پاندان سے چہار بیت تک: وہ گھر جہاں ’ثقافت‘ رہتی ہے
چار کمروں کا چھوٹا سا گھر کواڑ کھلتے ہی ننھے سے آنگن سے واسطہ پڑتا ہے جس میں لگا آم کا پیڑ صحن کے بڑے حصے پر اپنی چھاؤں بچھائے اور لگ بھگ آدھی کیاری گھیرے ہوئے ہے۔ پختہ صحن کی حاشیہ بنی اس کیاری میں گلاب، موتیا اور گیندے کے رنگ لہرا رہے ہیں۔
نظر ذرا آگے بڑھے تو برآمدہ اور اس کے کونے پر رکھی گھڑونچی پر دو مٹکے دھرے نظر آتے ہیں جن کے بیچوں بیچ ایک مٹی کا کٹورا ڈھکا رکھا ہے۔ اندرخانے اپنی خنکی پر مسرور اور مغرور فریج سوچتا ہے، تو سوچتا رہے کہ میرے ہوتے ہوئے ان مٹکوں کا کیا کام؟ مگر دادا جان اور دادی جان اس فریج کے پاس کبھی نہیں پھٹکے، وہ مٹکے سے ہی پانی پیتے ہیں۔ اب وہ ضد پر اڑے ہیں یا روایت سے جُڑے ہیں، بہر حال گھر کے بڑے ہیں چنانچہ اس گھر میں مٹکوں کا رواج جاری ہے۔
برآمدے کے دوسرے کونے کی طرف نظر جاتی ہے تو دیوار پر لگی کھونٹی پر ٹنگے پنجرے میں بیٹھے میاں مٹھو دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی آواز میں کچھ سن کر آپ کی سماعت چونک اُٹھی۔ آپ نے بالکل ٹھیک سُنا یہ ’آداب عرض ہے حضور‘ ہی کہہ رہا ہے۔ دادا جان اپنے قریبی احباب کا استقبال انہیں الفاظ سے کرتے ہیں اور ’اسلام و علیکم‘ کے ساتھ ’آداب و تسلیم‘ بھی اہل خانہ کے خوش آمدیدی کلمات میں شامل ہے۔ سو سُنتے سُنتے یہ بھی سیکھ گئے۔
یہی نہیں، انہوں نے اس گھر کی بول چال سے اور بھی بہت کچھ مستعار لیا ہے۔ بعض اوقات’مزاج بخیر’، ’دھت تیرے کی‘، ’ایسی کی تیسی‘ بھی بول جاتے ہیں۔ وہ تو فقروں کی طوالت اور پیچیدگی آڑے آگئی ورنہ مٹھو میاں اس کُنبے کی رچی، سنوری، سجی بنی زبان سے اور بھی بہت کچھ سیکھ لیتے جیسے آندھی طوفان کا سماں بندھتے ہی ’جل تو جلال تو، صاحب کمال تو، آئی بلا کو ٹال تو‘ کا ورد، نوزائدہ بچوں کو ہنسانے کے لیے ’آغوں غٹرے، پچھواڑے بندھے بکرے، بکرے ہوئے حلال، مُنا ہوا نہال!‘ کی دُلار بھری صدائیں، چلنا سیکھتے بچوں کی آڑھی ٹیڑھی چال کے ساتھ اور ان کے دھم سے گرنے پر بڑوں کا ہنستے ہوئے ’اڑاڑاڑادھم‘ کہنا۔
چھوٹوں کے سلام پر بزرگی گُھلی آواز میں جیتے رہیے!’ کی شہد سی میٹھی دعا، دادی جان کی پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کو بستر پر سنائی جانے والی کہانیاں جو ’ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ اور ’گئے دنوں کا ذکر ہے‘ سے شروع ہوتیں پھر کسی میں ’چل میاں مٹکے ٹھامکھ ٹھوں جہاں کی بڑھیا وہیں کا تو‘ کی گردان ہوتی تو کسی کی پہچان، ’ایک کو کھاؤں، دو کو کھاؤں یا ساتوں کو کھا جاؤں‘ کا استفہامیہ فقرہ بن جاتا۔
