نقطہ نظر

’بھارت کے ہوتے ہوئے امریکا کو بیس بنانے کے لیے بنگلہ دیش کی ضرورت نہیں‘

یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ بنگلہ دیشی طلبہ کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں، جیسا کہ تاریخ دان ہاورڈ زن نے کہا 'یہ غلط فہمی ہے کہ بڑی تبدیلی کے وقت کوئی غیرجانبدار رہ سکتا ہے'۔

بحران کا شکار بنگلہ دیش کس جانب گامزن ہے؟ شاید اس حوالے سے 15 اگست کو ہمیں کوئی مثبت عندیہ مل جائے۔ 15 اگست کو بھارت کا یومِ آزادی ہے لیکن 1975ء میں یہی وہ دن تھا جب بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں قتل کردیا گیا تھا۔ شیخ حسینہ کی سربراہی میں عوامی لیگ کی حکومت نے اس دن کو قومی یومِ سوگ قرار دیا تھا۔

اب جب وہ اقتدار سے برطرف کردی گئی ہیں اور بھارت میں پناہ لیے ہوئی ہیں، ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ہمیشہ کی طرح قومی پرچم سرنگوں اور سیاہ پرچم لہرا کر بانی و سابق صدر کو یاد کیا جاتا ہے یا نہیں جوکہ برطرف وزیراعظم کے والد بھی ہیں۔

اس بدقسمت رات شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر میں موجود تمام اہل خانہ کو قتل کردیا گیا تھا لیکن شیخ حسینہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے زندہ بچ گئیں۔ اندرا گاندھی نے انہیں پناہ دی اور اپنی بنگالی ساتھی پرناب مکھرجی کو ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی۔ یہ سرد جنگ کے دور کی بات ہے کہ جب روس اور امریکا جیسی عالمی قوتیں تیسری دنیا کے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتی تھیں۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

ڈھاکا میں وزیراعظم کی برطرفی کے بعد ہم نے مظاہرین کی جانب سے شیخ مجیب کے مجسمے کو گرانے کے مناظر دیکھے جس نے عراق میں صدام حسین کے مجسمے کی یاد دلائی جو امریکی فوج کی نگرانی میں گرایا گیا تھا۔ اب عبوری حکومت کے لیے یہ امتحان ہوگا کہ وہ ایسے دن کو کس انداز میں یاد کرتے ہیں کہ جب ان کے بانی کو ان کی مخالفت کرنے والی انہی کی عوام نے قتل کردیا تھا۔

کیا عبوری حکومت کے لیے شیخ مجیب الرحمٰن کی عظیم میراث کو کمزور کرنا آسان ہوگا؟ ’طلبہ‘ کی جانب سے تجویز کردہ اور بنگلہ دیش کی فوج کی جانب سے مقرر، اس عبوری حکومت کی سربراہی نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات کررہے ہیں جنہیں نوبیل اعزاز ہی شیخ مجیب کے قتل کے ایک سال بعد 1976ء میں گاؤں میں بینک کی بنیاد رکھنے کی وجہ سے ملا۔

کہا جاتا ہے کہ یہ گرامین بینک لاکھوں خواتین کی مدد کرتا ہے جبکہ یہ انتہائی غریب طبقے کے لوگوں کو غربت کی لکیر سے باہر آنے کے لیے قرضے بھی فراہم کرتا ہے۔ بینک کے ناقدین کے نزدیک یہ حیران کُن ہے کہ اس کا شمار فورڈ فاؤنڈیشن کے ساتھ ہوتا ہے جوکہ ایک دلچسپ پیش رفت تھی۔

شیخ حسینہ کی برطرفی کے پیچھے ’بیرونی عناصر‘ کے ملوث ہونے کی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں حالانکہ وہ خود بھی اسی کی مثال تھیں۔ کچھ حلقے سوال کررہے ہیں کہ کیا اپنی غیرمقبولیت اور عوام کو سمجھنے میں ناکامی کے لیے بیرونی سازشوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں کہ انہوں نے عوام کو مظاہروں پر اکسایا؟

وزیراعظم رہتے ہوئے بھی متعدد مواقع پر وہ یہ تذکرہ کرچکی ہیں کہ ’سفید فام‘ شخص نے ان سے ملاقات کی اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے سینٹ مارٹن میں دلچسپی ظاہر کی۔ سینٹ مارٹن خیلج بنگال میں کاکس بازار شہر کے قریب ایک جزیرہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر وہ امریکا کی یہ خواہش پوری کردیتیں تو ڈھاکا میں ان کی حکمرانی جاری رہتی۔

