نقطہ نظر

پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کا حکومتی فیصلہ کس حد تک درست تھا؟

پی ٹی ایم کے کچھ قوم پرست بیانات ریاست کی پالیسی کے متضاد ہوسکتے ہیں لیکن ایسی تنظیم جو تشدد میں ملوث نہیں، اس پر پابندی لگا کر کیا ہم دہشت گردی سے نمٹ سکتے ہیں؟

جمرود میں تین روزہ پشتون قومی جرگہ ان لوگوں کی اذیتوں کا عکاس تھا جو دو دہائیوں سے خیبرپختونخوا کو تباہ کر دینے والے تنازع کا شکار ہیں۔

ان لڑائیوں میں ہزاروں افراد اپنی جانیں گنواچکے ہیں اور کچھ اندازوں کے مطابق، لاکھوں افراد اپنے گھروں سے محروم ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے انتہاپسندی اور فوجی آپریشنز دونوں کے نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایک پوری نسل ہے جو ان تنازعات سے تباہی اور نقل مکانی کے درمیان پروان چڑھی ہے۔ جرگے میں یہ تلخی نمایاں تھی۔

ابتدا میں ریاست نے جرگے کو دبانے کی کوشش کی۔ چند روز قبل وفاقی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو ریاست مخالف تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی۔ اگرچہ آخری لمحات میں صوبائی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے پابندی تو اٹھا لی گئی لیکن پابندیوں کی وجہ سے مین اسٹریم میڈیا جرگے کو کوریج نہیں دے پایا۔

جس عنصر نے اس جرگے کو اہم بنایا وہ دائیں بازو سے لے کر تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کی شرکت تھی۔ یہ جرگہ ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا کہ جب پورا صوبہ دہشت گردی کی تازہ لہر کا سامنا کررہا ہے۔ دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے سے کچھ اضلاع میں انتظامیہ بالکل ناکام ہوچکی ہے۔ سیکیورٹی فورسز پر حملے معمول بن چکے ہیں جبکہ عوام کو ایک اور ملٹری آپریشن کے خوف بڑھتا جارہا ہے۔

دو دہائیوں کے دوران صوبے میں ہونے والے پُرتشدد واقعات سے جانی اور مالی نقصانات کا تخمینہ اسمبلی میں اعداد و شمار کی صورت میں پیش کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار 375 قبائلی عمائدین اور 3 ہزار علما سمیت 76 ہزار 584 افراد کی بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں اموات ہوئیں اور اس عرصے میں کم از کم 6 ہزار 700 افراد ’لاپتا‘ ہوئے۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ فوجی کارروائیوں سے 57 لاکھ لوگ اپنے آشیانوں سے محروم ہوئے ہیں جن میں سے 23 لاکھ اب بھی اپنے مستقل ٹھکانوں کے متلاشی ہیں۔

خیبرپختونخوا کے عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی واضح ہے۔ نوجوان نسل خمیازہ بھگت رہی ہے۔ بہت سے نوجوان تنازع کے دوران پیدا ہوئے جو تعلیم کے حصول کے بغیر اپنا مستقل تاریک دیکھتے ہیں۔ ان پُرتشدد واقعات کے اثرات اب بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ ایسے علاقے جنہوں نے پہلے بھی دہشت گردی کا سامنا کیا، اس مسئلے کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو تحفظات ہیں۔ ان پر یہ خوف طاری ہے کہ کہیں وہ دوبارہ کسی تنازع اور فوجی آپریشنز کی زد میں نہ آجائیں۔

سب سے زیادہ تشویش ناک امر ریاست اور سیکیورٹی فورسز پر عوام کا بڑھتا ہوا عدم اعتماد ہے جس کا اظہار جرگے میں تقاریر اور اختتام پر منظور ہونے والی قرارداد کے ذریعے کیا گیا۔ اس جرگے میں عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پی ٹی ایم کے رہنماؤں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ایسے سابقہ قبائلی اضلاع سے سیکیورٹی فورسز کا انخلا ہو جو ماضی میں دہشت گردوں کا مرکز رہے ہیں۔

