حیرت انگیز

72 دنوں تک اپنے دوستوں کا گوشت کھا کر زندہ رہنے والے نوجوانوں کی کہانی

72 روز اپنے دوستوں کو مرتا ہوا دیکھنے اور پھر انہیں کے گوشت کو کھا کر زندگی کی جدوجہد کرنے والے یوروگوئے کے یہ نوجوان آج بھی ان تلخ یادوں کے کرب سے گزر رہے ہیں۔

یہ تحریر آج کے دن پیش آنے والے واقعے کی مناسبت سے شائع کی جارہی ہے۔


’میں یہ نہیں کھا سکتا، یہ ٹھیک نہیں ہے!‘

’تم آخر کب تک یہ نہیں کھاؤ گے، تمہیں جلد ہی یہ احساس ہوجائے گا کہ زندہ رہنے کے لیے کتنا ضروری ہے کہ تم یہ گوشت کھاؤ۔ ہم یہ خوشی سے نہیں کھا رہے زندہ رہنے کے لیے کھا رہے ہیں‘۔

نینو اپنے کزن نیندو کے اس جملے پر خاموش رہا۔ وہ شدید کمزور تھا لیکن اس کے باوجود نینو نے کھانے سے انکار کردیا اور سونے کے لیے آنکھیں بند کرلیں لیکن نیند کے بجائے وہ ان لمحات کو یاد کرنے لگا کہ جب وہ اور اس کے ساتھی اس غیرمعمولی صورتحال میں پھنسے تھے۔

13 اکتوبر 1972ء کو یوروگوئے سے 45 مسافروں اور عملے کو لے کر ایک چارٹر طیارے نے اُڑان بھری۔ مسافروں میں 19 نوجوان بھی شامل تھے جو یوروگوئے کی رگبی ٹیم کا حصہ تھے جبکہ ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ محو سفر تھے۔ نوجوان بہت خوش تھے کیونکہ ان کی منزل کوریکو، چلی تھا، جہاں ان کی ٹیم کو میچ کھیلنا تھا اور انہیں امید بھی نہیں تھی کہ حکومت کی جانب سے انہیں خصوصی چارٹر طیارہ دیا جائے گا۔

کھڑکی سے باہر دیکھنے پر ایک وسیع و عریض برفانی علاقہ تھا کہ جہاں دور دور تک سفید پہاڑ ہی پہاڑ تھے۔ پائلٹ کو گمان ہوا کہ وہ کوریکو چلی سے دور آگئے ہیں اس لیے اس نے لینڈنگ کے لیے چلی کے سینتیاگو ایئرپورٹ سے اجازت مانگی اور پھر جہاز کو نیچے اتارا لیکن طیارہ اب بھی چلی کے سینتیاگو ایئرپورٹ سے 40 کلومیٹر دور تھا۔ جب پائلٹ کو احساس ہوا تو اس نے دوبارہ اوپر جانے کی کوشش کی لیکن سامنے برفانی گلیشیئر سے جہاز ٹکرا کر تین ٹکرے ہوگیا۔

یہ ارجنٹینا کا ایندس کا برفانی علاقہ تھا جہاں جہاز تباہ ہوا۔ جہاز میں سوار 45 افراد میں سے 33 افراد جانبر ہوئے جبکہ بقیہ موقع پر ہی اپنی جان گنوا بیٹھے۔ جہاز کا ایک ٹکرا 1.6 کلومیٹر دور رہ گیا جبکہ زندہ بچ جانے والے جس حصے میں تھے وہ ڈھلوان کے باعث دور گر گیا تھا۔

زندہ بچ جانے والے 33 افراد شدید زخمی تھے۔ آرتورو کی دونوں ٹانگوں پر شدید زخم آئے جس کی جگہ جگہ سے ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ نیندو کی کھوپڑی میں فریکچر آیا اور وہ تین دنوں تک بےہوش رہا، جہاز کا میٹل کا ایک ٹکرا اینریکے کے پیٹ میں گھس گیا جسے نکالا گیا تو اس کی آنتوں کا کچھ حصہ بھی باہر آگیا تھا، اسی طرح دیگر لوگوں کو بھی زخم آئے۔

