آخر پاکستان ایسا میزائل سسٹم کیوں بنانا چاہے گا جس سے وہ سپرپاور امریکا کو نشانہ بنا سکے؟
اگرچہ امریکی پالیسی غزہ میں جاری نسل کشی کی حمایت، مغربی کنارے پر صہیونی آبادکاری کو توسیع دینے اور الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو ہتھیا کر ’عظیم اسرائیل‘ کے قیام کے لیے صہیونی ریاست کی حمایت پر مرکوز رہی ہے لیکن گزشتہ ہفتے واشنگٹن کی جانب سے جاری کردہ بیان سے ثابت ہوا کہ امریکا دیگر مسائل سے بھی نبردآزما ہے۔
امریکا، اسرائیل اور خطے میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں اس کے اتحادیوں نے مل کر ایک اور او آئی سی رکن ایران اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کی حمایت یافتہ تنظیموں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایران کی سب سے اہم پراکسی، حزب اللہ پر براہ راست حملے اور شامی حکومت کو برطرف کرنے میں مدد کرکے ان ممالک نے حزب اللہ کے لیے سپلائی کے راستے تنگ کردیے ہیں۔ شام میں اسرائیل کی حالیہ پیش قدمی سے انہیں شام کے ماؤنٹ ہرمین جیسے بالائی علاقوں کا قبضہ حاصل ہوگیا ہے جہاں سے وہ مغرب سے حزب اللہ کا گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی لبنان جبکہ مشرق سے دمشق پر نظر رکھ سکتا ہے۔
لیکن جو بائیڈن انتظامیہ جس کے دفتر میں آخری ایام ہیں، اس کے اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ امریکا کو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے خدشات ہیں۔ یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا کہ جب امریکا نے پاکستان کی حکومتی تنظیم اور تین پاک-چین فرمز پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا۔
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں دیے گئے ریمارکس میں امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے کہا کہ پاکستان کے اقدامات کو امریکا کے لیے اُبھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور تناظر میں دیکھنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا، ’پاکستان نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل سسٹم سے لے کر ایسے آلات تک جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی تیار کی ہے جس سے وہ نمایاں طور پر بڑی راکٹ موٹرز کو آزمانے کے قابل ہوجائے گا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان جنوبی ایشیا سے باہر اور امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے‘۔
کوئی بھی قابلِ فہم تجزیہ کار اس دعوے کو مسترد کر دے گا۔ کسی بھی صورت میں پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ دنیا کے کسی بھی تنازع میں اس کی امریکا سے کوئی چپقلش ہو اور آخر پاکستان ایسی بیلسٹک میزائل صلاحیت کا حصول کیوں چاہے گا کہ جس سے وہ سپرپاور امریکا کو نشانہ بنا سکے؟
پاکستان کا پورا قومی سلامتی کا نظریہ ممکنہ بھارتی خطرے کے گرد گھومتا ہے جبکہ 1948ء، 1965ء، 1971ء اور کارگل کے تنازعات کے پیش نظر، پاکستان کی یہ تشویش درست بھی ہے۔
تو ان امریکی دعووں کے پیچھے وجوہات کیا ہیں اور اتنے قلیل مدتی وقت میں امریکا نے پاکستان کے میزائل سسٹم پر تیسری اور چوتھی دور کی پابندیاں کیوں لگائی ہیں؟
جب امریکا نے کہا کہ پاکستان، امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی ممکنہ صلاحیت حاصل کرسکتا ہے تو میرے ذہن میں پہلا یہی خیال آیا کہ شاید اسرائیل کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن میں نے یہ خیال فوری طور پر رد کردیا۔ وہ اس لیے کیونکہ پاکستان نے کبھی بھی قضیہ فلسطین کے لیے ’اخلاقی اور سفارتی‘ حمایت کے علاوہ کسی اور طرح کی حمایت کی پیشکش نہیں کی اور اس وقت بھی وہ غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف سفارتی حمایت سے بڑھ کر کوئی سخت مؤقف اختیار کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔
