نقطہ نظر

’آزاد عدلیہ کے فیصلوں نے پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا‘

آج بہت سے لوگ عدلیہ کی آزادی مجروح ہونے کا غم منا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وکلا تحریک کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کے بعد عدلیہ نے عام شہریوں کو کیا فائدہ پہنچایا؟

شاید یہ مناسب وقت ہے کہ ہم ریکوڈک کے حوالے سے عدالتی فیصلے کو یاد کریں جو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے سنایا تھا۔ یا پھر ہم اس کے بجائے ڈیم کے چندے کو یاد کریں کہ جب اس کوشش پر تنقید کرنے والوں کو غداری کے مقدمے کی دھمکیاں دی گئیں؟

کیا آپ کو ان چیف جسٹس کی ناکامیاں یاد ہیں جو دیگر چیف جسٹسز کے مقابلے میں سب سے زیادہ شہ سرخیوں میں رہے؟ ایک اور چیف جسٹس تھے جو کراچی کی شارع فیصل پر واقع رہائشی عمارت کو منہدم کرنے پر مصر تھے جس کی وجہ سے کئی خاندان اپنے آشیانوں سے محروم ہوئے اور وہ اپنے حصے کے معاوضے کی وصولی کے لیے آج بھی دھکے کھا رہے ہیں۔

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو یہ بھی یاد ہوگا کہ وہی چیف جسٹس جنہوں نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ عوام کے چندے سے ڈیم بنائیں گے، وہ پنجاب کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ کو بند کرنے کے درپے تھے۔

ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ مائننگ کے پروجیکٹ میں بڑی سرمایہ کاری لانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے، ایک ایسا ہسپتال کھڑا کرنے کے لیے کتنی تگ و دو کرنی پڑتی ہے جوکہ خصوصی سہولیات مفت فراہم کرے، مالیاتی ڈھانچہ کس طرح کام کرتا ہے یا ایسا نظام کیسے کام کرتا ہے جس کے تحت حکومتی فیصلوں کی وجہ سے بےگھر افراد کو معاوضہ کی ادائیگی ہوتی ہے؟ یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ وکلا تحریک کے بعد سے ججز نے بہت سے احمقانہ فیصلے لیے ہیں اور ان فیصلوں کی فہرست گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

میرے چند وکلا دوست تاریخ کو نظام کی خرابی قرار دے کر جھڑک دیتے ہیں یا کہتے ہیں کہ چند ججز نے عارضی اور انفرادی طور پر غلط فیصلے کیے۔ لیکن اس حوالے سے میری رائے مختلف ہے۔ میرے خیال میں جب جب غلط فیصلوں کی وجہ سے کوئی بھونچال پیدا ہوا اس نے وکلا تحریک کے نتیجے میں سامنے آنے والی ہماری نام نہاد ’آزاد عدلیہ‘ کے حقائق پر سے پردہ اٹھایا۔

ہم نے دیکھا کہ اعلیٰ عدلیہ کو حکومتی فیصلوں میں مداخلت کرنے میں زیادہ دلچسپی رہی، وہ پالیسی سازی پر سوالات اٹھانے میں پیش پیش رہے، معمولی پیچیدگیوں پر انہوں نے وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیا، حتیٰ کہ عدلیہ نے چینی کی قیمتوں اور قدرتی گیس پر سبسڈی کے حوالے سے بھی فیصلے دیے۔

دو صوبوں میں ڈیم کے حوالے سے خدشات پائے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ڈیم کے حق میں مہمات چلائیں۔ ایسے بہت سے غلط فیصلے لینے والے ججز ریٹائرمنٹ کے بعد جاچکے ہیں لیکن یہ غلط فیصلوں کی ایک کڑی ہے جس کے دیرپا منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اب ریکوڈک کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے نقصانات کا ہی تصور کرلیں۔ اس فیصلے کے بعد سے کوئی بھی نجی غیرملکی سرمایہ کار پاکستان کے قوانین، عدالتوں، ٹیکس حکام اور ادائیگی کی رکاوٹوں کی وجہ سے بڑا سرمایہ لگانے کو تیار نہیں۔

تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی اپنے انفرااسٹرکچر کی ضروریات کو خود پورا نہیں کرسکتا جبکہ کوئی بھی غیرملکی سرمایہ کار راضی نہیں کہ وہ زائد لاگت میں طویل مدتی رسک لیں، لہٰذا پاکستان نے 2010ء کے بعد سرمایہ کاری کے لیے چین پر انحصار کرنا شروع کیا۔ چینی سرمایہ کاروں نے بھی رضامندی ظاہر کرنے سے پہلے اپنے لیے مؤثر سیکیورٹی کا مطالبہ کیا تھا۔ اگرچہ ریکوڈک معاملے میں تمام نقصان کا الزام عدالتی فیصلے کو نہیں دے سکتے لیکن زیادہ تر مسائل کی وجہ یہی فیصلہ بنا۔

ہمیں یاد ہوگا کہ بیرک گولڈ کو دوبارہ معاہدے پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان نے ثالثی کا کردار ادا کیا جس میں اسے کروڑوں، لاکھوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا لیکن پاکستان کے ہاتھ میں صرف 6 ارب ڈالرز آئے۔ وہ معاہدہ کرنے کی جلدی میں تھے کیونکہ اس بار وہ چاہتے تھے کہ سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ اس پر اثرانداز نہ ہو۔

اگرچہ اس فیصلے کے پاکستان کی سرمایہ کاری کے ماحول پر قابلِ ذکر اثرات مرتب ہوئے لیکن براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ملوث لوگوں کو زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے۔ یہی وجہ تھی کہ ملکی بحث میں اس مسئلے کو اہمیت نہیں دی گئی کیونکہ وہ ہمیشہ سے قانون، ججز کی گوسپ اور عدالتی کارروائی کی لائیو کوریج تک محدود رہی۔

وکلا تحریک زور پکڑنے سے پہلے ہی بہت سے عدالتی فیصلوں کی وجہ سے معیشت تناؤ میں تھی۔ ان میں سے ایک اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ تھا جس کی وجہ سے نجکاری کا عمل رک گیا۔ دوسرا ایک اخبار میں لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات پر عدالت کا طویل المدتی ایل این جی معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ تھا۔ اس دوسرے فیصلے سے ہمارے توانائی کے شعبے میں ایندھن کی شدید قلت پیدا ہوئی کیونکہ یہی وہ دور تھا کہ جب ہماری مقامی قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہونا شروع ہوئے تھے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو تو 2010ء سے 2015ء کے دوران آنے والا سنگین گیس بحران یاد ہی ہوگا۔

چلیے اب یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان تمام معاملات میں مبینہ کرپشن کو جواز بنایا لیکن ان میں سے کسی بھی کیس میں عدالت کو کرپشن کے ٹھوس شواہد نہ مل سکے۔ ان تمام کیسز کے طویل مدتی نتائج سامنے آئے جن کی لاگت کھربوں روپے میں ہوگی۔ اس کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ 2019ء کے آخر تک عدالت نے نیا ایل این جی معاہدے میں اپنی مداخلت جاری رکھی جوکہ حکومت نے پہلا معاہدہ ختم ہونے کے بعد کافی تگ و دو کے بعد طے کیا تھا۔

پاکستان کو وکلا تحریک کے بعد آزاد عدلیہ ملی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آزادی ملنے کے بعد ججز نے ان اختیارات کا استعمال کیسے کیا؟ کیا عدلیہ میں بہتری آنے کے نتیجے میں عام شہریوں کو فائدہ ہوا؟ کیا کیسز نمٹانے میں حائل رکاوٹیں کم ہوئیں؟ کیا فیصلوں کے خلاف دائر کی جانے والی اپیلوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی؟ کیا ایسا کوئی اشاریہ ہے جو ظاہر کرے کہ آزاد عدلیہ کے ابھرنے کے بعد سے ان کا بنیادی کام یعنی قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کا نظام بہتر ہوا ہے یا نہیں؟

بدقسمتی سے اس کا جواب ہے نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز سے نمٹنے میں وکلا تحریک کے بعد سامنے آنے والی آزاد عدلیہ نے خلل ڈالا۔ عدلیہ نے حکومتوں کو اداروں کی نجکاری کرنے یا قدرتی گیسز کے کم ہونے ذخائر کے متبادل کو ڈھونڈنے سے روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس پورے وقت میں انہوں نے کوشش نہیں کی کہ وہ خود پر توجہ دیں اور انصاف کے متلاشیوں کے لیے نظام کو بہتر بنائیں۔

آج بہت سے لوگ عدلیہ کی آزادی مجروح ہونے کا غم منا رہے ہیں لیکن 15 سالوں تک فیصلہ سازی میں آئین کے بجائے انا، کینہ اور کم علمی سے کام لینے کے بعد آپ حکومت سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کررہے تھے؟


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