نقطہ نظر

پاک-انگلینڈ ٹیسٹ سیریز: کیا شان مسعود کی ناکامیوں کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا؟

مسلسل پانچ میچز میں شکست اور لگاتار دو کلین سوئپ کی ذلت اٹھانے والے کپتان شان مسعود اب انگلینڈ کی مضبوط ٹیم کا سامنا کریں گے۔

دو سال قبل پاکستان کو اسی کی سرزمین پر تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں کلین سوئپ کرنے کے بعد انگلینڈ کی ٹیم ایک بار پھر پاکستان کا دورہ کررہی ہے۔ یہاں وہ تین ٹیسٹ کھیلے گی جن میں سے دو ٹیسٹ ملتان میں اور ایک راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔

ملتان میں پہلا ٹیسٹ 7 تا 11 اکتوبر اور دوسرا میچ 15 تا 19 اکتوبر تک کھیلا جائے گا جبکہ تیسرا ٹیسٹ راولپنڈی میں 24 سے 28 اکتوبر تک کھیلا جائے گا۔

17 کھلاڑیوں پر مشتمل انگلینڈ کی ٹیم کی قیادت کہنہ مشق آل راؤنڈر بین اسٹوکس کررہے ہیں۔ ان کی معاونت کے لیے کئی تجربہ کار اور باصلاحیت کھلاڑی ٹیم میں موجود ہیں جن میں جو روٹ، کرس ووکس، اولی پوپ، زیک کرالی، جیک لیچ، بین ڈکیٹ اور ہیری بروک شامل ہیں۔ ان کے علاوہ نو عمر اسپنرز ریحان احمد اور شعیب بشیر سے بھی پاکستان کی وکٹوں پر عمدہ کارکردگی کی توقع ہے۔

انگلینڈ کے اسکواڈ میں جو 17 کھلاڑی شامل ہیں جن میں سے 10 کرکٹرز پہلے ہی پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچز کھیل چکے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ نے پہلے ٹیسٹ کے لیے جن 15 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کیا ہے، ان میں سے 12 کھلاڑی انگلینڈ کے خلاف پہلے بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ پاکستانی اسکواڈ کم و بیش انہی کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو بنگلہ دیش کے خلاف حالیہ سیریز میں حصہ لے چکے ہیں۔

پاکستانی ٹیم کی قیادت شان مسعود ہی کریں گے جو بہ حیثیت کپتان اپنے پانچوں ابتدائی ٹیسٹ ہار کر پاکستان کے لیے ایک نیا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ ان کی کپتانی میں پاکستان نے آسٹریلیا میں تین اور ہوم گراؤنڈ پر بنگلہ دیش کے خلاف دو ٹیسٹ کی سیریز کھیلیں اور دونوں میں پاکستان کو وائٹ واش کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ اب دیکھنا ہے کہ اس بار ان کی قیادت میں پاکستان پہلی مرتبہ کوئی ٹیسٹ جیتے گا یا شان کی ناکامیوں کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔

پاکستانی ٹیم میں سعود شکیل نائب کپتان ہوں گے جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں بابر اعظم، محمد رضوان، عبداللہ شفیق، سلمان علی آغا، صائم ایوب، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، عامرجمال، میر حمزہ، ابرار احمد، نعمان علی، سرفراز احمد اور محمد ہریرہ شامل ہیں۔ گزشتہ سیریز کے کامیاب فاسٹ باؤلر خرم شہزاد زخمی ہونے کے باعث ٹیم میں شامل نہیں ہوسکے جبکہ کامران غلام اور محمد علی کو فی الحال ٹیم سے باہر رکھا گیا ہے۔ اسپنر نعمان علی اور پیسر عامر جمال کی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے۔

پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف اب تک 89 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں۔ یہ اس کی جانب سے کسی بھی ملک کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے کا ریکارڈ ہے۔ پاکستان افغانستان کے علاوہ آئی سی سی کی مکمل رکنیت رکھنے والے دیگر تمام ممالک کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کھیلتا رہا ہے۔

