نقطہ نظر

پاک-بھارت تعلقات: کیا مودی پاکستان میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے؟

اکتوبر میں پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہونے والا کثیرالملکی سربراہی اجلاس، پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری لا پائے گا؟

موجودہ حالات میں یہ امکانات انتہائی کم ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہتری آئے گی۔ اکتوبر میں پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہونے والا کثیرالملکی سربراہی اجلاس، پاکستان اور بھارت کے درمیان برف پگھلا سکے گا یا نہیں؟ موجودہ سفارتی تعلقات کے پیش نظر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ دونوں ممالک ہی انہیں بہتر بنانے میں پہل نہیں کررہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے عارضی سربراہ کی حیثیت سے پاکستان تین ماہ کے عرصے میں سربراہانِ مملکت کا اجلاس منعقد کرنے کا پابند ہے۔ 7 رکنی علاقائی ممبران میں چونکہ بھارت بھی شامل ہے، اس لیے اسے بھی مدعو کیا گیا ہے۔ تاہم وزیراعظم نریندر مودی اس اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں، اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن بہ ظاہر ان کی شرکت کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ حال ہی میں دونوں ممالک کے مابین ایسی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ دونوں فریق دو طرفہ تعلقات کو دوبارہ موقع دینے پر غور کررہے ہوں بلکہ دونوں مخالفت میں آگے بڑھتے جارہے ہیں۔

کھیل کی سرگرمیاں ہمیشہ سے یہ اندازہ لگانے کے لیے پیمانے کا کام کرتی ہیں کہ سفارتی تعلقات میں تناؤ کس حد تک ہے۔ لیکن پاک-بھارت کے معاملے میں تو یہ بھی ممکن نہیں۔ اگرچہ اس سے قبل دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کرکٹ نے اہم کردار ادا کیا لیکن اب حالات بہت مختلف ہیں۔

فروری اور مارچ 2025ء میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پاکستان کرے گا۔ بھارتی میڈیا تو ابھی سے ہی سرکاری ذرائع کے حوالے دے کر بتارہا ہے کہ دونوں ہمسایوں کے ’کشیدہ تعلقات‘ کے پیش نظر بھارتی کرکٹ ٹیم آئی سی سی ایونٹ میں شرکت کے لیے پاکستان نہیں آئے گی۔ اس کے بجائے بھارتی کرکٹ بورڈ کوشاں ہے کہ بھارت کے میچز دبئی یا سری لنکا میں کھیلے جائیں۔ گزشتہ چند سالوں سے مودی حکومت بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں کھیلنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔

اگرچہ 2023ء کے اواخر میں پاک-بھارت کی ٹیمیں مختلف بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں آمنے سامنے آچکی ہیں لیکن بھارت کی ٹیم ایشیا کپ میں شرکت کرنے پاکستان نہیں آئی تھی جوکہ ستمبر 2023ء میں پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہوا تھا۔

سب سے اہم بات یہ کہ بھارتی انتخابات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے تبادلے حوصلہ افزا نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے پر مودی کو مبارکباد کا پیغام دیا تو انہوں نے جواب میں سیکورٹی پر توجہ دی جس میں بھارتی شہریوں کی ’سلامتی اور حفاظت‘ کے حوالے سے مودی حکومت کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے دیا جانے والے پیغام خیرسگالی کا تھا لیکن اس کے جواب میں بھی سیکیورٹی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں علاقائی مملکت کے سربراہان کو مدعو کیا گیا لیکن اس فہرست میں پاکستان کا نام شامل نہیں تھا۔ 2014ء میں نریندر مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تب نواز شریف نے ان کی تقریبِ حلف برادری میں شرکت کی تھی۔

گزشتہ ہفتے نریندر مودی کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات نے ان کی سوچ کو کافی حد تک واضح کیا۔ کارگل تنازع کی یاد میں تقریر کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا، ’پاکستان نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ دہشت گردی اور پراکسی وار کے ذریعے متعلقہ رہنے کی کوششیں کررہا ہے‘۔ انہوں نے پاکستان کو ’دہشت گردی کا آقا‘ قرار دیا۔

اس سے قبل بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل پرانی روش پر چل کر پاکستان مخالف بیان بازی کی۔ اسلام آباد کے ساتھ مستقبل کے روابط کے حوالے سے انہوں نے کہا، ’ہم چاہیں گے کہ سرحد پار سے دہشت گردی کے برسوں پرانے مسئلے کا حل تلاش کریں‘۔