کاموں سے فراغت کے بعد گھر کی عورتوں کی ایک دوسرے سے پوچھی جانے والی پہلیاں،’ہری تھی من بھری تھی‘، ’اتنی سی ہلدی سارے گھر میں مل دی‘ اور وہ فرصت کے اوقات میں نوجوانوں کی بیت بازی میں سنائے جانے والے شعر میاں مٹھو اپنی استعداد کی کمی کے ہاتھوں مجبور ہوکر محاوروں، کہاوتوں، اشعار، الفاظ کے کتنے بڑے خزانے سے محروم رہ گئے۔
مٹھو میاں تو خیر پرندے ہیں لیکن کوئی انسان اس گھر میں چار گھڑی بھی ٹک گیا تو زبان و بیان سے کچھ نہ کچھ آراستہ ہوکر ہی اٹھے گا۔ اگر یقین نہیں تو برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھ جائیے جس پر سفید براق چاندنی لہریں مار رہی ہے۔ دیوار کے ساتھ گاؤ تکیے لگے ہیں اور ایک طرف چم چم چمکتی پٹاری رکھی ہے جو دادی جان کے آتے ہی طرح طرح کی خوشبوئیں اُڑاتی کھلے گی۔
یہاں اس اترتی شام کے ساتھ جو بزم سجے گی وہ آپ کا دامن زبان کی رعنائیوں اور رنگینیوں سے بھر دے گی۔ لیجیے دادی جان نے سلام پھیرا، دعا مانگ کر ’چھو چھو‘ کرتی نماز کی چوکی سے اٹھیں اور غرارہ سنبھالے دھیرج سے چلتی اپنے کمرے سے نکل کر برآمدے میں تخت پر آبراجیں، پٹاری اپنی طرف کھینچی اور لگیں گلوری بنانے۔ پان دان کی ’کھٹ‘ کے ساتھ ہی گویا آوازوں کی رم جھم شروع ہوگئی، آہستگی، شائستگی اور وقار لیے مہذب لہجے۔
باورچی خانے میں بڑی بہو اور چھوٹی بہو کی چوڑیوں کی کھنکھاہٹ کے ساتھ کھنکنتے چھنکتے برتن، مسجد سے سپارہ پڑھ کر آنے والے بچوں کی ’اسلام و علیکم دادی جان، اسلام و علیکم بڑی امی، اسلام و علیکم چچی جان‘ کا دھیما سا شور، اپنے اپنے کمروں سے نکلتے بڑے صاحبزادے کی بیوی سے ’ارے آج چائے کے ساتھ پکوڑے بھی تل لیجیے‘ کی فرمائش جسے سُن کر چھوٹی بہو کا مسکراتے ہوئے کہنا، ’آپ کے حکم سے پہلے ہی اس پر تعمیل شروع ہوچکی ہے بھائی جان!‘
یہ ’جان‘ کا لاحقہ یہاں رشتوں سے جُڑ کر انہیں جان کی طرح عزیز ہونے کی خبر دیتا ہے اور تعلق میں جان ڈال دیتا ہے۔ چچا جان، چچی جان، پھوپھی جان، پھوپھا جان، ماموں جان، ممانی جان، خالہ جان، خالو جان۔ البتہ تایا، بڑے ابا ہیں اور تائی بڑی امی ہیں۔ اس خاندان میں کوئی بڑا بھائی اور بہن، خواہ سگا ہو یا چچیرا، خلیرا، ممیرا (چچازاد، خالہ زاد، ماموں زاد) اس کا نام نہیں لیا جاتا۔ کوئی بھائی جان ہے تو کوئی بھائی صاحب، کسی کو بھیا کہا جاتا ہے تو کسی کو میاں بھائی اور بہنوں کے لیے تو القابات کی بہتات ہے۔ باجی، بجیا، بجو، آپا، اپی، اپیا۔
