نقطہ نظر

دی کلائمیٹ بُک: ’موسمیاتی تبدیلی سے مکمل بحالی میں لاکھوں سال لگ سکتے ہیں‘

ہم نے قدرتی وسائل کو بہت زیادہ استعمال کر لیا ہے، اب ہماری آبادی اور ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں لیکن قدرت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہماری تمام ضروریات پوری کر سکے۔

نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، اس کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کے دیگر مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


دنیا اب ایک نئے موسمیاتی دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ہماری دنیا میں اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ ہم خود ہیں۔ ہم نے فیکٹریاں لگائیں، موٹر گاڑیاں چلائیں اور بہت زیادہ کوئلہ، گیس اور تیل جلا کر درجہ حرارت خوب بڑھا دیا اور بدستور بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اس سے دنیا میں موسمیاتی تبدیلی بڑھتی جارہی ہے اور بہت سی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موجودہ سطح کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کئی لاکھ سالوں تک دنیا پر مرتب ہوتے رہیں گے۔

درجہ حرارت میں اضافے سے موسمیاتی تبدیلی ہوئی جس سے موسمیاتی رجحانات تبدیل ہورہے ہیں، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں جس سے سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔ موسمیاتی رجحانات بدلنے کے اثرات پانی، خوراک اور رہائش پر یکساں انداز میں مرتب ہورہے ہیں جو بنیادی انسانی ضروریات ہیں۔ ہماری دنیا کو اب ایک سخت موسمیاتی بحران کا سامنا ہے کیونکہ ہم نے اسے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

ہم نے زمین کے وسائل حد سے زیادہ استعمال کیے ہیں اور قدرتی چیزوں کو ختم کیا ہے۔ اب ہمیں اس کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قدرتی وسائل کو بہت زیادہ استعمال کر لیا ہے جو قدرت کے نظام کا توازن برقرار رکھتے تھے۔ ہماری آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور ہماری ضروریات بھی بڑھتی جا رہی ہیں لیکن اب قدرت کے پاس اتنے وسائل نہیں رہے کہ ہماری تمام ضروریات پوری کر سکے۔

جرمنی کے شہر پوٹسڈم کے انسٹی ٹیوٹ برائے موسمیاتی اثرات اور تحقیق کے ڈائریکٹر جون راکسٹروم گریٹا تھیونبرگ کی کتاب دی کلائمیٹ بک میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’ٹپنگ پوائنٹس اینڈ فیڈ بیک لوپ میں‘ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا فرق بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے نتیجے میں درجہ حرارت بڑھ جانے سے پہلے تو صرف گلوبل وارمنگ ہوتی ہے لیکن اس کے بعد تمام موسمیاتی رجحانات بدلنے کے ساتھ ساتھ سطح سمندر بلند اور گلیشئرز پگھلنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں پہلے پانی اور پھر خوراک کا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔

اگر موسمیاتی بہتری کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں تو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کرنے سے درجہ حرارت کم ہونا شروع تو ہوسکتا ہے مگر درجہ حرارت کم ہونے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہونے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ وہ کس طرح آئیے، انہیں کی زبانی جانتے ہیں۔

زمین کے قدرتی نظام میں ہوش ربا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ہم ایک نیا ارضیاتی دور ہی نہیں لائے بلکہ ہم انسان قدرت میں اتنی زیادہ مداخلت کررہے ہیں کہ ہمارے سیارے نے انسانی مداخلت ناقابل برداشت ہونے کی نشانیاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی صورت میں ظاہر کرنا شروع کردی ہیں۔ جو کچھ ہم نے کیا، اس کے صرف 70 سال بعد ہی ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ زمین کا نظام اب مزید ہماری مداخلت جھیل نہیں سکتا جبکہ یہ مزید دباؤ اور آلودگی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔

سائنسدانوں کو یہ پتا لگانا ہوگا کہ واقعی ہم نے پورے زمینی نظام کو خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ ہماری زمین پر موجود ہر قسم کے قدرتی نظام جو زندگی کے تسلسل کے لیے انتہائی اہم ہیں جیسے برف کی چادریں، جنگلات اور سمندر وغیرہ، بہت زیادہ گرم ہو رہے ہیں۔ یہ اتنے زیادہ گرم ہو رہے ہیں کہ اپنی اصل حالت میں کبھی نہیں لوٹ سکیں گے۔

