نقطہ نظر

دی کلائمیٹ بُک: موسمیاتی بحران کا حل اُسے سمجھے بغیر ناممکن

اگر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری دنیا تباہ ہوجاتی ہے تو کوئی بھی قریبی سیارہ ہماری مدد کے لیے نہیں آئے گا، اس معاملے میں ہم بالکل تنہا ہیں۔

نوٹ: عالمی موسمیاتی رہنما گریٹا تھیونبرگ کی قیادت میں تالیف کی گئی کتاب ’دی کلائمیٹ بُک‘ جس میں دنیا کے معروف لکھاریوں کے موسمیاتی تبدیلی پر 100 مضامین شامل ہیں، جن کا اردو ترجمہ سلسلہ وار ڈان نیوز ڈیجیٹل پر شائع کیا جائے گا جو معروف ماحولیاتی مصنف اور مترجم مجتبیٰ بیگ کیا کریں گے۔


موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران انسانیت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسئلہ ہماری آئندہ روزمرہ زندگی کا تعین اور اسے تشکیل دے گا۔ ایسا اب تک ایسا کسی اور مسئلے نے نہیں کیا ہوگا اور یہ بات تکلیف دہ حد تک سچ ہے۔

’دی کلائمیٹ بک‘ میں دنیا بھر کے موسمیاتی ماہرین اور کارکنان نے کچھ ایسے ہی احساسات کا اظہار کرتے ہوئے 100 مضامین لکھ کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور اس سے نمٹنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی ہے۔

گریٹا تھیونبرگ پہلے باب کے ابتدائی کلمات میں کیا کہتی ہیں، یہ ہم آپ کو انہی کی زبانی بتائیں گے۔

گزشتہ چند سالوں میں موسمیاتی بحران کو دیکھنے اور اس کے بارے میں بات کرنے کا ہمارا طریقہ بدلنا شروع ہوا ہے۔ ہم نے شدت اختیار کرتے ہنگامی حالات ٹھیک کرنے کے بجائے انہیں نظر انداز کرنے میں کئی دہائیاں ضائع کردی ہیں، اس لیے ہمارے معاشرے اب بھی موسمیاتی تبدیلی کو تسلیم کرنے کے حوالے سے انکار کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ بہرحال یہ مواصلات کا دور ہے جہاں آپ کا فعل آپ کے قول کی سچائی بتا دیتا ہے۔

بالکل اسی طرح ہم نے زیادہ تیل پیدا کرنے والے اور کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والے بہت سے ممالک کو خود کو موسمیاتی رہنما کہتے بھی دیکھا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود آب و ہوا کے حوالے سے کوئی بھی قابلِ اعتبار پالیسیاں موجود نہیں ہیں۔ یہ ماحولیاتی ڈھونگ نہیں تو اور کیا ہے؟

زندگی میں کوئی مسئلہ بیک وقت سیاہ و سفید نہیں ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ہر چیز لامتناہی بحث اور سمجھوتے کا موضوع ہے۔ یہ ہمارے موجودہ معاشرے کے مرکزی اصولوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جسے پائیداری کے معاملے پر زیادہ جواب دہ ہونا ہوگا۔

مسئلہ جانچنے کا ہمارا بنیادی اصول ہی غلط ہے۔ کچھ مسائل سیاہ اور کچھ سفید ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے لیے سیاروی اور سماجی حدود موجود ہیں جن کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیے۔

مثال کے طور پر ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے معاشرے محدود حد تک پائیدار ہوسکتے ہیں۔ لیکن طویل مدتی طور پر کافی حد تک پائیداری درکار ہوتی ہے۔ یا تو آپ پائیدار ہیں یا آپ نہیں۔ یہ برف کی پتلی تہہ پر چلنے کی طرح ہے کہ جو یا تو آپ کا وزن اٹھائے گی یا ٹوٹ جائے گی۔ آپ کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے یا پھر گہرے، تاریک، سرد پانی میں ڈوب جائیں گے اور اگر ہماری دنیا کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کوئی بھی قریبی سیارہ ہماری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ اس معاملے میں ہم بالکل تنہا ہیں۔

