نقطہ نظر

ایس سی او اجلاس: ’دنیا صرف پاک-بھارت تعلقات کے گرد نہیں گھومتی‘

بھارتی وزیرخاجہ اجلاس کے دوران پاکستان سے بات چیت کے امکان کو مسترد کرچکے ہیں لیکن جو چیز کبھی بھی ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں، اس پر تبصرے کیوں کیے جارہے ہیں؟

آج اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس ہونے جارہا ہے جس میں انتہائی اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے اراکین سر جوڑ کر بیٹھیں گے جبکہ دنیا کو تباہ کُن تنازعات سے نکالنے کے لیے راہ بھی تلاش کی جائے گی۔

دوسری جانب اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کرنے کے لیے مغرب کی حمایت حاصل ہے اور لبنان، یمن، شام اور ایران کے خلاف صہیونی ریاست کی عسکری کارروائیاں تیز ہونے کے بعد سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ مشرق وسطیٰ کا تنازع قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔ بحیرہ جنوبی چین میں کشیدگی اور یوکرین میں نہ ختم ہونے والی جنگ کے حوالے سے بھی خدشات اپنی جگہ برقرار ہیں۔

ایس سی او کی طرز کا ایک اور اجلاس ہم روس کے شہر قازان میں بھی دیکھیں گے جہاں 22 سے 24 اکتوبر تک برکس کے توسیعی گروپ کا اجلاس منعقد ہوگا۔ روس نے بیان دیا ہے کہ وہ ’ایسوسی ایشن کے فریم ورک کے تحت شراکت داری اور تعاون کی پوری رینج کو تین اہم مقاصد کے تحت فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرے گا جن میں سیاست و سلامتی، معیشت و مالیات اور ثقافتی و انسانی تعلقات شامل ہیں‘۔

ایران اور بھارت ایس سی او اور برکس دونوں کے رکن ممالک ہیں جن کے قیام کے لیے چین اور روس نے متحرک کردار ادا کیا۔ گروپ ممبران میں تضاد واضح ہے جس کی بنا پر اس کے قیام کے مقاصد کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ ایران صہیونی جارحیت کا مقابلہ کررہا ہے جبکہ بھارت اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہے۔

یہ سنگین معاملہ ہے۔ اور یہاں ہم نے سنا کہ ایس سی او کے اسلام آباد کے اجلاس میں وزیراعظم نریندر مودی کی نمائندگی بھارتی وزیرخاجہ کریں گے جبکہ وہ اجلاس کے دوران پاکستان سے بات چیت کے امکان کو مسترد کرچکے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے یہ تجویز دی تھی کہ بھارت کو اسلام آباد کے عالمی سربراہی اجلاس کے دوران پاکستان سے مذاکرات پر غور کرنا چاہیے؟ جو چیز ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں، اس پر تبصرے کیوں کیے جارہے ہیں؟

بقول فیض احمد فیض؎

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

یہ پہلے ہی ٹھیک نہیں کہ نریندر مودی نے اتنے اہم اجلاس میں شرکت نہیں کی حالانکہ ایس ای او اور برکس دونوں ہی عالمگیریت کے خاتمے کے ایجنڈے پر کام کررہی ہیں جس سے مغربی ممالک کے مفادات وابستہ ہیں۔ بھارت خود چاہتا تھا کہ پاک-بھارت کی غیرارادی ملاقات کے امکان پر بات کی جائے۔

ایسی کسی ملاقات کا ذکر کس نے کیا؟ بھارتی صحافیوں نے؟ وہ عمومی طور پر عالمی معاملات کے بجائے بھارت سے منسلک معاملات کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ٹونگا کے بادشاہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کرتے ہیں تو بھارتی میڈیا کی توجہ کا محور یہی بیان ہوگا۔ اس کے بعد کسے پروا کے کیا بات ہوئی؟

بھارتی وزارت خارجہ کی کوریج کرنے والے سینئر رپورٹرز کے لیے یہ عام کیوں نہیں کہ وہ ایسے معاملات پر توجہ مرکوز کریں جوکہ عالمی میڈیا کے لیے بھی اہم ہیں؟ یوکرین میں جنگ ہورہی ہے لیکن بھارتی میڈیا کی دلچسپی صرف روس کے سستے تیل پر ہے۔ اور پھر میڈیا میں کچھ حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ مودی نے یوکرین میں پھنسے بھارتی طلبہ کو نکالنے کے لیے جنگ روکی تھی۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے سنجیدہ معاملات ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بھارت اسرائیل کو مہلک ہتھیار کیوں فراہم کررہا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ ان کا استعمال فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے کیا جارہا ہے؟ بھارتی شہری اور بلاشبہ دنیا، اس سوال کا جواب جاننا چاہتی ہے۔

وہ کیا وجہ تھی جس کی بنا پر بھارت نے گلوبل ساؤتھ کے 104 ممالک کی جانب سے لکھے گئے خط پر دستخط نہیں کیے کہ جس میں اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دیے جانے کی مذمت کی گئی تھی؟