پاکستان نے مجموعی طور پر 458 ٹیسٹ کھیلے ہیں جن میں سے 148 ٹیسٹ جیتے، 144 ہارے جبکہ 166 میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ پاکستان کی کامیابی کا تناسب 50.68 فیصد ہے۔ دوسری جانب انگلینڈ نے مجموعی طور پر 1077 ٹیسٹ کھیلے ہیں جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں موجود 12 ممالک میں ایک ہزار سے زائد ٹیسٹ کھیلنے والی اب تک کی واحد ٹیم ہے۔ اس نے 397 ٹیسٹ جیتے اور 325 ہارے جبکہ 355 میچز ڈرا ہوئے۔ ان کی کامیابی کا تناسب 54.98 فیصد رہا۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 89 ٹیسٹ کھیلے گئے جن میں سے پاکستان نے 21 اور انگلینڈ نے 29 نے میچز جیتے جبکہ 39 ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ پاکستان کی کامیابی کا تناسب 42 فیصد جبکہ انگلینڈ کا 58 فیصد رہا۔ اس اعتبار سے انگلینڈ کا پلہ بھاری ہے۔

پاکستان نے انگلینڈ کی سرزمین پر 56 ٹیسٹ کھیلے جن میں سے 12 جیتے، 24 میں شکست کا سامنا کیا جبکہ 20 میچز ڈرا ہوئے۔ پاکستان نے ہوم گراؤنڈ پر 27 ٹیسٹ کھیلے، 4 میں فتح، 5 میں شکست ہوئی جبکہ 18 میچز ڈرا ہوئے۔

نیوٹرل مقام (متحدہ عرب امارات) میں کھیلے گئے 6 ٹیسٹ میچز میں سے 5 میں پاکستان کامیاب ہوا اور ایک میچ ڈرا ہونے کے باعث انگلینڈ کوئی بھی میچ نہیں جیت پایا۔

پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز 1954ء میں ہوا جب گرین شرٹس کو ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں وارد ہوئے صرف ڈیڑھ سال گزرا تھا۔ تب سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان 70 سال کے عرصے میں 27 ٹیسٹ سیریز کھیلی جاچکی ہیں جن میں سے 16 سیریز انگلینڈ اور 9 پاکستان میں کھیلی گئیں جبکہ دو سیریز کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں ہوا۔

ان 27 ٹیسٹ سیریز میں 5 میچز کی تین جبکہ 4 ٹیسٹ کی چار سیریز شامل ہیں جو تمام انگلینڈ میں کھیلی گئیں جبکہ تین ٹیسٹ پر مشتمل کُل 18 سیریز کھیلی گئیں۔ 9 پاکستان، 7 انگلینڈ اور دو سیریز عرب امارات میں کھیلی گئیں۔ دو ٹیسٹ میچز پر مشتمل صرف دو سیریز کھیلی گئیں جن کا انعقاد انگلینڈ میں ہی ہوا اور یہ دونوں سیریز ڈرا ہوئیں۔

پانچ ٹیسٹ کی دو سیریز میں پاکستان اور انگلینڈ کو ایک ایک میں کامیابی حاصل ہوئی جبکہ 4 میچز کی دو سیریز انگلینڈ نے جیتیں اور دو سیریز برابر رہیں۔ تین ٹیسٹ میچز پر مشتمل 18 سیریز میں سے 6 میں پاکستان اور 8 میں انگلینڈ کامیاب ہوا جبکہ چار سیریز ڈرا ہوئیں۔ مجموعی طور پر پاکستان نے 8 اور انگلینڈ نے 11 ٹیسٹ سیریز جیتیں جبکہ 8 سیریز برابر رہیں۔

پاکستان نے ایک بار 2012ء-2011ء میں متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی تین میچز کی ٹیسٹ سیریز میں انگلینڈ کے خلاف کلین سویپ کیا جبکہ انگلینڈ نے بھی ایک بار 2023ء-2022ء میں کھیلی گئی تین ٹیسٹ کی سیریز میں پاکستان کو وائٹ واش سے دوچار کیا۔

شائقین کی دلچسپی کے لیے پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی گئی 70 سالہ ٹیسٹ کرکٹ کا ایک شماریاتی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

سب سے زیادہ اور کم اسکور (اننگز)

پاکستان کا انگلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ اننگز میں سب سے زیادہ اسکور 708 رنز ہے جو اس نے اوول، لندن میں اگست 1987ء میں کیا جبکہ انگلینڈ کا پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ اسکور 657 رنز ہے جو اس نے اسکور دسمبر 2022ء میں راولپنڈی میں بنایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے خلاف اننگز میں سب سے کم اسکور ایک ہی ہے اور وہ 72 رنز ہے۔ اگست 2010ء میں یہ اسکور پاکستان نے برمنگھم میں جبکہ انگلینڈ نے جون 2012ء میں ابوظہبی میں اسکور کیا۔