بڑے چھوٹوں کو ’میاں‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور گھر کی بہوئیں تاعمر بالوں میں سفیدی اور چہرے جھریوں کا جال ابھرنے پر بھی ’دلہن‘ کہی جاتی ہیں۔ جیسے دادا جان ابھی آکر بڑی یا چھوٹی بہو سے کہیں گے ’بہو! ہمیں بس آدھی پیالی چائے دینا، قدح بھر کر مت دینا‘۔
لو آگئے۔ اپنے سر اور داڑھی کی سفیدی کے رنگ کا کرتا پاجامہ، سر پر دوپلی ٹوپی دروازے پر دستک دیتے اور کھنکھارتے ہوئے داخل ہو رہے ہیں۔ سیاہ جوتی کی ہلکی سی ’پٹ پٹ‘ ان کو دیکھتے ہی چھا جانے والی مودب خاموشی گونج رہی ہے۔ برآمدے میں پہنچے اور سلام اور و علیکم کی بھنبھناہٹ میں تخت کے دوسرے سِرے پر گاؤ تکیے سے پیٹھ ٹکا کر نیم دراز ہوگئے۔ اتنے میں بیٹی ’کشتی‘ لیے آپہنچی، کشتی میں ایک طرف دبیز اور نقش و نگار بنے غلاف سے ڈھکی چائے دانی ہے تو دوسری طرف صاف شفاف چمچماتی پیالیاں اور تشتریاں سلیقے سے رکھی ہیں۔
بیٹی کے ساتھ چھوٹی بہو رکابی میں بھاپ اٹھتے پکوڑے اور چٹنی سے بھرا پیالا لے آئیں اور تخت کے درمیان کشتی اور رکابی رکھ دی گئی۔ جس باورچی خانے سے یہ چائے اور پکوڑے آئے ہیں وہاں بنتے پکوان اس گھرانے کے تقسیم کے بعد بننے والے رشتے ناتوں کا قصہ بہ خوبی سنا دیتے ہیں۔ لکھنؤ کے داداجان اور دہلی کی دادی جان کی اولاد اور بہنوں بھائیوں کے رشتے پٹنہ، حیدر آباد دکن، احمدآباد، بمبئی، جے پور سے آنے والے خاندانوں میں طے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس باورچی خانے میں گلاوٹ کے کباب، بہاری کباب، نہاری، بریانی، قورمہ، پسندے، کھنڈوی، ڈبل کا میٹھا، پاپڑ کا سالن، ڈوسا، زردہ، فیرنی کے ذائقے چولہوں سے اترتے ہیں اور ان کی خوشبوئیں رقص کرتی رہتی ہیں۔
چلیے باورچی خانہ چھوڑ کر ہم پھر برآمدے کی طرف چلتے ہیں جہاں چائے اور پکوڑوں کا دور ختم ہوتے ہی دادا جان ’لائیے، پان کھلائیے‘ کہتے دوبارہ گاؤ تکیے سے ٹک گئے ہیں اور پٹاری کا ڈھکنا دوبارہ کھل گیا ہے۔
اتنے میں دستک ہوئی اور ساتھ ہی ’میں ہوں، آجاؤں؟‘ پوچھنے والے کو پختہ یقین ہے کہ اہل خانہ اس کی آواز اچھی طرح پہچانتے ہیں اس لیے نام بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ ’آئیے چھوٹے میاں‘ داداجان کی گرج دار آواز نے دروازے پر پہنچ کر برادرِِخورد کو آنے کی اجازت دی۔
’آداب بھائی صاحب، آداب بھابھی صاحبہ‘، کہتے ہوئے کنبے کے چچا جان نے آنگن میں قدم رکھا اور ہر طرف سے آتے سلام کا جواب دیتے، بہوؤں اور بھتیجی کے سر پر ہاتھ رکھتے تخت پر آبیٹھے۔ ’کیسے ہو؟ سب اچھا ہے؟ دلہن کی طبیعت کیسی ہے؟‘ کہہ کر حال احوال لینے اور داداجان کی طرف سے علیل بھاوج کی خیریت معلوم کرنے کے ساتھ باتوں کی ابتدا ہوئی۔ ان باتوں میں کتنی ہی ضرب الامثال، محاورے، شعر ٹنکتے چلے جائیں گے۔