اس حوالے سے ایک قابلِ ذکر مثال یاد کرتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں جرمنی کے سابق چانسلر ہیلمٹ کوہل امن کا نوبیل انعام وصول کرنے نئی دہلی کے دورے پر تھے۔ سرد جنگ ختم ہی ہوئی تھی اور جرمنی متحد ہوا تھا۔ اس وقت جرمنی اور فرانس کے ایئربس پروجیکٹ میں برطانیہ کی شمولیت میں تاخیر کے حوالے سے یورپ میں تناؤ تھا۔ ہیلمٹ کوہل نے نئی دہلی کے رپورٹرز کو بتایا کہ وہ پروجیکٹ میں برطانیہ کے بغیر ہی اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ان کے اس بیان نے عالمی مارکیٹس میں ہلچل مچا دی۔ پھر پریس کانفرنس میں ایک بھارتی صحافی کے سوال کرنے کی باری تھی۔

’بھارت میں آپ کو خوش آمدید چانسلر اور میں امید کرتا ہوں آپ یہاں اپنے قیام سے لطف اندور ہورہے ہوں گے‘، صحافی نے آغاز کچھ یوں کیا۔ ’سر میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ میں آپ کس کی طرف داری کریں گے؟ اور کیا آپ کشمیر کے معاملے پر ہماری حمایت کرتے ہیں؟ اور بلآخر جب آپ کے پاس مشرقی جرمنی بھی ہے تو کیا آپ ہمارے اولمپکس معیارات کو بہتر بنانے کے لیے ہماری مدد کریں گے؟‘

ہیلمٹ کوہل نے اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے تصدیق کی کہ کیا انہوں نے سوال ٹھیک سنا ہے۔ ان کا جواب کرارا تھا، ’میرا خیال ہے آپ مجھے قیصر ولہیم (جرمن بادشاہ جس نے جرمنی کو پہلی جنگ عظیم میں دھکیلا تھا) سمجھ رہے ہیں!‘

جہاں تک نریندر مودی کے اسلام آباد اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا تعلق حالانکہ ان کی قازان میں برکس اجلاس میں شرکت متوقع ہے، میرے خیال میں وہ ایران کو لے کر فکرمند ہیں کیونکہ دنیا بالخصوص اسرائیل غور سے دیکھے گا کہ ان کا ایران کے ساتھ کیسا رویہ ہوگا۔

یاد رہے آخری بار مودی نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو گلے لگایا تھا جس کی تلافی کے لیے انہیں یوکرین کا دورہ کرنا پڑا تھا۔ وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نہ دیکھا جائے۔

ہندوتوا کا فرقہ وارانہ نظریہ جو ان کی خارجہ پالیسی میں رہنمائی کا کام کرتا ہے، یہ اٹل بہاری واجپائی کی خارجہ پالیسی سے بالکل مختلف ہے حالانکہ مودی اور واجپائی دونوں کی سوچ ایک ہی نظریاتی مکتب میں پروان چڑھی ہے۔

اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف نے کولمبو میں ’زیرو سمٹ‘ میں شرکت کی تھی، یہ جوہری دھماکے کرنے کے بعد پہلا موقع تھا جب وہ ایک فورم پر جمع ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی دونوں نے ملاقات کی۔ اٹل بہاری واجپائی تو پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کے تختہ الٹائے جانے پر نالاں بھی تھے۔

ایک دن پرویز مشرف نے خود کو صدر کہتے ہوئے شیروانی پہن لی، اٹل بہاری واجپائی وہ پہلے سربراہِ مملکت تھے جنہوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔

منموہن سنگھ اور شوکت عزیز نے مصر میں ملاقات کی اور ممبئی میں دہشتگردانہ کارروائیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ غیرمعمولی طور پر ان دونوں نے بلوچستان کی پُرتشدد صورت حال پر بھی بات چیت کی۔ اس نے ظاہر کیا کہ دونوں ممالک اعادہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے مسائل کو وہ اپنے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔

اب یہ تو نہیں معلوم کہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ منموہن سنگھ ملٹری فلسفے کے حوالے سے کتنا شعور رکھتے تھے لیکن سن زو جو 771 سے 256 قبل مسیح کے مشرقی ژو دور کے فوجی افسانہ نگار تھے، وہ منموہن سنگھ کی شوکت عزیز سے ملاقات پر ضرور مسکراتے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ، ’اپنے دوستوں کو قریب رکھو، اپنے دشمنوں کو قریب تر‘۔

بھارت کی اندرونی اور خارجہ پالیسی کو رنگ دینے والی ہندوتوا کی سوچ میں اس طرح کی دانشمندی کا فقدان ہے۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش کی نئی حکومت کی جانب ان کی پالیسی معنی خیز مذاکرات کے بجائے ہندو اقلیت پر تشدد تک محدود ہے۔

ایک ایسی دنیا کہ جہاں عرب-اسرائیل معاہدہ (ابراہم ایکارڈ) کے ذریعے مسلمانوں اور یہودیوں نے اپنے باہمی عدم اعتماد کو ایک طرف کرکے ساتھ کام کرنے کو قبول کیا اور حماس-حزب اللہ اتحاد نے مبینہ شیعہ-سنی دشمنی کے تصور کو غلط ثابت کیا، ایسے میں پاک-بھارت کی بات چیت کی ضرورت سے ہچکچانے کی واحد وجہ وہ مکروہ مقاصد ہیں جن کے تحت ہندو-مسلم نام نہاد دشمنی کو استعمال کیا جاتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