پہلی ہی رات 5 مسافر جاں بحق ہوگئے۔ بقیہ 28 مسافروں نے شدید سرد موسم سے بچاؤ کے لیے جہاز میں ہی پناہ لی اور سیٹوں کے کور سے خود کو ڈھکا۔ اگلے دن جہاز کا دوسرا حصہ جس میں سامان بھی موجود تھا اس کی جانب تین ساتھی گئے اور وہاں اپنے اہل خانہ کی لاشیں دیکھیں جو برف کی وجہ سے بالکل سالم تھیں۔

جہاز کے اس دوسرے حصے سے وہ سامان لے کر واپس آئے اور انہوں نے اندازہ لگایا کہ اس سامان کو احتیاط سے استعمال کیا جائے تو ممکن ہے کہ سرچ ٹیموں کے آنے تک یہ ان کے لیے کافی ہوگا۔ سامان میں کچھ جوسز، بسکٹس، ٹوفی، چاکلیٹ اور ببلز جیسی چھوٹی چھوٹی اشیا تھیں۔ اس دوران رگبی ٹیم کے کپتان مارسیلو نے انتظامی امور سنبھالے ہوئے تھے اور اپنے ساتھیوں کی معاونت سے (روبرٹو اور نیندو نمایاں تھے) وہ متاثرین کی مدد کررہے تھے۔

نیندو کو تیسرے دن جب ہوش آیا تو اسے اپنی والدہ کی موت اور چھوٹی بہن کے شدید زخمی ہونے کی خبر ملی جس کی شدید سردی کے باعث حالت مزید بگڑ رہی تھی طیارہ تباہ ہونے کے نویں دن نیندو کی بہن بھی ایک صبح مردہ حالت میں پائی گئی۔ اس نے اپنی بہن اور ماں کی لاشوں کو برف میں دبا دیا اور اپنے دوستوں سے کہا کہ جب وہ زندہ بچ جائیں گے تو وہ اپنی ماں اور بہن کی لاشیں ساتھ لے کر جائے گا۔

ملبے کی تلاش میں سرچ آپریشنز

دوسری جانب طیارہ چلی نہ پہنچنے اور رابطہ منقطع ہونے کے باعث یوروگوئے میں ہلچل مچ گئی اور سرچ آپریشنز کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس دوران متاثرین نے جہاز کے ریڈیو کو خوب محنت کرکے ٹھیک کیا تاکہ سرچ آپریشن سے متعلق خبر مل سکے۔

21 اکتوبر کی صبح 142 گھنٹوں کی سرچ کے بعد یوروگوئے نے سرچ آپریشن بند کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ دسمبر میں جب برف پگھلے گی تب وہ ملبہ ڈھونڈنے کے لیے آپریشن دوبارہ شروع کریں گے۔ بدقسمتی سے یہ خبر ریڈیو کے ذریعے متاثرین نے بھی سنی اور وہاں کہرام مچ گیا اور انہیں احساس ہوگیا کہ اب انہیں زندہ بچنے کے لیے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا کیونکہ ان کی حکومت ہاتھ اٹھا چکی ہے۔

پپیئرز پال ریڈ اپنی کتاب Alive میں بتاتے ہیں کہ اس وقت متاثرین کی ذہنی کیفیت کیا تھی۔ ’ریڈیو پر خبر سن کر ہم سب رونے لگے لیکن نیندو اس دوران خاموش رہا۔ تھوڑی دیر بعد ہماری ٹیم کا ایک اور کھلاڑی کوکو جہاز سے باہر آیا اور کہا کہ ’دوستو ہم نے ریڈیو پر خوشخبری سنی ہے‘، ہم میں سے ایک نوجوان نے پوچھا کہ یہ خوشخبری کیسے ہوسکتی ہے؟ جس پر کوکو نے کہا کہ یہ خوشخبری اس لیے ہے کیونکہ اب ہمیں انتظار نہیں کرنا بلکہ خود یہاں سے نکلنے کی کوشش کرنی ہے‘۔

