور فیل ہونے والا مغموم. لیکن اگر یہ طالب علم جدید فارسی سیکھ رہا ہو تو یہ کیفیات مزید دوچند ہوسکتی ہیں، اس لیے کہ فارسی زبان میں پاس ہونے کو قبول اور فیل ہونے کو مردود کہتے ہیں۔
جدید فارسی کے مزید دلچسپ لطائف؛
ایران میں اگر کوئی کف کہے تو قمیض یا آستین کا کف نہیں بلکہ جھاگ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ فارسی میں گاہک کو مشتری کہتے ہیں، بحری جہاز کو کشتی.... جبکہ بندرگاہ کو صرف بندر کہتے ہیں، اور شاید بندر کو کچھ نہیں کہتے ہوں، ان کے لیے فقط اتنا کہا جاتا ہو کہ اگر وہ گھر لوٹ آئیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا.
جدید فارسی میں پارسل کو بستہ، عجائب گھر کو موزہ، کدال کو بیل، چیتے کو پلنگ، سینگ کو شاخ، برقعہ کو چادر، چیونٹی کو مورچہ اور چیونٹے کو مور کہتے ہیں۔
ایران میں اگر کوئی آپ سے درس کے بارے میں دریافت کرے تو آپ کھڑے کھڑے اسے اخلاقیات کادرس دینا نہ شروع کردیں، دراصل وہ آپ سے درانتی طلب کررہا ہے۔
حضرت ضیاءالحق کے فیض یافتہ ہمارے بعض اہل علم کو اگر جدید فارسی سیکھنا پڑجائے تو ان کے لیے خاصا جاں سوز بھی ہوسکتاہے، اس لیے کہ فارسی میں اودبلائو کو سگِ لاہور کہتے ہیں، پسو کو کیک، رسید کو قبض، ڈرافٹ کو برأت، بغاوت کو قیام کہا جاتا ہے۔
جدید فارسی زبان میں کھٹمل کے لیے ساس کا لفظ مخصوص ہے، مینا کو شارک کہتے ہیں، مسافر کو غریب، نرس کو پرستار، وھیل مچھلی کو بال اور فٹبال کو توپ، قلی کو باربر اور دکاندار کو بازاری جبکہ ہمارے ہاں اگر کسی دکاندار کو غلطی سے بازاری کہہ دیا جائے تو پھر شاید کہنے والا آئندہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہ رہے۔
کبھی ہمارے ضیاءالحق زدہ لسانی ماہرین کا ایران جانا ہو اور ایران میں کوئی صاحب ان سے کہیں کہ وہ اُن کو تکلیف دینا چاہتے ہیں تو وہ ناراض ہو جائیں گے، لیکن دراصل وہ اُن موصوف کو کوئی کام یعنیJob پیشکش کررہے ہوں گے، ہمیں یقین ہے کہ وہ کام یعنی Job ضرور گورکن کی ہوگی، اس کام میں ہمارے بہت سے لسانی ماہرین کو شاید کوئی مشکل پیش نہ آئے کہ وہ برسوں سے اردو زبان کو زندہ درگور کرنے کا کام تو نہایت احس طریقے سے کرہی رہے ہیں۔
ایران میں کسی صاحب کے لیے کہا جائے کہ وہ گرفتار ہیں تو بھی پریشان نہیں ہونا چاہیےکہ گرفتار کے جدید فارسی میں معنی ہیں معروف اورکسی کے نام کے ساتھ دستگیر کا لفظ استعمال کیا جائے تو سمجھ جائیں کہ اُسے گرفتار کر لیاگیا ہے۔
ہمارے بعض اہل علم وادب اردو زبان میں جس قسم کی فارسی اُنڈیل رہے ہیں، اسے دیکھ کر تو ہمیں کچھ کچھ یقین سا ہونے لگا ہے کہ انہوں نے فارسی زبان ضرور اُسی طرح سیکھی ہوگی جس طرح مغلیہ عہد کے ایک دیہات کے لوگوں نے سیکھی تھی۔
جب ہندوستان میں مغل بادشاہ بادشاہ کھیل رہے تھے تو اس دور میں ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی اور ہندوستان کے عام شہری اس زبان سے بالکل نابلد تھے، یہ شاید برصغیر کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ سرکاری زبان وہ ہونی چاہیے جو یہاں کے عام باشندے سمجھ نہ سکیں، اگر آج ہمارے ملک کے 80 فیصد باشندے انگریزی سمجھنے لگیں گے تو پھر شاید سرکاری زبان ٹ کی بولی ہوگی، ف کی بولی تو ہم سب ہی ماشاءاللہ بچپن ہی میں سیکھ لیتے ہیں۔
خیر عہد مغلیہ میں تمام دفتری و سرکاری معاملات فارسی زبان میں ہی نمٹائے جاتے تھے۔ ایک گاؤں کے لوگوں کو فارسی زبان سے ناواقفیت کی بناء پر بہت نقصان اُٹھانا پڑرہا تھا، گاؤں کے ایک سیانے نے انہیں سمجھایا کہ تمہارے نقصان کی وجہ دراصل یہ ہے کہ تم فارسی نہیں جانتے، چنانچہ سب نے مل کر فیصلہ کیا ان کے پاس فارسی ہونی چاہیے اور یوں وہ مشترکہ طور پر فارسی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ گاؤں سے باہر نکل کر یہ قافلہ ابھی کچھ دور ہی پہنچا ہوگا کہ ان لوگوں کو دوٹھگ مل گئے، وہ دونوں کہیں سے دو مٹکے چراکر لے جارہے تھے، ان مٹکوں میں شہد کی مکھی کے چھتے مکھیوں کی بڑی تعداد کے ساتھ موجود تھے، مٹکوں کا منہ کپڑے سے بند کیا ہوا تھا۔ اتنے سارے لوگوں کو لاٹھیوں ڈنڈوں سے لیس ،پیدل اور سوار ایک جانب جاتے دیکھا تو دونوں ٹھگوں نے ان سے معاملہ دریافت کیا، گاؤں والوں نے ان دونوں کو اپنی روداد سنائی تو ٹھگوں نے آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے اشارے کیے اور پھر گاؤں والوں سے بولے کہ یہ دونوں مٹکے فارسی سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔
گاؤں والے تو نکلے ہی فارسی کی تلاش میں تھے، ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ گاؤں کے باہر ہی فارسی انہیں مل جائے گی۔ وہ تو یہ سوچ کر نکلے تھے کہ نامعلوم کتنی مسافت طے کرنی پڑے اور کتنے مہینے کا سفر ہو، ان کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، لہٰذا اُنہوں نے یہ فارسی بھرے مٹکے منہ مانگی قیمت پر خرید لیے۔ ٹھگوں نے گاؤں والوں کو بتایاکہ رات کے وقت گاؤں کے تمام مرد ایک بڑے کمرے میں جمع ہو جائیں اور کمرہ بند کرکے اپنے کپڑے اُتار دیں پھر اِن دونوں مٹکوں کا منہ کھول دیں، یوں گاؤں کے تمام مرد راتوں رات فارسی دان ہوجائیں گے۔
گاؤں والوں نے ٹھگوں کی ہدایت پر کماحقہ عمل کیا. نتیجہ کیا نکلا؟ ظاہر ہے گاؤں کے سارے مرد فارسی دان بن گئے، چاہے خود ان کے تشریف دان کہیں رکھنے کے لائق نہ رہے ہوں!