حیرت انگیز

نصف صدی جیل میں گزارنے والا سزائے موت کا قیدی بے قصور قرار

مجرم قرار دیے جاتے وقت وقت ملزم کی عمر 40 سال سے زائد تھی، انہیں سزائے موت سنائے جانے کے بعد 2014 تک 46 سال جیل میں گزارنے پڑے تھے۔

جاپان کی ایک عدالت نے تقریبا نصف صدی تک جیل میں سزائے موت کی قید گزارنے والے 88 سالہ شخص کو دوسرے ٹرائل کے اختتام پر بے قصور قرار دے دیا۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق 88 ایوائو اکاماتا پر 1968 میں اپنے مالک، ان کی اہلیہ اور دو بچوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور ابتدائی ٹرائل کے بعد انہیں مجرم قرار دے کر سزائے موت سنا دی گئی تھی۔

اس وقت ملزم کی عمر 40 سال سے زائد تھی اور انہیں سزائے موت سنائے جانے کے بعد 2014 تک 46 سال جیل میں گزارنے پڑے تھے۔

ملزم کو 2014 میں ضمانت پر رہا کرکے ان کے ٹرائل کی سماعت دوبارہ کرنے کا اعلان کیا گیاتھا اور گزشتہ ایک دہائی سے ان کے کیس کی دوبارہ سماعتیں جاری تھیں۔

ملزم اکاماتا کو پہلے کیس میں دو میں سے ایک جج نے قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی اور انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔

ملزم قید کے دوران بھی متعدد بار پولیس کے توسط سے عدالتوں میں درخواستیں دائر کرتا رہا اور دعویٰ کرتا رہا کہ ان کے خلاف مکمل شواہد پیش نہیں کیے گئے اور انہیں صفائی کا مکمل موقع فراہم نہیں کیا گیا۔

بعد ازاں ان کے کیس کے دوبارہ ٹرائل شروع ہونے پر ان کے وکلا نے نصف صدی پرانے کیس کے شواہد اور عدالتی دستاویزات سے ثابت کیا کہ ان کے موکل کا ڈی این اے مقتول افراد کے ڈین این اے سے میچ نہیں کرتا جب کہ دوسرے شواہد بھی پیش کیے گئے۔

عدالت نے شواہد کو دیکھتے ہوئے نصف صدی بعد ملزم کو بے قصور قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف دائر مقدمہ بھی خارج کردیا۔

جاپانی حکام اور میڈیا کے مطابق اکاماتا دنیا کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے طویل عرصے تک جیل میں سزائے موت کی قید کاٹی۔

اکاماتا نے مجموعی طور پر جیل میں 46 سال قید کاٹی جب کہ انہوں نے سزائے موت کی سزا کا سامنا 56 برس تک کیا اور اب انہیں بے قصور قرار دے دیا گیا۔

سوکر پیسے کمانے کی منفرد ’سلیپ انٹرن شپ‘

جنوبی کوریا میں قتل کے 16 سال بعد خاتون کی لاش برآمد

شوہر کے نہ نہانے پر بیوی نے شادی کے 40 دن بعد ہی طلاق لے لی