جہاز کے سامان سے ملنے والا کھانا ایک ہفتے میں ہی ختم ہوگیا تھا۔ نیندو نے ایک پھونگ پھلی والی چاکلیٹ تین دن میں تھوڑی تھوڑی کرکے کھائی تھی۔ کھانا ختم ہوجانے کے بعد متاثرین نے سیٹ کا چمڑا اور سیٹوں سے نکلنے والی روئی کھائی لیکن یہ کھا کر وہ بیمار ہوگئے۔

’انسانی گوشت کھایا‘

ریسکیو مشن بند ہونے کے باعث متاثرین نے ایک دوسرے کو اجازت دینا شروع کردی کہ مرنے کے بعد وہ ان کے جسم کو کھا سکتے ہیں۔

روبرٹو نے بعدازاں بتایا کہ ’کھانا نہ کھانے کی وجہ سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہمارا جسم ہمیں اندر سے کھا رہا ہے۔ ہمیں پتا تھا کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا ہے لیکن ہم وہ کرنے سے بہت ڈر رہے تھے۔ مرنے والوں کی لاشیں ہم نے برف میں دبا دی تھیں تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ میں نے خدا سے دعا مانگی اور اس سے پوچھا کہ میں جو کرنے والا ہوں وہ ٹھیک ہے؟ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنے دوستوں کی روحوں کو نقصان پہنچا رہا ہوں‘۔

سب سے پہلے روبرٹو نے شروعات کی۔ اس نے جہاز کے ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑے سے لاشوں کو کاٹا۔ سب کھانے سے کراہیت محسوس کررہے تھے لیکن روبرٹو نے انسانی گوشت کا ٹکڑا کھایا۔ یہ دیکھنے کے بعد دو اور متاثرین نے گوشت کھایا لیکن زیادہ تر نے انکار کیا کیونکہ مرنے والے آپس میں دوست اور رشتہ دار تھے۔ بعدازاں رگبی ٹیم کا کپتان مارسیلو جو پہلے ہی انتظامی امور دیکھ رہا تھا، اس نے گوشت کاٹنے اور تقسیم کے کام کی بھی قیادت شروع کردی۔

نیندو اپنے فیصلے کے بارے میں کہتا ہے، ’ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا صرف کپڑے بچے تھے اس لیے ہمارے پاس انسانی گوشت کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘۔

برفانی طوفان

29 اکتوبر کی رات جب تمام 27 متاثرین جہاز میں پناہ لیے سو رہے تھے، اچانک رات میں اونچائی سے برفانی تودہ گرا اور برف کا ایک تودہ جہاز کی جانب یعنی ڈھلوان پر آیا۔ برفانی تودے میں دب کر 8 افراد مارے گئے جن میں رگبی ٹیم کا کپتان مارسیلو، کوکو، اینرریکے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے والی خاتون شامل تھیں۔ برف ایک میٹر تک جہاز کے اندر آچکی تھی جس کے باعث زندہ بچ جانے والوں کو پتا تھا کہ جلد ہی آکسیجن ختم ہوجائے گی۔

3 دن کے اندر اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ مجبور ہوگئے کہ وہ ان کی لاشوں کو کھائیں۔ نیندو بتاتا ہے کہ ’ان کا گوشت تازہ اور نرم سا تھا اور اس میں خون لگا تھا، کھاتے ہوئے مجھے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میں قے کردوں گا‘۔ یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے جمی ہوئی نہیں بلکہ تازہ لاشوں کو کھایا تھا۔

گھنٹوں کی محنت سے نینو نے برف کھودی تاکہ اوپر جانے کا راستہ بن سکے۔ 31 اکتوبر کو نینو کو روشنی نظر آئی اور دوسرے ساتھیوں کی مدد سے وہ جہاز کی کڑکی کا شیشہ توڑ کر باہر نکل گئے۔ اسی اثنا میں نینو کا پاؤں زخمی ہوگیا۔

نینو جس کا ذکر پہلے کیا گیا تھا، مضبوط اعصاب کا مالک تھا لیکن جہاز کی راڈ پاؤں میں گھس جانے کے بعد وہ بہت کمزور ہوگیا۔ سرد موسم کی وجہ سے اس کا زخم بھر نہیں رہا تھا بلکہ اس کے پیر کا خون جم گیا تھا۔ وہ انسانی گوشت کھانے کا سخت مخالف تھا جبکہ اس کا کزن اور دوست نیندو اسے آمادہ کرتا کہ وہ پہلے ہی بیمار ہے اسے زندہ رہنے کے لیے کچھ کھانا ہوگا۔