اُبھرتے ہوئے وجودی بحران کے بدترین نتائج سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کا ایک ایسا تنقیدی گروہ بنایا جائے کہ جو مطلوبہ تبدیلیوں کا مطالبہ کرے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں تیزی سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب بھی عام لوگوں میں اس خوفناک صورت حال کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ضروری بنیادی علم کی کمی ہے۔ ہمیں تبدیلی لانے کی کوششوں کا حصہ بننا چاہیے۔

میں نے اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرکے موسمیاتی بحران کے حوالے سے دستیاب بہترین سائنسی معلومات پر مبنی ایک کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک کتاب جو آب و ہوا، ماحولیات اور پائیداری کے بحران کا مکمل طور پر احاطہ کرتی ہو۔ کیونکہ آب و ہوا کا بحران ایک بہت بڑے پائیداری کے بحران کی علامت ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب مختلف مگر آپس میں جڑے ہوئے موسمیاتی بحرانوں کو سمجھنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کا حوالہ ضرور بنے گی۔

اپنی انفرادی مہارت کے ساتھ اس کام میں اپناحصہ ڈالنے کے لیے میں نے 2021ء میں متعدد موسمیاتی اور دیگر ماہرین کویہ کتاب لکھنے کی دعوت دی اور اب ان کی محنت کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ معلومات، کہانیوں، گرافس اور تصاویر کا مکمل مجموعہ جو معشیت اور ماحول کی کئی مختلف اشکال کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا موضوع خصوصی طور پر آب و ہوا اور ماحولیات پر مرکوز ہے۔

اس کتاب میں ہر چیز شامل ہے جیسے کہ پگھلتے ہوئے برف کی پرتوں سے لے کر معاشیات، تیز رفتار فیشن سے لے کر حیاتی تنوع کا نقصان، وبائی بیماریوں سے لے کر غائب ہونے والے جزائر، جنگلات کی کٹائی سے لے کر زرخیز مٹی کے ضیاع تک، پانی کی کمی سے لے کر مقامی افراد کی خودمختاری تک، مستقبل کی خوراک کی پیداوار سے لے کر کاربن بجٹ تک لکھے گئے اس کتاب کے مضامین، ان کارروائیوں کو بے نقاب کرتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کی ذمہ دار ہیں اور جو ان لوگوں کی ناکامی ظاہر کرتے ہیں جنہیں دنیا کے باسیوں کے ساتھ ان معلومات کو پہلے ہی شیئر کردینا چاہیے تھا۔

ہمارے پاس اب بھی براہِ راست نتائج سے بچنے کا وقت ہے۔ امید تو اب بھی ہے لیکن اگر ہم اسی طرح رہے تو امید معدوم ہوجائے گی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں پہلے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ خود باہم جڑے ہوئے بہت سے مسائل کا ایک سلسلہ ہے۔ ہمیں حقائق پیش کرنا ہوں گے اور اسے ایک واقعہ کی طرح بیان کرنا ہوگا۔

ہمیں بھی کچھ بنیادی سوالات کا جواب دینے کی ضرورت ہے جیسے کہ ہم پہلے پہل کیا حل کرنا چاہتے ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟ کیا ہمیں کاربن کا اخراج کم کرنا ہے یا ہم ایسی ہی زندگی گزارنا چاہتے ہیں جیسی ہم جی رہے ہیں؟ کیا ہمارا مقصد موجودہ اور مستقبل میں رہائش کے حالات کو محفوظ بنانا ہے یا یہ ہے کہ ہم محض ایک صارفیت بھری زندگی گزاردیں؟ کیا ماحول پروری ممکن ہے؟ اور کیا ہم ایک محدود سیارے پر لامحدود اقتصادی ترقی کرسکتے ہیں؟