یہ ایسا ہے جیسے کسی اہم چیز کو اتنا زیادہ توڑ دیا گیا ہو کہ اسے جوڑنا ناممکن ہوجائے۔ مثال کے طور پر ایک برف کی چادر کو لے لیجیے، برف کی چادر جو ہزاروں سالوں سے موجود تھی لیکن اب گرمی کی وجہ سے یہ پگھل رہی ہے۔ جب یہ پگھل جائے گی تو پھر سے برف کی چادر بننا بہت مشکل ہوگا۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کی بھرپائی نہیں ہوپائے گی۔ درجہ حرارت میں اضافے سے ہونے والا نقصان، دیگر المیے کو جنم دے رہا ہے جو سیارے کو آج سے 10 ہزار سال پہلے کے موسمیاتی ٹھہراؤ کے نقطے سے اتنا دور لے جائے گا کہ معمول کے موسم یعنی کلائمیٹ تک واپسی ناممکن ہوجائے گی۔

اس کا مطلب ہے کہ ہم اس نقطے پر پہنچ چکے ہیں کہ جس پر ہماری بقا خطرے میں ہے۔ حد سے زیادہ انسانی مداخلت کے باعث ہماری زمین کی صورت حال موسمیاتی تبدیلی کے ناقابلِ واپسی نقطے کی طرف جا رہی ہے۔ امید کی صرف ایک ہی کرن ہے کہ موسمیاتی عدم استحکام کی پریشان کُن علامات کے باوجود زمین کا نظام اب بھی تھوڑا بہت اس ٹھہراؤ والے دور میں ہے جہاں تباہی اور بہتری دونوں طرف جانے کے راستے نکلتے ہیں۔

یہی تو وجہ ہے کہ ہم اب بھی اُمید لگا سکتے ہیں۔ ہیلوسین یا ٹھہراؤ والا دور سیارے کی ایسی حالت ہے کہ جس میں اتنی برف اب بھی موجود ہے جس سے گرمائش روکی جا سکتی ہے۔ انتھروپوسین یعنی انسانی مداخلت والے دور میں درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہوتا ہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ بہتری کی امید انتہائی کم ہے۔ صرف سال 2021ء میں درجہ حرارت میں 1.1 ڈگری سیلسیس اضافہ ہوا جو برف کے آخری دور سے اب تک کے عالمی اوسط اضافے سے زیادہ تھا۔

ہاں ہم آخری حد پر پہنچ چکے ہیں جہاں درجہ حرارت میں تھوڑا سا اضافہ بھی خطرناک ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ اضافے کے رجحان پر قابو کیسے پایا جائے اور مزید انسانی مداخلت کیسے روکی جائے تاکہ ہم گرمائش کی مزید بلند سطح تک نہ پہنچ سکیں؟

ایسا کرنے کا واحد راستہ زمینی نظام کو تباہی کے ناقابل واپسی دہانے تک جانے سے روکنا ہے جہاں پہنچنے سے پہلے تک کلائمیٹ اور کرہ ارض کو بچایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں مشترکہ عالمی موسمیاتی مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ ان تمام حیاتیاتی طبعی نظام کے مسائل کا حل جو سیارہ زمین کی بہتری قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور زمین کو اپنے امور انجام دینے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں۔

ہم لوگوں نے دراصل اپنی زندگی کا نظام، اپنی معیشت اور اپنی آبادیاں بسانے میں دو مفروضوں کا سہارا لیا ہے۔ پہلا یہ کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ ہمیشہ ایک ہی طرح رہے گا۔ مثلاً اگر آج موسم گرم ہے تو آئندہ بھی گرم ہی رہے گا یا اگر آج بارش ہو رہی ہے تو اسی طرح ہوتی رہے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر وقت تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور یہ تبدیلیاں بہت تیزی سے بھی ہو سکتی ہیں۔

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ ہماری دنیا بہت بڑی ہے اور اس میں ہمارے لیے کافی جگہ اور وسائل موجود ہیں۔ اس لیے ہم نے زمین کے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمین کی صلاحیت محدود ہے اور ہم نے اسے بہت زیادہ نقصان پہنچا دیا ہے۔

