بنوں واقعہ: ’عوام اور ریاست کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے‘
گزشتہ ہفتے ٹی وی چینلز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قسمت کے حوالے سے کئی پیش گوئیاں کی جاچکی ہیں۔ اس معاملے میں بہت تنقید ہوئی اور پیش گوئیاں بھی ہوئیں بالخصوص عمران خان کے بارے میں کہ انہیں قبول نہیں کیا جائے گا (ایسا دیکھ چکے)، ان کی پارٹی کو مخصوص نشستیں نہیں دی جائیں گی (یہ بھی ہوچکا) اور پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی جائے گی (یہاں تک بات بھی آگئی)۔
ٹی وی پر تو بار بار ان پیش گوئیوں کی بازگشت ہورہی ہے لیکن پی ٹی آئی کا اصل چیلنج تو الگ ہے۔ اس چیلنج کو سمجھنے کے لیے ہمیں خیبرپختونخوا کی صورت حال کو دیکھنا ہوگا۔ اس صوبے میں پی ٹی آئی کو مثالی مقبولیت حاصل ہے۔ لیکن اب اسے کارکنان کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے جو مضطرب ہیں۔ تمام تر ریاستی پابندیوں کے باوجود پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی عوام کی حمایت اور انتخابات میں کامیابی سمیٹنے میں کامیاب رہی ہے۔
لیکن حکومت بننے کے بعد وہ صوبے میں کوئی قابلِ ذکر کارکردگی نہیں دکھا پائی ہے۔ پنجاب میں اب بھی جاری کارکنان کا اغوا اور گمشدگیاں جاری ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں صرف ایک مقدمہ درج ہوا بھی شامل ہیں۔ عمران خان کی قید اور خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ان عہدیداروں کا احتساب کرنے میں ناکام رہی کہ جنہوں نے پی ٹی آئی کو انتخابات سے قبل مشکلات سے دوچار کیا تھا، ان تمام حوالوں سے پارٹی کی صفوں میں چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔ (جس دن غیرشرعی نکاح کیس کا فیصلہ سنایا گیا اس دن پارٹی کارکنان نے عمر ایوب پر تقریباً حملہ ہی کردیا تھا کہ اس فیصلے کے بعد بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ رہا کیوں نہیں ہوئے۔)
یہ بارہا کہا جاچکا ہے کہ عمران خان اپنے وزیراعلیٰ سے خوش نہیں ہیں کیونکہ وہ 9 مئی کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ افواہیں ہیں کہ کیسے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے انتخاب جیتا اور کیسے وہ اعلیٰ صوبائی عہدے پر براجمان ہوئے لیکن یہ صرف اس لیے نہیں ہوا کیونکہ انہیں عمران خان نے چنا تھا بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی انتخاب تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی جانب سے عوام کے مفادات پورے نہ کیے جانے سے نہ صرف حکومت کے اختیارات پر اثرانداز ہوں گے بلکہ وزیراعلیٰ جماعت میں اپنی مقبولیت بھی کھو سکتے ہیں۔ اس سے پی ٹی آئی کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ کسی حد تک اس کا مظاہرہ ہم نے بنوں واقعے کے دوران دیکھا۔
مظاہرے نے پُرتشدد صورت اختیار کرنے کے بعد جب ختم ہوگئے تب صوبائی حکومت کا ابتدائی ردعمل مبہم تھا لیکن ایسا نہیں تھا کہ اس پر تنقید کی جاتی۔ سب سے پہلے بیرسٹر سیف وزیراعلیٰ کی مدد کو آئے اور واقعے کی تحقیقات کے لیے پہلے کمیٹی اور پھر کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا۔
اس کے بعد صوبائی محکمہ داخلہ سے دو صفحات پر مشتمل بیان بھی جاری ہوا کہ جس میں بہ ظاہر 19 جولائی کے پورے واقعے کی تمام تفصیلات موجود تھیں۔ اب ایک پریس ریلیز سے تو یہ واضح نہیں کہ یہ حقائق کمیٹی یا کمیشن کی جانب سے سامنے آئیں البتہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ باضابطہ تحقیقات ہوں گی۔
پریس ریلیز کے مطابق 19 جولائی کو چند ’شرپسندوں‘ نے پتھراؤ کیا اور ’املاک کو نذرآتش کیا‘ اور ’چھوٹے ہتھیاروں سے فائر کیا‘ جس کی وجہ سے ’پولیس نے انہیں حساس علاقے سے نکالنے کی کوشش کی‘۔ پھر ہمیں بتایا گیا ’اس ہنگامے کے دوران افسوس کے ساتھ ایک شخص جاں بحق ہوگیا ہے‘۔
