نقطہ نظر

’کنٹینرستان‘ میں پی ٹی آئی کا جلسہ: کیا یہ کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ تھا؟

جلسہ شروع ہونے کے بعد پولیس نے اوقات کو اتنی ہی غور سے دیکھا جیسے لاہور کی انتظامیہ بڑے ہوٹلز میں شادیوں کی تقریبات کو دیکھتی ہے جہاں ہر صورت وقت مقررہ پر لائٹس بند ہوجاتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اتوار کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے میں کامیاب رہی۔ 9 مئی 2023ء کے بعد سے شروع ہونے والی ان کی نہ ختم ہونے والی مشکلات کو اب ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے اور پارٹی نے کسی مہم اور جلسے کے بغیر ہی انتخابات میں حصہ لیا لیکن اتوار کو اس نے خیبرپختونخوا کے باہر عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے حکومت بنانے کے بعد صوابی میں پاور شو کیا تھا لیکن چونکہ یہ صوبہ ہی ان کے ماتحت ہے، ایسے میں یہ کوئی بڑی خبر نہیں تھی۔

اس جلسے کا کافی طویل عرصے سے انتظار تھا۔ التوا، جلسے کی اجازت (ملنا نہ ملنا) اور ’کیا وہ کریں گے، نہیں کریں گے‘ جیسے اعصاب شکن لمحات کے ساتھ جلسے کے انعقاد کا ڈراما طول پکڑتا چلا گیا۔

پھر شہر سے دور تاریخ اور مقام کو حتمی شکل دینے کے بعد بھی انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات برقرار رہے۔ شہر کو ’کنٹینرستان‘ بنا دیا گیا اور آخری لمحات میں کی جانے والی قانون سازی نے مقامی انتظامیہ کو دارالحکومت کے تمام عوامی اجتماعات سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اختیارات دے دیے۔

جلسہ شروع ہونے کے بعد پولیس نے اوقات کو اتنی ہی غور سے دیکھا جیسے لاہور کی انتظامیہ بڑے ہوٹلز میں شادیوں کی تقریبات کو دیکھتی ہے جہاں ہر صورت وقت مقررہ پر لائٹس بند ہوجاتی ہیں۔

ساڑھے سات بجے کہ جب جلسہ ختم ہونے میں محض آدھا گھنٹہ باقی تھا، ٹی وی چینلز نے رپورٹ کیا کہ شرکا کے پتھراؤ کی وجہ سے پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں جس نے انہیں شیلنگ کا سہارا لینے پر مجبور کیا۔ میڈیا کوریج نے یہ تاثر دیا کہ جیسے ’پارٹی‘ وقت پر ختم نہ ہونے کی وجہ سے شرکا اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔

لیکن یہ بریکنگ نیوز جلد ہی پیش منظر میں چلی گئی جبکہ سوشل میڈیا پر جلسہ رات گئے تک جاری رہنے کی رپورٹنگ ہوتی رہی۔ فیک نیوز کے دور میں آج یہ بتانا مشکل ہے کہ حقیقتاً کیا ہورہا ہے۔ تاہم یہ جلسہ شاید اتنا اہم نہیں جتنا چند لوگ اسے سمجھ رہے ہیں۔ یہ اس ملک کے سیاسی ڈیڈلاک کی جانب ایک اور اشارہ ہوسکتا ہے۔ جو لوگ سوچتے ہیں کہ یہ کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے تو وہ وقت سے پہلے خوشی منا رہے ہیں یا قبل ازوقت پریشان ہورہے ہیں۔

اقتدار پر براجمان لوگوں کی مثال لے لیتے ہیں۔ حکومت واضح طور پر دباؤ میں تھی یا کوئی یہ دکھانا چاہتا تھا کہ حکومت پر دباؤ ہے۔ پورا دن پریس کانفرنسز، بیانات اور آوازیں اٹھتی رہیں۔ حتیٰ کہ ایک کابینہ کے وزیر کی ایک خصوصی ویڈیو بھی نیوز چینلز پر نشر کی گئی اور وہ اسی تواتر سے چلائی گئی جس طرح ’شیلنگ‘ کی فوٹیج گردش کر رہی تھی۔

اسی کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز پر عمران خان کے اسرائیل کے ساتھ روابط کی خبریں بھی بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی گئیں اور یہ خبر چلانے کے لیے انہوں نے وہی وقت کیوں چنا کہ جب جلسے کا مقررہ وقت ختم ہوچکا۔ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لیے غور و فکر کی ضرورت تھی۔