سب سے زیادہ اور کم مجموعی اسکور (میچ)

دونوں ٹیموں کی جانب سے میچ میں سب سے زیادہ مجموعی اسکور کا ریکارڈ 37 وکٹوں کے نقصان پر 1768 رنز ہے جو دسمبر 2022ء میں راولپنڈی میں قائم ہوا جبکہ سب سے کم مجموعی اسکور کا ریکارڈ 28 وکٹوں کے نقصان پر 509 رنز اگست 1967ء میں ناٹنگھم میں قائم ہوا۔

سب سے بڑی اور سب سے چھوٹی فتح

پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف اننگز کے اعتبار سے سب سے بڑی فتح 2006ء-2005ء میں لاہور میں حاصل کی جو ایک اننگز اور 100 رنز سے تھی۔ دوسری جانب انگلینڈ کی سب سے بڑی فتح ایک اننگز اور 225 رنز کی تھی جو اس نے 2010ء میں لارڈز، لندن میں حاصل کی۔ پاکستان نے تین مرتبہ انگلینڈ کو اننگز شکست سے دو چار کیا۔ دو بار ہوم گراؤنڈ پر (لاہور میں) اور ایک دفعہ اسی کی سرزمین (لیڈز میں) پر جبکہ انگلینڈ پاکستان کو 9 مرتبہ اننگز کی مات دے چکا ہے اور اس نے یہ تمام فتوحات اپنے ہوم گراؤنڈ پر حاصل کیں۔

رنز کے اعتبار سے پاکستان کو سب سے بڑی کامیابی 2016ء-2015ء میں دبئی میں ملی جب اس نے انگلینڈ کو 178 رنز سے مات دی۔ اس کے برعکس انگلینڈ نے پاکستان کو 2010ء میں ناٹنگھم میں 354 رنز سے شکست دے کر اپنی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی۔

وکٹوں کے اعتبار سے دونوں کی ایک دوسرے کے خلاف سب سے بڑی جیت 10 وکٹوں کی ہے جو انہوں نے ایک سے زائد بار حاصل کی۔ پاکستان نے چار مرتبہ (لارڈز 1982ء، اوول 1992ء، دبئی 2012ء اور اوول 2016ء) جبکہ انگلینڈ نے دو بار (اوول 1962ء اور ناٹنگھم 1967ء) ایک دوسرے کے خلاف 10 وکٹوں سے فتح سمیٹی۔

پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف رنز کے اعتبار سے سب سے چھوٹی فتح صرف 22 رنز سے ملتان میں نومبر 2005ء میں حاصل ہوئی جبکہ انگلینڈ کو پاکستان کے خلاف 25 رنز سے جولائی 1971ء میں لیڈز کے مقام پر حاصل ہوئی۔ وکٹوں کے اعتبار سے پاکستان کی سب سے چھوٹی کامیابی دو وکٹوں سے تھی جو اس نے جون 1992ء میں لارڈز میں حاصل کی جبکہ انگلینڈ کی سب سے چھوٹی کامیابی تین وکٹوں کی تھی جو اس نے دو مرتبہ حاصل کی، ایک بار اگست 1982ء میں لیڈز میں اور دوسری بار مانچسٹر میں اگست 2020ء میں حاصل کی۔

سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز

پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز انضمام الحق ہیں۔ انہوں نے 19 ٹیسٹ اور 32 اننگز میں 54.62 کی اوسط سے 1584 رنز اسکور کیے۔ انگلینڈ کے لیے یہ کارنامہ ایلیسٹرکُک نے انجام دیا۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف 20 ٹیسٹ اور 36 اننگز میں 49.11 کی اوسط سے 1719 سے رنز بنائے۔

سب سے بڑا انفرادی اسکور

سب سے بڑا انفرادی اسکور انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی جانب سے ظہیر عباس نے کیا جب انہوں نے جون 1971ء میں برمنگھم میں 274 رنز بنائے جبکہ انگلینڈ کے لیے پاکستان کے خلاف سب سے بڑا اسکور 278 رنز ڈینس کامپٹن نے جولائی 1954ء میں ناٹنگھم میں کیا۔