جب نینو کو لگا کہ اب کوئی راستہ نہیں تب اس نے انتہائی کم گوشت کھانا شروع کیا جس کی وجہ سے وہ زندہ تو رہا لیکن توانائی نہ مل پائی اور یوں لاغر حالت میں پڑا رہا۔

نیندو جانتا تھا کہ نینو کے لیے کتنا ضروری ہے کہ وہ یہ گوشت کھائے لہذا وہ گوشت کو دھوپ میں پکانے لگا جہاں وہ پورے دن گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جہاز کے اوپر رکھ دیتا تاکہ وہ دھوپ سے کچھ حد تک کھانے کے لائق ہوجائے۔

مدد کی تلاش میں پہلا سفر

برفانی تودے کے واقعے کے بعد زندہ بچ جانے والے 19 متاثرین مصر تھے کہ انہیں اب خود ہی پہاڑ عبور کرنے ہوں گے کیونکہ مرنے سے پہلے پائلٹ نے کہا تھا وہ کوریکو پار کرچکے ہیں جس کا مطلب یہی تھا کہ چلی کا یہ شہر نزدیک ہی واقع ہے۔

اتنے دن برف میں گزارنے کی وجہ سے متاثرین بیماریوں کا شکار ہورہے تھے جن میں سے کچھ کی نظر آہستہ آہستہ کم ہورہی تھی جبکہ کچھ غذائیت کی کمی کا شکار تھے۔ ایسے میں نینو، ربرٹو اور نیندو نے ذمہ داری اٹھائی کہ وہ مشرق کی طرف پیدل جائیں گے اور مدد کے لیے لوگوں کو بلائیں گے۔

نینو کی ٹانگ اس وقت زخمی تھی لیکن صورتحال اتنی خراب نہیں تھی کہ وہ چل نہیں پاتا۔ ساتھیوں نے اسے جانے سے منع کیا لیکن پھر بھی وہ گیا۔ لیکن کچھ ہی دور جا کر انہیں احساس ہوا کہ نینو آگے نہیں جا سکتا لہٰذا ایک اور دوست انٹونیو کو ساتھ لے کر نیندو اور ربرٹو مدد کی تلاش میں چل پڑے۔ وہ اپنے ساتھ گوشت بھی لے کر گئے تھے تاکہ اسے کھا سکیں۔ مشرق میں کئی دنوں تک سفر کیا لیکن انہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی۔

15 نومبر کو انہیں جہاز کا ٹیل مل گیا جس پر بیٹریاں موجود تھیں۔ شدید سردی کے باعث انہیں لگ رہا تھا کہ وہ مر جائیں گے لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس چلے جائیں گے تاکہ شاید بیٹری کی مدد سے ریڈیو ٹھیک ہوجائے اور وہ مدد کے لیے رابطہ کرسکیں۔ جہاز کے اس حصے میں کھانے کا کچھ سامان بھی انہیں ملا۔ چونکہ اب ڈھلوان تھی اس لیے وہ پھسلتے ہوئے بیٹریاں جہاز کے اس حصے تک لے آئے جہاں وہ قیام کررہے تھے۔

اگلے چند دنوں میں مزید تین افراد ہلاک ہوگئے جن میں نینو بھی شامل تھا۔ گوشت کھانے سے منع کرنے اور پاؤں کے زخم کی وجہ سے اس کا وزن بہت گر گیا تھا اور 11 دسمبر (60واں روز) کو زندگی کی بازی ہار گیا۔ نینو کے مرنے کے بعد زندہ بچ جانے والے 16 افراد سمجھ گئے کہ اب وہ نہیں نکلیں تو وہ یہاں یونہی مر جائیں گے۔ لہذا انٹونیو، ربرٹو اور نیندو نے اس بار مغرب کی جانب سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ 12 دسمبر کو اس سفر پر روانہ ہوئے۔