سائنس ان دونوں مفروضوں کی نفی کرتی ہے۔ زمین پر زندگی قائم رکھنے کا نظام ہر دور میں یہ طے کرتا ہے کہ زمین کو قابلِ رہائش کیسے بنایا جائے۔ یہ نظام نہ صرف ہمیں خوراک، پانی اور رہائش جیسی سہولیات دےکر زمین کو انسانوں کے لیے قابل رہائش بناتا ہے بلکہ دنیا کو قدرتی وجوہات کی بنا پر ہونے والی معمول کی گرمائش اور سردی کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی دیتا ہے لیکن یہ صلاحیت بھی وہ ایک خاص حد تک ہوتی ہے۔ مونگی چٹان (کورل ریف) ہوں، وسیع علاقے میں جمی ہوئی برف ہو یا پھر معتدل خطوں کے جنگلات، ان میں اگر موسمیاتی تبدیلی ایک حد سے بڑھ جائے تو وہ ایک حالت سے دوسری نہج تک پہنچ جائے گی جہاں سے بہتری کی جانب واپسی کا امکان ختم ہوجائے گا۔

ناقابل واپسی مقام تب آتا ہے جب ایک چھوٹی سی تبدیلی مثال کے طور پر فوسل فیول جلنے کے باعث عالمی درجہ حرارت میں تھوڑا سا اضافہ ہو جیسا کہ برساتی جنگلات سوکھے میدانی علاقے بن جائیں۔ ایک ردعمل کا اس سے بھی شدید ردعمل سامنے آنے یعنی فیڈ بیک لوپ ایسی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل وارمنگ خواہ رک بھی جائے مگر اس کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔

یہ سمجھنے کے لیے ایک مثال لیتے ہیں۔ مان لیجیے کہ آپ نے ایک گلاس پانی میں بہت زیادہ نمک ڈال دیا ہے۔ اب اگر آپ پورا نمک گھلنے سے پہلے اس پانی کو چھان کر صاف کرنے کی کوشش کریں گے تو کچھ نمک تو ضرور نکل جائے گا لیکن پانی نمکین ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر ہم زمین کو بہت زیادہ نقصان پہنچا دیتے ہیں تو اس کا پوری طرح ازالہ کرنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔

ہماری زمین کی آب و ہوا کا نظام بھی ایک بہت پیچیدہ ہے جیسے ایک گاڑی کے بہت سے پہیے ہوتے ہیں۔ جب ہم اس نظام میں تبدیلیاں کرتے ہیں، مثلاً فیکٹریوں سے دھواں اس کے اہم جز فضا میں خارج کرتے ہیں تو گاڑی کے تمام پہیے متاثر ہوتے ہیں اور جب یہ پہیے متاثر ہوتے ہیں تو گاڑی کی کارکردگی میں فرق تو آئے گا۔

اب اگر ہم آب و ہوا یعنی کلائمیٹ کو بہت زیادہ بدل دیتے ہیں تو یہ نظام دوبارہ اپنی پرانی حالت میں نہیں آسکتا۔ یہ ہمارے لیے ایک اہم بات ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم نے زمین کو بہت زیادہ نقصان پہنچا دیا تو اس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناقابل واپسی مقام کے اثرات ایک دم سے نمودار نہیں ہوتے ہیں۔ اگر ہم ناقابل واپسی کا نقطہ ابھی یا چھ ماہ بعد عبور کرلیں تو وہ دنیا پر اپنا پورا اثر ڈالنے میں یہ ہزاروں سالوں کا وقت لے سکتا ہے۔ زمین کی برف پگھلنے سے سطح سمندر بلند ہونا ایسی ایک مثال ہے جس کا اثر صدیوں تک رہے گا۔

جیسا کہ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی بتاتا ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمائش اور دو میٹر بلند سطح سمندر دیں گے۔ یعنی اس سطح تک پہنچنے میں ہمیں مزید دو ہزار سال لگیں گے۔

دیکھا جائے تو ہم پچھلی تین دہائیوں سے عالمی کانفرنسز اور اجلاسوں میں درحقیقت یہ طے کررہے ہیں کہ ہم اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو یہ سیارہ کس حالت میں سونپ کر جائیں گے جس کے حالات مستقبل میں زیادہ ناقابلِ رہائش ہوتے جائیں گے۔ اگرچہ ایسا ہونے میں سیکڑوں ہزاروں سال لگیں گے لیکن ہم کچھ بھی کرلیں، اس ہونی کو روک نہیں سکتے۔

مجتبیٰ بیگ

لکھاری معروف ماحولیاتی مصنف اور مترجم ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