لیکن یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اسی دن، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے رات گئے اپنا ویڈیو بیان جاری کیا جوکہ اتنا ہی واضح ہے کہ جتنا 13 جنوری کو پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دیا جانے والا فیصلہ تھا۔ اب اس جملے کا مفہوم آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ کس طرح انہوں نے پولیس سے کہا کہ سرکاری ادارے سے وابستہ مسلح افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں، پولیس اور عام لوگوں کو ان ’عناصر‘ یا مسلح افراد کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جرگہ (وہ لوگ جو بنوں میں احتجاج کررہے تھے) نے پیر کو وزیراعلیٰ سے ملاقات کرکے اپنے مطالبات سامنے رکھے۔ مطالبات کی فہرست طویل ہے تو میں چند کا ذکر کرتی ہوں۔ سب سے پہلے جرگے نے آپریشن عزم استحکام کو مسترد کیا، دوسرے مطالبے میں ’اچھے اور بُرے طالبان‘ کے تصور کا خاتمہ جبکہ تیسرا مطالبہ رات کو پولیس کو گشت کی اجازت دینا ہے۔
یہ ویڈیو بیان گویا ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے تھا کہ جن کا اب بھی خیال ہے کہ اچھے اور برے طالبان ہوتے ہیں حالانکہ بہت کم لوگوں کو ہی یقین ہے کہ پولیس وزیراعلیٰ کے احکامات پر عمل درآمد کروا سکے گی۔
لیکن میں موضوع سے بھٹک گئی۔ میں یہاں اصل نقطہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت کو خیبرپختونخوا میں جو مسئلہ درپیش ہے وہ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اور مرکز میں بھی درپیش ہے۔ اقتدار میں رہنے کے لیے طاقتور اداروں کو ناراض نہیں کرتے۔ کم اختیارات کے ساتھ اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں اور لوگوں کے درمیان خلا پیدا ہوتا ہے۔ عوام اور ریاست کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے گہرے اثر و رسوخ میں سیاسی جماعتوں کو حکومت یا فیصلے کرنے کے بہت کم اختیار حاصل ہیں۔ ایسے میں جو اقتدار میں براجمان ہیں، ان پر اکثر تنقید کی جاتی ہے اور ان پر کٹھ پتلیاں ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ یہ وفاق میں شہباز شریف اور صوبے میں علی امین گنڈاپور کی صورت میں سچ بھی ثابت ہوا۔
اسے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے پی ٹی آئی کے فیصلے سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ پارٹی خود بھی معترف ہے کہ ایسا کرنا ان کی غلطی تھی لیکن یہ قابلِ ذکر ہے کہ ان کی قیادت کئی بار کہہ چکی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کیے جانے سے قبل ان کے پاس انتہائی محدود اختیارات تھے۔
لیکن اگر ایسا نہیں تھا تو امکان ہے کہ وہ ووٹرز کے سامنے اپنی ساکھ کھو دیں جو اقتدار میں مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اپنی عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے جس کی وجہ سے وہ پارٹی سے ناراض ہوتے ہیں۔ 8 فروری کو پی ٹی آئی کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت اقتدار میں نہیں تھی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارٹی ایک بار پھر استعفیٰ دے کر گھر چلی جائے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ عدم اعتماد کے اس مسئلے پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی آزادی دینا ہوگا اور عوام کے خدشات اور تحفظات دور کرنے کے لیے اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔
بصورت دیگر تمام سیاسی جماعتیں یا تو غیرمتعلقہ ہوجائیں گی یا ریاست مخالف ہونے پر مجبور ہوجائیں۔ دونوں ہی راستے مزید سیاسی عدم استحکام اور تشدد کی جانب لے جاتے ہیں۔ اب کونسا راستہ چننا ہے یہ فیصلہ سیاسی جماعتیں اور بہ حیثیت مجموعی حکومت کو کرنا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