مدد کی تلاش میں دوسرا سفر

اس سفر پر روانگی سے قبل سونے کے لیے سلیپنگ بیگ بنایا جوکہ جہاز کے ایئر کنڈیشن والے حصے کو ڈھکنے والے کپڑے کی مدد سے بنایا گیا تھا۔ یہ کپڑا پانی کی وجہ سے گیلا نہیں ہوتا تھا اس لیے تینوں نے سوچا کہ وہ دوران سفر اس کا استعمال کریں گے۔

انہوں نے دو دنوں تک مسلسل برفانی پہاڑوں پر چڑھائی کی اور سلیپنگ بیگز میں سوئے۔ تیسرے دن نینو اور انٹونیو نے چڑھائی کا فیصلہ کیا جبکہ ربرٹو کیمپ میں ہی رہا۔ 4503 میٹرز سر کرنے کے بعد دونوں چوٹی پر پہنچے انہیں لگ رہا تھا انہیں آبادی یا ہریالی کے کچھ اثرات نظر آئیں گے لیکن دور دور تک برفانی پہاڑوں کا سلسلہ دیکھ کر وہ سخت مایوس ہوئے اور واپس ربرٹو کے پاس کیمپ لوٹ آئے۔ اس موقع پر انہیں احساس ہوا کہ مدد کی تلاش میں انہیں توقع سے زیادہ دن لگ جائیں گے تو انہوں نے انٹونیو کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ ربرٹو اور نیندو کم خوراک میں سفر مکمل کرسکیں۔

نیندو اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ اس رات ہم دونوں نے دوبارہ چوٹی سر کی اور ربرٹو کو لگا کہ ہم مر چکے ہیں جس پر میں نے اس سے کہا کہ ہاں شاید ہم اپنی موت کی جانب جا رہے ہیں لیکن میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے پر خود موت کی طرف جانے کو ترجیح دوں گا جس پر ربرٹو نے مجھ سے کہا کہ ہم دوست ہیں ہم نے بہت کچھ ساتھ سہا ہے، ہم مریں گے بھی ساتھ’۔

’اب ہم مزید نہیں چل سکتے‘

دونوں نے اگلے دن اترنا شروع کیا اور مسلسل سات دن نیچے اترنے کے بعد ربرٹو کو ایک سنسان ہریالی نظر آئی جہاں سوپ کے خالی کٹورے رکھے تھے جس سے انہیں اندازہ ہوا کہ یہاں انسان رہتے ہیں۔ انہوں نے نیچے اتر کر انتظار کیا تو ایک گھڑ سوار وہاں سے گزرا، دونوں نے چیخ کر اسے آواز دی لیکن دریا کے شور کی وجہ سے وہ انہیں سن نہیں پایا اور کہا کہ ’کل۔۔۔‘

اگلے دن وہ آدمی لوٹا تو نیندو نے ایک تحریر پتھر میں لپیٹ کر اس کی جانب پھینکی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ان کا جہاز پہاڑوں میں تباہ ہوا اور وہ مدد کے لیے مسلسل کئی دنوں سے چل رہے ہیں، ان کے علاوہ 14 لوگ اور زندہ ہیں۔ وہ مزید نہیں چل سکتے کیا وہ انہیں بتا سکتا ہے کہ اس وقت وہ کہاں ہیں؟ جس پر شخص نے جواب دیا کہ وہ چلی میں ہیں۔

تحریر پڑھنے کے بعد اس شخص کو یاد آیا کہ کچھ دن پہلے اس کے ایک جاننے والے نے دریافت کیا تھا کہ کیا میں نے اس علاقے میں حادثے کا شکار جہاز کو دیکھا ہے۔ انہوں نے فوری طور پر دونوں کو ڈبل روٹی دی اور واپس جا کر چلی کی آرمی کو اطلاع دی۔

انہوں نے دس دنوں میں چڑھائی اور اترائی کو ملا کر کل 53 کلومیٹرز کا سفر پیدل طے کیا تھا اور وہ 22 دسمبر کو چلی پہنچے تھے۔