انفرادی سنچریاں

اب تک 35 پاکستانی کھلاڑی انگلینڈ کے خلاف 68 سنچریاں اسکور کرچکے ہی جن میں 9 ڈبل سنچریاں بھی شامل ہیں۔ ظہیر عباس اور محمد یوسف نے دو، دو اور محسن خان، جاوید میانداد، عامر سہیل، شعیب ملک اور یونس خان نے ایک، ایک ڈبل سنچری اسکور کی۔

انگلینڈ کی جانب سے 48 کھلاڑیوں نے 81 سنچریاں بنائیں جن میں 5 ڈبل سنچریاں شامل ہیں جو کامپٹن، ٹیڈ ڈیکسٹر، ایلیسٹرکُک، جو روٹ اور زیک کرالی نے اسکور کیں۔

پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ سنچریاں محمد یوسف نے بنائیں جن کی تعداد 6 ہے جبکہ انگلینڈ کے لیے سب سے زیادہ (پانچ سنچریاں) ایلیسٹر کُک نے اسکور کیں۔

سیریز میں سب سے زیادہ رنز

پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف ایک سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ محمد یوسف نے قائم کیا۔ انہوں نے 2006ء میں انگلینڈ کے دورے میں سیریز کے چار ٹیسٹ، 7 اننگز کھیل کر 90.14 کی اوسط سے 631 رنز اسکور کیے، ان میں تین سنچریاں شامل تھیں۔

انگلینڈ کے لیے یہ ریکارڈ جو روٹ نے قائم کیا۔ انہوں نے 2016ء میں ہوم سیریز کے دوران چار ٹیسٹ، 8 اننگز میں 73.14 کی اوسط سے 512 رنز بنائے۔ ان میں ایک سنچری اور دو نصف سنچریاں شامل تھیں۔

سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کسی باؤلر کی سب سے زیادہ وکٹوں کی تعداد ایک ہی ہے یعنی 82۔

پاکستان کی طرف سے لیگ اسپنر عبدالقادر نے 16 ٹیسٹ کھیل کر 24.98 کی اوسط سے جبکہ انگلینڈ کی جانب سے تیز رفتار باؤلر جیمز اینڈرسن نے 20 ٹیسٹ میچز میں 19.23 کی اوسط سے یہ وکٹیں حاصل کیں۔

اننگز اور میچ میں بہترین باؤلنگ

عبدالقادر نے نومبر 1987ء میں لاہور میں 56 رنز کے عوض 9 وکٹیں حاصل کیں جو انگلینڈ کے خلاف کسی بھی پاکستانی باؤلر کی اننگز میں بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ ہے۔ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ 34 رنز کے بدلے 8 وکٹوں کا ہے جو فاسٹ باؤلر ایان بوتھم نے جون 1978ء میں لارڈز کے میدان میں قائم کیا۔

پاکستان کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف میچ میں بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ بھی عبدالقادر ہی کا ہے۔ انہوں نے اسی ٹیسٹ میچ میں جو 1987ء میں لاہور میں کھیلا گیا تھا، دونوں اننگز میں مجموعی طور پر 101 رنز دے کر 13وکٹیں لیں۔ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف میچ میں بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ اسپنر ڈیرک انڈرووڈ نے کیا۔ انہوں نے اگست 1974ء میں لارڈز میں صرف 71 رنز کے عوض 13 وکٹیں حاصل کیں۔

اننگز میں پانچ یا زائد وکٹیں

انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی جانب سے اننگز میں 5 یا زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ سب سے زیادہ مرتبہ عبدالقادر ہی نے انجام دیا جن کی تعداد 8 ہے۔ سب سے زیادہ مواقع پر میچ میں 10 یا زائد وکٹیں لینے کا ریکارڈ بھی انہیں کے حصے میں آیا۔ انہوں نے چار مرتبہ یہ کارنامہ انجام دیا۔

انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ مرتبہ اننگز میں پانچ یا زائد وکٹیں لینے کا ریکارڈ انڈرووڈ کا ہے۔ انہوں نے 11 ٹیسٹ کھیل کر چار دفعہ یہ کارنامہ انجام دیا۔ تاہم انگلینڈ کا کوئی بھی باؤلر ایک سے زیادہ مرتبہ میچ میں 10 یا اس سے زائد وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔ ایک بار اس کارنامے کو انجام دینے والے باؤلرز کی تعداد پانچ ہے۔ ان میں انڈرووڈ، نک کُک، کرس ووکس، جیمز اینڈرسن اور اسٹیو ہرمیسن شامل ہیں۔

سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں

پاکستان کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ بھی عبدالقادر ہی کے نام ہے۔ انہوں نے 1988ء-1987ء میں ہوم سیریز کے تینوں ٹیسٹ کھیل کر 14.56 کی اوسط سے 30 وکٹیں حاصل کیں۔ انگلینڈ کی جانب سے سیریز میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے فاسٹ باؤلر کرس ووکس تھے۔ انہوں نے 2016ء میں ہوم سیریز کے چاروں ٹیسٹ کھیل کر 16.73 کی اوسط سے 26 وکٹیں حاصل کیں۔

سب سے زیادہ شکار

پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر وسیم باری ہیں جنہوں نے 24 ٹیسٹ کھیل کر 54 شکار کیے جن میں 50 کیچ اور چار اسٹمپ شامل ہیں۔ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ ایلن ناٹ نے قائم کیا۔ انہوں نے 14 ٹیسٹ میچز میں 41 شکار کیے جن میں 39 کیچ اور دو اسٹمپ شامل ہیں۔

سب سے زیادہ شکار (ایک سیریز میں)

پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف سیریز میں سب سے زیادہ شکار کرنے کا ریکارڈ کامران اکمل نے قائم کیا۔ انہوں نے 2010ء میں انگلینڈ میں کھیلی گئی سیریز کے دوران تین ٹیسٹ کھیل کر 17 شکار کیے جوکہ تمام کیچ تھے۔ دوسری جانب انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ شکار کرنے والے وکٹ کیپر جانی بیرسٹو ہیں جنہوں نے 2016ء میں ہوم سیریز کے چاروں ٹیسٹ کھیل کر 15 شکار کیے جن میں 14 کیچ اور ایک اسٹمپنگ شامل ہیں۔

سب سے زیادہ کیچ لینے والے فیلڈرز

پاکستان کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ کیچ لینے کا ریکارڈ دو فیلڈرز یونس خان اور جاوید میانداد نے قائم کیا۔ یونس خان نے 17 ٹیسٹ میں 20 جبکہ جاوید نے 22 ٹیسٹ میں اتنے ہی کیچ لیے۔ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ جو روٹ نے قائم کیا۔ انہوں نے 15 ٹیسٹ کھیل کر 25 کیچ لیے۔

سیریز میں سب سے زیادہ کیچ

انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں سب سے زیادہ کیچ لینے والے فیلڈر پاکستان کی طرف سے محمد یوسف ہیں جنہوں نے2001-2000ء میں ہوم سیریز کے دوران تینوں ٹیسٹ کھیل کر 8 کیچ لیے جبکہ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف یہ ریکارڈ ٹونی گریگ نے قائم کیا۔ انہوں نے 1974ء میں ہوم سیریز کے تینوں ٹیسٹ کھیل کر 11 کیچ لیے۔

سب سے بڑی پارٹنر شپ

انگلینڈ کے خلاف کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی پارٹنر شپ پاکستان کی جانب سے یونس خان اور محمد یوسف نے قائم کی۔ انہوں نے اگست 2006ء میں لیڈز کے مقام پر تیسری وکٹ کی شراکت میں 363 رنز بنائے۔ انگلینڈ کی طرف سے پاکستان کے خلاف سب سے بڑی شراکت زیک کرالی اور جوس بٹلر نے قائم کی۔ انہوں نے اگست 2020ء میں پانچویں وکٹ کے لیے 359 رنز اسکور کیے۔

پاکستانی کھلاڑیوں نےانگلینڈ کے خلاف دسویں وکٹ کے علاوہ بقیہ تمام وکٹوں کے لیے سنچری پارٹنر شپ قائم کیں جبکہ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف آخری دو وکٹوں کے علاوہ تمام وکٹوں کے لیے سنچری شراکتیں قائم ہوئیں۔

سب سے زیادہ میچ کھیلنے والے کھلاڑی

پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف اب تک 160 کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ سب سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے والے کھلاڑی وسیم باری ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کے خلاف 1967ء سے 1982ء تک 24 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ دوسری جانب انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تعداد 200 ہے۔ ان میں سے دو کرکٹرز نے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ایلیسٹر کُک (2018ء-2006ء) اور جیمز اینڈرسن (2022ء-2010ء) نے 20 ٹیسٹ میچز میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔

سب سے زیادہ ٹیسٹ کھیلنے والے کپتان

مصباح الحق نے انگلینڈ کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی قیادت کی ہے۔ انہوں نے ٹیسٹ کپتان کی حیثیت سے 2012ء اور 2016ء کے درمیان انگلینڈ کے خلاف 10 میچز کھیلے جبکہ انگلینڈ کی جانب سے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ میچز میں کپتانی کا ریکارڈ اینڈریو اسٹراس کے پاس ہے جنہوں نے 11 ٹیسٹ میں پاکستان کے خلاف انگلش ٹیم کی قیادت کی۔

پاکستان کی جانب سے اب تک 20 کھلاڑی انگلینڈ کے خلاف قیادت کے فرائض انجام دے چکے ہیں جبکہ اس کے خلاف انگلینڈ کے 23 کھلاڑی اپنی ٹیم کے کپتان رہ چکے ہیں۔ اب پاکستان آنے والی موجودہ ٹیم کے کپتان بین اسٹوکس گزشتہ دورے میں بھی سیریز کے تینوں ٹیسٹ میں انگلینڈ کی کپتانی کرچکے ہیں جبکہ شان مسعود پہلی بار انگلینڈ کے خلاف پاکستان کے کپتان ہوں گے۔

بین اسٹوکس نہایت تجربہ کار آل راؤنڈر ہیں جو اب تک 105 ٹیسٹ میچز کھیل کر بلے باز کی حیثیت سے 6508 رنز بنا چکے ہیں۔ آف بریک باؤلر کی حیثیت سے 203 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں اور فیلڈر کی حیثیت سے 108 کیچ لے چکے ہیں۔ وہ کپتانی کا بھی شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں۔ انہوں نے 27 ٹیسٹ میچز میں انگلینڈ کی قیادت کے فرائض انجام دیے جن میں سے 17 ٹیسٹ میں انگلینڈ کامیاب اور نو میچز انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک ٹیسٹ ڈرا ہوا۔

اسٹوکس کے مقابلے میں پاکستان کے کپتان شان مسعود ٹیسٹ کرکٹ کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتے مگر وہ ایک باصلاحیت بلے باز ہیں جو اب تک 35 ٹیسٹ کھیل کر 4 سنچریوں اور 10 نصف سنچریوں کی مدد سے 1883 رنز اسکور کرچکے ہیں۔

شان صرف 10 ماہ قبل پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مقرر ہوئے تھے اور انہوں نے اب تک صرف دو سیریز کے پانچ ٹیسٹ میچز میں کپتانی کی ہے۔ تاہم یہ ان کی بدقسمتی کہ ان کی قیادت میں نہ صرف یہ کہ پاکستان پانچوں ٹیسٹ ہارا بلکہ آسٹریلیا اور بنگلہ دیش، دونوں کے خلاف سیریز میں وائٹ واش کی ذلت سے بھی دوچار ہوا۔

اب ان کے لیے انگلینڈ کی مضبوط اور تجربہ کار ٹیم کے خلاف پاکستان کی قیادت کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ ٹیم کو نہ صرف پچھلی دو سیریز میں بلکہ انگلینڈ سے بھی گزشتہ سال کھیلی گئی سیریز میں کلین سویپ کی خفت اٹھانا پڑی تھی۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے ہوم گراؤنڈ پر کوئی بھی ٹیسٹ نہیں جیت سکا ہے۔ آخری بار فروری 2021ء میں اس نے راولپنڈی میں جنوبی افریقہ کو 95 رنز سے ہرایا تھا۔

تاہم توقع ہے کہ شان کپتان کی حیثیت سے پاکستان کو کم از کم ایک ٹیسٹ میں ضرور کامیابی دلوائیں گے اور نہ صرف قومی ٹیم کی ہوم گراؤنڈ پر ناکامیوں کے جمود کو توڑنے میں کامیاب ہوگی بلکہ کپتان کی حیثیت سے وہ اپنی شکستوں کے سلسلے کو بھی روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں اپنے ملک کی رینکنگ بھی بہتربنائیں گے جو اس وقت آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ یہ کام دشوار ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔

مشتاق احمد سبحانی

مشتاق احمد سبحانی سینیئر صحافی اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ان کا خاص موضوع ہے جس پر لکھتے اور کام کرتے ہوئے انہیں 40 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ ان کی 4 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