دوران کلام چچا جان نے اپنی واسکٹ کی جیب سے بڑا سا بٹوا نکالا جس میں سے پان نکال کر منہ میں دبایا اور چھالیا، تمباکو پھانک لی۔ کچھ دیر بعد یہ متلاشی نظروں سے فرش کی طرف دیکھیں گے اور گھر کا کوئی چھوٹا اگال دان لاکر ان کے قریب رکھ دے گا۔
’بٹیا ہماری شیروانی ذرا استری کر دینا‘، چچا جان کو تشتری میں رکھی چائے کی پیالی پیش کر کے واپس بیٹی نے باپ کی بات سن کر ’جی ابو‘ کہا اور باورچی خانے کی راہ لی جہاں سے نکل کر اسے ابو کی الماری کا رخ کرنا تھا۔ ’کہاں جا رہے ہیں؟‘ گلوری دیتے ہوئے بیگم نے شوہر سے پوچھا۔ ’قیصر روہیلہ ہیں ناں ہمارے رام پوری دوست، ان کے ہاں چہار بیت کی محفل ہے‘۔ جواب ملا۔
اُدھر بٹیا نے باپ کے کمرے میں قدم رکھا جہاں بس ایک ہی الماری میں کپڑے ٹنگے ہیں۔ شیروانی، اچکن، واسکٹ، کرتے اور پاجامے، پہلے خانے میں دوپلی کے ساتھ رام پوری ٹوپی اور علی گڑھ کیپ رکھی ہوئی۔ سب سے نچلے خانے میں چند جوڑی سلیم شاہی جوتے، کولہا پوری چپل کی جوڑی۔ باقی الماریوں کے شیشوں سے لگے کتابوں کے سرورق دیوانِ غالب، مومن، میر، داغ اور حسرت کے کلام، ان کے پہلو میں شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے اردو ترجمے، جنہیں اس کمرے میں بار بار اور جھوم جھوم کر پڑھا گیا۔
نثر کے خانے میں جنگِ آزادی 1857ء کی تواریخ جن میں اس خاندان کے اجداد کے انگریز استعمار سے بھڑ کر جانیں اور جائیداد لٹا دینے کے تذکرے، ان میں سے ایک جد کسی مصور کی بنائی تصویر ہوکر الماری کے عین سامنے دیوار کی شان بڑھا رہے ہیں۔ وہ تصاویر کی قطار کے وسط میں ہیں، دونوں طرف دو دو تصاویر ہیں۔
دائیں جانب تحریک پاکستان میں حصہ لے کر بلوائیوں کا نشانہ بننے والے داداجان کے والد اور گوہر ایوب کی لشکر کشی میں اپنی بستی کا دفاع کرتے ہوئے قربان ہوجانے والے دادا جان کے بڑے بھائی کی، بائیں طرف مکتی باہنی کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے والے دادا جان کے جگری دوست اور ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ پڑھ کر اپنی ماں بولی کی خاطر خاک وخون میں لتھڑ جانے والے داداجان کے بھتیجے کی۔