ریسکیو آپریشن

فوری طور پر خبر یوروگوئے پہنچائی گئی جہاں انہیں مطلع کیا گیا کہ حادثے کے 72 روز گزر جانے کے بعد 16 افراد اب بھی زندہ ہیں۔ چلی کی آرمی نے ربرٹو اور نیندو سے پوچھ گچھ کی اور دو ہیلی کوپٹر حادثے کے مقام پر بھیجے جس کی رہنمائی ربرٹو نے کی۔ 22 سمبر کو یہ ہیلی کاپٹرز صرف 7 افراد کو ریسکیو کرپائے جبکہ مزید 7 کو اگلے روز 23 دسمبر کو ریسکیو کیا گیا۔ یوں 72 دنوں کے مصائب کا خاتمہ ہوا کیونکہ اب بلآخر وہ اپنے گھر جارہے تھے۔

نیندو اپنی والدہ اور بہن کی لاشوں کو بھی یوروگوئے اپنے ساتھ لایا۔ جبکہ دیگر نے بھی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنی خواہش کے مطابق دفن کیا جبکہ کچھ کے لواحقین نے انہیں وہیں برف میں ہی دفنا دیا۔ حادثے کے مقام پر مرنے والوں کے لیے ایک یادگار بھی بنائی گئی جو اب بھی موجود ہے۔

’انہوں نے اپنے ساتھیوں کو مار کر کھایا ہے‘

متاثرین کے لوٹنے پر یوروگوئے میں ہلچل مچ گئی۔ انہیں فوری علاج کے لیے ہسپتالوں میں داخل کیا گیا کیونکہ 72 روز سخت موسم میں رہنے کے بعد وہ متعدد بیماریوں کا شکار ہوچکے تھے۔

ابتدائی طور پر متاثرین نے بتایا کہ وہ چیز (cheese) اور کھانے کی دیگر اشیا کھا کر زندہ رہے لیکن حادثے کے مقام سے آنے والی کچھ تصاویر میں ایک کٹی ہوئی ٹانگ ملی جس کی بنیاد پر عالمی میڈیا میں یہ شہ سرخی لگائی گئی کہ انہوں نے اپنے دوستوں کو مار کر کھایا ہے تاکہ زندہ رہ سکیں۔

میڈیا میں جب قیاس آرائیاں شدت اختیار کرگئیں تو متاثرین نے 28 دسمبر کو پریس کانفرنس کرکے اپنے 72 دنوں کی کہانی پوری دنیا کو بتائی اور بتایا کہ ان کے دوستوں نے خود اپنا گوشت کھانے کی اجازت دی تھی جبکہ انہوں نے اعتراف کیا کہ شروع شروع میں وہ صرف جلد کا حصہ کھاتے تھے لیکن پھر توانائی کی طلب میں انہوں نے اپنے مردہ ساتھیوں کا جگر، دل اور دیگر اندرونی اعضا بھی کھائے۔

ابتدا میں انہیں شدید مخالفت اور عوامی نفرت کا سامنا کرنا پڑا لیکن کیتھولک معلمین نے اعلان کیا کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے اس لیے انہیں خدا کی ناراضی کا سامنا نہیں۔ بعدازاں اس وقت کے پوپ نے خط لکھ کر انہیں یقین دلایا کہ انہوں نے غلط نہیں کیا۔

نیندو اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ ’اس واقعے کے بعد ہم بالکل بھی پہلے جیسے نہیں رہے‘۔

اس غیرمعمولی عجیب و غریب واقعے نے دنیا کی خوب توجہ حاصل کی اور اس پر متعدد دستاویزی فلمیں اور فیچر فلمیں بنائی گئیں۔ اس کی تازہ ترین مثال نیٹ فلکس کی ہسپانوی فلم ’سوسائٹی آف دی اسنو‘ ہے جو رواں سال جنوری میں ریلیز ہوئی۔ متاثرین کی آپ بیتی پر مبنی اس فلم کو بہترین انٹرنیشنل فلم کے طور پر آسکر میں نامزدگی بھی ملی لیکن یہ ایوارڈ نہیں جیت پائی۔

72 روز اپنے دوستوں کو مرتا ہوا دیکھنے اور پھر انہیں کے گوشت کو کھا کر زندگی کی جدوجہد کرنے والے یوروگوئے کے یہ نوجوان آج بھی ان تلخ یادوں کے کرب سے گزر رہے ہیں جسے وہ چاہ کر بھی کبھی بھول نہیں پائیں گے۔