ایک جانب اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں اور بمباری جاری ہے جن میں نومولود اور بچوں کو قتل، زخمی اور عمر بھر کے لیے معذور کیا جارہا ہے کیونکہ اسرائیل کا یہ ماننا ہے کہ غزہ میں بشمول بچوں کے کوئی بھی ’معصوم یا بےگناہ‘ نہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کی معاشی صورت حال ہے جو شدید مشکلات سے دوچار ہے۔
اس تلخ حقیقت کے پیش نظر پاکستان کی فوجی حکمران اشرافیہ اور عوامی لیڈران چاہ کر بھی فلسطینیوں کے حق میں کچھ نہیں کرسکتے۔ پاکستان امریکی زیرِکنٹرول بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور خطے کے دولت مند امریکی اتحادیوں کی جانب سے ملنے والی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ کسی بھی غلط اقدام سے ڈالرز کی ترسیل کا سلسلہ بند (ماضی کے برعکس کہ جب امریکی امداد کی فراوانی تھی) ہوجائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے دیگر وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی جو حالیہ امریکی پابندیوں کی وضاحت کرسکیں اور دی فرائڈے ٹائمز کے بانی اور سابق ایڈیٹر نجم سیٹھی کی جانب سے ایسی ہی ایک وجہ پیش کی گئی جو وسیع منظرنامے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
امریکا کا بھارت کے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے جوکہ اس بات سے ثابت شدہ ہے کہ وہ آزادانہ طور پر کم نرخوں پر ایرانی (حتیٰ کہ روسی) تیل کی درآمدات کرتا ہے اور اسے بین الاقوامی ممالک (بالخصوص امریکا) کی جانب سے کسی روک ٹوک کا سامنا نہیں۔ پاکستان جیسے ممالک جو تیل کی درآمدات کی بھاری لاگت کے بوجھ تلے دبے ہیں، وہ بھی کم نرخوں پر ایرانی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرسکتے ہیں لیکن وہ امریکا کی ناراضی کے خوف کے پیش نظر ایسا نہیں کرتے۔
بھارت 1.4 ارب عوام کی بڑی مارکیٹ ہے جس میں 40 کروڑ سے زائد افراد کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، اسے نہ صرف اپنی مارکیٹ کی وجہ سے بلکہ اپنے رقبے اور جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے بھی خصوصی توجہ ملتی ہے۔ اسے خطے میں چین کے حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت کو کواڈ کے گروپ میں شامل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ خطے میں چین کے بڑھتے معاشی اثر و رسوخ اور عسکری غلبے کو محدود کیا جاسکے۔
33 برس قبل سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ توقع تھی کہ اب اس یک قطبی دنیا میں امریکی عالمگیریت کو کوئی بھی خطرہ نہیں۔ لیکن اس کے بعد چین نے معاشی اور عسکری محاذ پر تیز ترین ترقی کی جس سے امریکا کے عالمی عزائم کو چیلنجز لاحق ہوئے۔
برکس اتحاد کا قیام بھی امریکا کے لیے باعثِ تشویش تھا۔ رواں سال اکتوبر میں روس کے شہر قازان میں برکس کے سربراہی اجلاس کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے متنازعہ سرحد سے اپنی افواج کے انخلا پر اتفاق کیا۔ 6 نومبر تک دونوں ممالک نے افواج کے انخلا کا عمل بھی مکمل کرلیا۔
چین-بھارت تعلقات میں اس حالیہ بہتری سے دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو فروغ ملے گا جبکہ اس پیش رفت کے علاوہ برکس میں روس پر عائد ثانوی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے ایک متبادل نظام قائم کرنے سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ برکس کی جانب سے ادائیگی کا متبادل نظام متعارف کرنے سے ڈالر کمزور ہوگا اور دھمکی دی ہے کہ نو رکنی تعاون تنظیم کے ممالک یا اس میں شمولیت کے خواہش مند ممالک کو شمولیت پر 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے میزائل سسٹم کے حوالے سے امریکا کا حالیہ عجیب بیان شاید بھارت کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے جو چین کے خلاف بھارت کو مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے، پھر چاہے بھارت اس مقصد میں مددگار ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ بھارت، پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کو خطے پر اپنے تسلط کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور اکثر کسی بچے کی طرح اس مسئلے کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