میڈیا کوریج بھی درست نہ تھی۔ بہ ظاہر دارالحکومت میں رکاوٹیں اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جلسے میں جانے کی تصاویر تو دکھائی گئیں لیکن پنڈال کے مناظر نہیں دکھائے گئے۔ کسی رہنما کی تقریر کو بھی ٹی وی چینلز پر نشر نہیں کیا گیا۔

محدود کوریج اور جلسے پر پابندیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پارٹی کو حاصل اسٹیلشمنٹ کی حمایت اب بھی محدود ہے۔ وہ انہیں مکمل طور پر نظرانداز یا مسترد نہیں کرسکتے۔ اس کے برعکس مقبولیت انہیں پی ٹی آئی کو قبول کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ یہ ہم نے خیبرپختونخوا کی حکومت میں بھی دیکھا اور جلسے میں بھی۔ اور ہر کچھ وقت بعد پی ٹی آئی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھوتے کرنا ہوں گے۔

یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکل راستہ ہے بالخصوص پنجاب میں کہ جہاں تحریک انصاف سے وابستہ افراد کی گرفتاریوں اور چھاپوں کی اطلاعات ہیں۔ ایسا خوف کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ نرمی کرنے سے ایسا ردعمل سامنے آسکتا ہے جو شاید پسند نہ آئے۔ تاہم پارٹی پر دباؤ برقرار رکھنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پی ٹی آئی کی ناراضی کم نہیں ہوگی۔ یہ ایک مسئلہ ہے جس کا کوئی حل ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔

خاص طور پر حالیہ دنوں اورسالوں میں پیش آنے والے علاقائی واقعات کے پیش نظر، یہ ایسا عنصر ہے جو شاید کسی کے لیے دباؤ کا باعث بنے۔

پی ٹی آئی کو خود بھی مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔ عمران خان کی جلد رہائی کے امکانات کم ہیں۔ جو قیادت جیل میں نہیں وہ اپنے سخت اور جارحانہ مؤقف کے ساتھ ساتھ معمول کی زندگی گزارنے کی اپنی خواہشات کو متوازی رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ اور پھر کارکنان اور ووٹرز کا دباؤ ہے جو نہ صرف اس ڈیڈلاک کا خاتمہ چاہتے ہیں بلکہ عمران خان کی رہائی کے بھی خواہاں ہیں۔

نچلی سطح سے معاملات کو سنبھالنا ہوگا حالانکہ کچھ رہنما شاید اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے اور موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ میں بیٹھنے پر رضامند ہوجائیں۔ اس کا کچھ اندازہ محمود خان اچکزئی کی تقریر سے بھی ہوا جنہوں نے پی ٹی آئی کی سرگرم سیاسی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

یہ امکانات کس حد تک ہیں کہ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان جلسے کی صورت میں سمجھوتہ طے پا گیا ہے؟ اور یہ کہ نینڈرتھل (انتہائی جارحانہ) قسم کی کچھ تقاریر بھی محض دکھاوے کے لیے تھیں؟ درحقیقت بیان بازی انتہائی سخت تھی جبکہ پارٹی اقدامات لینے کے معاملے میں نرم ہے۔

حکومت بھی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ معیشت تو ان مسائل کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس کے بارے میں لکھنے اور بولنے کے لیے کافی ماہرین موجود ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو عوامی حمایت کے حوالے سے کیا قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔

سیاسی ’قربانیاں‘ بھی دی جارہی ہیں۔ یہ تاثر کہ حکمران جماعت محض اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے اب ایک مفروضہ بن چکا ہے جس کی بنیاد پر اب تمام تجزیے کیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی، سویلین عہدوں پر فوجی افسران کی تقرری اور 9 مئی کے شور کو اب اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

نواز شریف سے منسوب حالیہ بیان سے واضح ہے کہ حکمران پارٹی بھی پریشان ہے جس نے ملک کو درپیش چیلنجز اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے تمام جماعتوں اور دیگر افراد کو ہاتھ ملانے کی بات کی تھی۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سینئر ارکان کے بیانات سامنے آئے جو نواز شریف کے قریبی ہونے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) خود اب عوام کے علاوہ کسی اور کی حمایت پر انحصار کررہی ہے، یہاں تک کہ پارٹی کا قائد بھی ثانوی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

اتوار کو ہونے والے جلسے نے ملک کو درپیش سیاسی تعطل کو واضح کردیا ہے۔ ہواؤں کی سمت میں ابھی کسی تبدیلی کو محسوس کرنا مشکل ہے۔ درحقیقت ابھی تو سب ساکت ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