ان کی کہانی کے مطابق امریکا سینٹ مارٹن سے 8 کلومیٹر دور بیس بنانا چاہتا ہے جوکہ شمال میں چین پر نگرانی رکھنے کے لیے اہم ثابت ہوتی۔ اس خیال کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھتے ہیں کہ امریکا کو آخر اپنی بیس بنانے کے لیے سینٹ مارٹن جزیرے کی کیوں ضرورت ہوگی کہ جب اس کے پاس بھارتی زمینیں ہیں کہ جسے وہ چین پر نگرانی کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ بھارتی بحریہ بھی ان کے لیے پیٹرولنگ کرسکتی ہے؟

ہاں ایسا اس صورت میں ضرور ہوسکتا ہے کہ بھارت اب امریکا کا ویسا قابلِ اعتماد اتحادی نہ رہا ہو جس کی امریکا کو ضرورت ہے؟

اس دعوے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کیا بھارت کے اتنے قریب امریکی بیس کا قیام، بھارت کے ماسکو میں بیٹھے قریبی دوستوں کے لیے خوش آئند ہوگا؟ تاہم یہ تو اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کے وزیرخارجہ تھے جنہوں نے امریکا کو افغانستان میں جنگ کے لیے ان کی بیس استعمال کرنے کی پیش کش کی تھی۔ تاہم اس معاملے میں پاکستان بھارت پر بازی لے گیا تھا۔

دوسری جانب یہ بھی عام نہیں کہ جو عناصر کسی ملک کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں، وہی ملک میں اقتدار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی پاکستان قیامِ پاکستان کی مخالف تھی اور بانیانِ پاکستان کی دشمن بن گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایسے ملک میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر موقع ملنے پر اقتدار ہاتھ میں لینے سے نہیں ہچکچائی جس کے قیام سے ہی منحرف تھی۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے جو پاکستان کی جماعت اسلامی کی ہی ایک شاخ ہے۔ اس نے بنگلہ دیش کی آزادی کے خلاف جدوجہد کی لیکن اس کے باوجود وہ موقع ملنے پر عوامی لیگ حکومت کا حصہ بنی اور پھر عوامی لیگ کی حریف خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی اتحادی بن گئی۔

اور اب دیکھیں کہ بھارت پر حکومت کون کررہا ہے؟ بھارت کی حکمران جماعت بھی تقسیم اور آزادی تحریک کی مخالفت کرتی تھی۔ سردار پٹیل کے مطابق جس طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے مہاتما گاندھی کے قتل پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل پر جماعت اسلامی مسرور تھی۔

تو یہ طلبہ کون ہیں جن کے سر شیخ حسینہ کی حکومت گرانے کا سہرا سجایا جارہا ہے؟ کیا ان کا کوئی مخصوص نظریہ ہے؟ یہ تسلیم کرنا تھوڑا مشکل ہے کہ طلبہ نے یہ سب محض انسانی حقوق کی بنیاد پر کیا۔ جیسا کہ تاریخ دان ہاورڈ زن نے کہا، یہ غلط فہمی ہے کہ کوئی چلتی ٹرین (یعنی بڑی تبدیلی کے درمیان) میں غیرجانبدار رہ سکتا ہے۔

اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد، آر ایس ایس کی طلبہ یونین ہے جبکہ بھارت کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی کی طلبہ یونین اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا ہے۔ یہ دونوں اسٹوڈنٹ ونگز ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن ان دونوں نے 1977ء میں اندرا گاندھی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہاتھ ملا لیے تھے۔ کمیونسٹ جماعت کے خلاف آواز اٹھانے پر آر ایس ایس کو امریکی سرپرستی بھی حاصل تھی جس کا فائدہ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی کو ہوا۔

لیکن 1991ء میں بہت کچھ بدل گیا۔ سرد جنگ ختم ہوچکی تھی اور راجیو گاندھی کو قتل کردیا گیا۔ کسی نے نرسمہا راؤ وزیراعظم بنادیا۔ وہ تو سیاست چھوڑنے کا منصوبہ رکھتے تھے جبکہ وہ کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے رکن بھی نہیں تھے۔ انہوں نے من موہن سنگھ کو وزیرخزانہ بنایا جوکہ بنگلہ دیشی رہنما محمد یونس کی طرح ماہرِ معاشیات تھے۔

انہوں نے بطور وزیرخزانہ مغرب کی جانب سے خوب پذیرائی سمیٹی۔ جب وہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی بھی میزبانی کی جن کی نہ صرف دنیا بلکہ اپنے ملک میں بھی ساکھ متنازعہ تھی، من موہن سنگھ نے ان سے کہا کہ بھارتی عوام انہیں پسند کرتے ہیں۔

محمد یونس شاید من موہن سنگھ کی طرح ہوں لیکن بنگلہ دیش بھارت نہیں، وہ اس سے بہت مختلف ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