یہاں دو اور عکس بھی ہیں، ایک میں سندھ دھرتی کی مانگ بنا دریائے سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور دوسری میں اجرک اوڑھے داداجان اپنے دوستوں نور محمد سومرو، اکبربلوچ اور فرید آریسر کے ساتھ کھکھلا کر ہنستے نظر آرہے ہیں۔ وہ نور محمد سومرو جن کی بڑی بیٹی کو رِلّی سیتے دیکھ کر اس گھر کے چھوٹے بیٹے نے کہا تھا، ’اَدّی! ایسی رلی میرے لیے بھی سی دیں‘ اور پھر چند مہینے بعد ہی چھوٹے اَدّا کے لیے بہن کی محبت کے سارے رنگوں سے رنگا بچھونا اس گھر کی زینت بڑھا رہا تھا اور فریدآریسر وہ جن کی تحفے میں دی گئی اجرکیں اس گھر میں موقع بہ موقع اوڑھی جاتی ہیں۔
اکبر بلوچ وہی جن کے ساتھ اس گھر کی بیٹھک میں دادا جان کتنی ہی محفلیں جماچکے ہیں۔ ایسی ہی ایک محفل میں ان کے یار بیلی سرفراز چٹھہ نے ہیر وارث شاہ سنائی تو دادا جان نے انہیں گلے لگا کر انشااللّہ خاں انشا کا شعر پڑھا تھا،
اس بیٹھک میں مشاعرے بھی ہوتے ہیں جن میں اردو شاعری کے ساتھ رانا بشیر اپنا ہریانولی کلام پڑھتے ہیں اور نفیس سائل حیدرآبادی لہجے سے سجی غزلیں سناتے ہیں۔ اس کنبے کی ہر شادی میں یہ بیٹھک ڈھولک کی تھاپ اور گیتوں سے بھرجاتی ہے۔ مایوں، مہندی، سہرابندییہ بیٹھک اس خاندان کی سب رسموں سے آشنا اور ان کا گہوارہ ہے۔
یہاں ڈھولکی کا آغاز ’رسول پاک (ﷺ) کا سایہ مبارک مبارک ہو‘ کے معطر بول سے ہوتا ہے۔ پھر ’کیسے کالے پیلے آئے ہیں وہ رے بھیا‘،’پیتل کے دو چار گھنگرو نین سے نین بجادوں گی‘،’میں تو پھلوا پہنانے آئی آج رے‘، ’آڑھا پاجامہ ریشم کا کمربند، سیاں کہاں گئے تھے‘،’شارارارارا شائیں شائیں ہورہی تھی ریل میں‘،’سروتا کہاں بھول آئے پیارے نندویا‘ کے ایک پیڑھی سے دوسری کو منتقل ہوتے شوخ وچنچل گیت تالی کی سنگت میں گونج اٹھتے ہیں۔ اس بیٹھک نے سہرے اور رخصتیاں واہ واہ کی داد اور سسکیوں کے ساتھ سُنی ہیں۔
گھر کے بڑے بیٹے کو راجستھانی پگڑی پہن کر دولہا بنتے دیکھا ہے جو ہم سائے اکرم قائم خانی لائے تھے اور گلی کے نکڑ پر رہنے والے حنیف پٹیل کے لڑکوں کے سنگ اس گھر کے نوجوانوں کے گجراتی گیت پر ڈانڈیا رقص کا نظارہ کیا ہے۔ سوفوں، قالین، خوش نما پردوں اور اردو کے کلاسیکی اشعار کے طغروں سے آراستہ اس کمرے میں ادبی مکالمے بھی ہوتے ہیں اور سیاسی مباحثے بھی۔
ایسی ہی ایک بحث میں دادا جان نے کہا تھا، ’میں اس زمین سے بھی محبت کرتا ہوں اور مجھے اپنی زبان اور ثقافت سے بھی پیار ہے۔ میری ثقافت پورے برصغیر کی مسلم روایات اور بودوباش کا گل دستہ ہے، میں اس زبان اور ثقافت سمیت اس دھرتی پر آباد ہوں، سو یہ بھی اب اس زمین کا حصہ ہے۔ روایت ہیں، پہچان ہیں اور اس دھرتی کی بولی، لباس، رواج بھی میرے اپنے ہیں۔ میں اپنی کسی شناخت، کسی محبت کو ترک نہیں کرسکتا‘۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