جون میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورہِ چین کے بعد مقبوضہ کشمیر پر دونوں ممالک کی وزارت خارجہ کے مابین لفظی گولہ باری ہوئی۔ 8 جون کو جاری کیے جانے والے پاک-چین مشترکہ بیان میں جنوبی ایشیا میں تمام تصفیہ طلب تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت کا حوالہ دیا گیا تھا اور اعادہ کیا گیا کہ ’جموں اور کشمیر کے تنازع کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدے کے تحت پُرامن انداز میں حل کیا جانا چاہیے‘۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تنقید کرتے ہوئے اس بیان کو ’غیرضروری‘ قرار دیا اور کہا کہ ’جموں و کشمیر اور لداخ کا مرکزی علاقہ، ہمیشہ سے بھارت کے ناقابل تنسیخ حصے تھے، ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے‘۔ اسلام آباد نے بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر متنازع علاقہ ہے اور اس پر بھارتی دعوے ’بے بنیاد‘ ہیں۔

گمان ہوتا ہے کہ مودی کی حکومت کی ترجیح یہی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سرد مہری کو یوں ہی برقرار رکھے۔ بھارت، پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی میں کسی قسم کی دلچسپی ظاہر نہیں کررہا۔ ان کے مطابق اس سے پاکستان کو نقصان پہنچے گا، بھارت کو نہیں۔ انتخابی مہم کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے بارہا پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس نے پاکستان دشمنی کی عکاسی کی۔

خود نریندر مودی کے بیانات اشتعال انگیز تھے۔ ایک موقع پر تو انہوں نے سرحد پار دہشت گردی کے خلاف اپنے سخت اقدامات کا موازنہ ماضی کی بھارتی قیادت کے کمزور اقدامات سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’دہشت گردوں کو گھروں میں گھس کر مارتے رہیں گے‘۔ اس موقع پر حوالہ دیا کہ پلوامہ دہشت گرد حملے کے بعد فروری 2019ء میں بالاکوٹ پر حملے کا حکم انہوں نے ہی دیا تھا۔ بالاکوٹ حملے کے بعد سے ایٹمی ہمسایوں کے درمیان کشیدگی خطرناک حد تک شدت اختیار کرگئی تھی۔

حالیہ ہفتوں میں بھارتی میڈیا اس امکان پر متوجہ ہے کہ جموں اور کشمیر میں ’بیرونی قوتوں‘ اور جموں میں بھارتی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے پیچھے پاکستان ملوث ہے۔ اخبارات نے نام نہاد ’شیڈو عسکریت پسند تنظیموں‘ کو پاکستان کے عسکریت پسند گروپس سے منسلک کیا جوکہ پراکسی وار کررہی ہیں اور ان کا مرکزی ہدف جموں ہے۔

بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق 2005ء کے بعد سے جموں میں ’سب سے زیادہ عسکریت پسندوں موجود ہیں‘۔ بھارتی حکومت اندرونی سیکیورٹی معاملات کو سنبھالنے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہی ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہے۔ اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاک-بھارت مذاکرات کی بحالی کے امکانات اور زیادہ معدوم ہوجاتے ہیں۔

بھارت کا مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرنے سے صاف انکار پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہاں تک کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات بحال بھی ہوجاتے ہیں تب بھی پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر کو ایجنڈے سے حذف کرکے مذاکرات کرنا ناممکن ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر کشمیر پر بات نہیں ہوگی تو یہ مذاکرات کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

پاکستان کا سخت مؤقف نہیں بلکہ یہ قانون، اصول اور حقیقت کا تقاضا ہے۔ جہاں تک دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی بحالی کا معاملہ ہے، اس میں بھی دونوں ممالک کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت دونوں میں ایسے حلقے موجود ہیں جو دوطرفہ تجارت کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں لیکن دہلی نے اقتصادی روابط بحال کرنے کے حوالے سے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

پلوامہ حملے کے بعد سے بھارت نے پاکستانی اشیا کی درآمدات پر ٹیرف میں 200 فیصد کا اضافہ کیا تھا۔ 5 اگست 2019ء میں کشمیر کے غیرقانونی الحاق کے بعد سے پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت کو باضابطہ طور پر معطل کردیا تھا اور یہ تعطل ان بھی برقرار ہے۔ اس کے بعد سے پاک-بھارت تعلقات جمود کی حالت میں ہیں۔

تازہ ترین پیش رفت کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان حائل برف کی دیوار پگھلنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ملیحہ لودھی

لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