یقینی طور پر یہ مطالبہ خطرناک اور سخت ہے۔ تاہم عوام میں سیکیورٹی فورسز کے لیے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ بالخصوص ایسی صورت حال میں جب دہشت گرد ہدف کے طور پر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ وہ پہلے کی نسبت زیادہ مسلح ہیں۔

وسیع پیمانے پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ریاست میں عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کا عزم نہیں۔ چند سال قبل افغان طالبان حکومت کے دباؤ پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ہزاروں عسکریت پسندوں کو وطن واپس جانے کی اجازت دینے کے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے تباہ کن فیصلے سے عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔

اس ناقص پالیسی کی وجہ سے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔ عسکریت پسند جن کے سرپرست افغانستان میں موجود ہیں، انہوں نے اب کی بار اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کے بجائے اب وہ سیکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملے کررہے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں ان دہشت گردانہ حملوں میں سیکڑوں سیکیورٹی اہلکار اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عدم اعتماد اتنا زیادہ ہے کہ اسے ختم کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

اس بارے میں اب بھی سوالات موجود ہیں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ نے ’گُڈ طالبان‘ کے طور پر بیان کیے جانے والے انتہا پسندوں کے تحفظ کی اپنی پرانی پالیسی کو واقعی ترک کر دیا ہے یا نہیں۔

اس بات کو زیادہ وقت نہیں گزرا کہ جب ضلع بنوں میں پولیس نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہڑتال کی تھی۔ اس حوالے سے بھی سوالیہ نشان موجود ہے کہ کیا ریاست کے پاس عسکریت پسندی کے نئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے واضح اور جامع حکمت عملی موجود ہے۔ ’انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز‘ میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد میں شہادت باعثِ تشویش ہے۔

گمان یہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر مہم چلائے جانے کے دعووں کے باوجود عسکریت پسندی دوبارہ سے جڑ پکڑ رہی ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ سیکیورٹی فورسز پر عوام کے اعتماد کو بحال کیے بغیر کبھی بھی دہشت گردی کے ناسور کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے یہی وہ عنصر ہے جو موجود نہیں۔ یہ مطالبہ کہ سیکیورٹی فورسز ماضی میں تنازعات کا شکار رہنے والے علاقے چھوڑ دیں، بالکل بھی ایسا نہیں کہ جسے پورا کیا جائے۔

سیاسی عدم استحکام اور صوبائی و قومی اسمبلیوں کے درمیان تصادم کی صورت حال نے بھی دہشت گردی سے مؤثر انداز میں نمٹنے کی ریاست کی صلاحیتوں کو متاثر کیا ہے۔ دونوں کے درمیان کسی معاملے پر کسی بھی طرح کا تعاون نہیں۔ سیاسی معاملات میں بڑھتی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بھی ایک وجہ ہے جس کی بنا پر عوام کا سیکیورٹی فورسز پر سے اعتماد کم ہوا ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے کے واقعات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان زیادہ کُھل کر سامنے آیا۔ اسلام آباد نے جرگے سے چند روز قبل پی ٹی ایم پر پابندی لگا دی۔ ظاہر ہے کہ صوبائی حکومت کو کسی ایسے فیصلے کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا جس سے صوبہ براہ راست اثرانداز ہوتا۔ بہت سے حلقوں نے ٹی ٹی پی کی مخالفت کرنے والی تنظیم پر پابندی لگانے کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے (اس تنظیم کو ان پختون نوجوانوں نے قائم کیا جو اپنے خاندانوں کے ہمراہ براہ راست اس تنازع کی زد میں آئے تھے)۔

اگرچہ پی ٹی ایم کے کچھ قوم پرست اور بنیاد پرست بیانات ریاست کی پالیسی کے متضاد ہوسکتے ہیں لیکن ایسی تنظیم جو تشدد میں ملوث نہیں، اس پر پابندی لگا کر ہم ٹی ٹی پی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم کو جرگے کے انعقاد کی اجازت دینا اچھا اقدام تھا، البتہ اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا پی ٹی ایم پر سے پابندی اٹھا لی گئی ہے یا نہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