ہم میں سے بہت سے لوگ اس وقت امید کی ضرورت محسوس کررہے ہیں لیکن امید آخر کیا ہے اور کس کے لیے ہے؟ جن لوگوں نے مسئلہ پیدا کیا ہے امید اُن کے حوالے سے ہے یا پھر ان کے لیے جو پہلے ہی اس کے اثرات کا شکار ہیں؟ اور کیا یہ امید ان اقدامات لینے کی راہ حائل ہوسکتی ہے کہ جن سے زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوسکتا ہے؟

دنیا کی ایک فیصد امیر ترین آبادی جتنا کاربن فضا میں خارج کرنے کے ذمہ دار ہے اتنا اخراج تو مجموعی طور پر دنیا کی نصف غریب آبادی کرتی ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی ریاستہائے متحدہ امریکا کی اس ایک کروڑ 90 لاکھ آبادی میں سے ایک شہری ہے یا چین کے 40 لاکھ شہریوں میں سے ہے جو مذکورہ ایک فیصد میں شامل ہیں جن کے پاس ایک کروڑ 55 لاکھ 337 ڈالرز یا اس سے زیادہ کی دولت ہے تو شاید امید وہ چیز نہیں ہے جس کی آپ کو سب سے زیادہ ضرورت ہو۔

ہاں ہم سنتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے حوالے سے کچھ پیش رفت ہو رہی ہیں۔ کچھ ممالک اور علاقے کاربن کے اخراج میں حیرت انگیز کمی کی خبر دے رہے ہیں۔ کم از کم ان سالوں میں جب دنیا نے پہلی بار اُن فریم ورکس میں یہ بات چیت شروع کی کہ ہمیں اعداد و شمار کیسے منظم کرنے ہیں، اس میں مثبت پیش رفت دیکھی گئی۔

مختلف علاقوں کے محتاط اعداد وشمار کے بجائے جب ہم کاربن کے مجموعی اخراج شامل کرتے ہیں تو اُن میں کمی ایک جگہ کیوں رک جاتی ہے یا دوسرے الفاظ میں ایسے اخراج جو مذکورہ اعداد و شمار میں ظاہر نہیں کیے جاتے ہیں۔ مثلاً دور دراز ممالک میں کارخانوں کو آوٹ سورس کرنا اور بین الاقوامی ہوائی جہازوں کے اخراج کو ہمارے اعداد و شمار سے باہر کرنا یعنی ہم نے نہ صرف اپنی مصنوعات سستی مزدوری اور لوگوں کا استحصال کرکے تیار کی ہیں بلکہ اخراج کو بھی ظاہر نہیں کیا ہے۔ وہ کاربن کا اخراج جو مصنوعات سازی سے ہوا ہے، کیا اسی کا نام ترقی ہے؟

اگر ہم کہیں کہ نظام میں کوئی بڑی تبدیلی لائے بغیر جرمنی، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے اور دیگر ممالک دو دہائیوں میں اپنے کاربن کے اخراج میں اتنی زیادہ کمی نہیں کر سکیں گے تو ایسا سوچنا ہماری سادہ لوحی ہوگی اور یہی وہ بات ہے جو ترقی یافتہ دنیا کے رہنماؤں نے کہی ہے۔ اس کتاب میں ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ اس حوالے سے پیش رفت کیسے ہورہی ہے۔

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اب موسمیاتی تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو ان کا شمار جدوجہد کرنے والوں کی آخری صفوں میں ہوگا لیکن یہ بہت دور کی بات ہے۔ حقیقت میں تو اگر آپ اب کارروائی کرتے ہیں تو آپ اب بھی ابتدائی جدوجہد کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اس کتاب کے آخری حصے میں ہم حقیقی تبدیلی لانے کے لیے چھوٹے انفرادی اقدامات سے لے کر سیارے کے نظام کی تبدیلی تک، مسائل کے کچھ حل اور کامیابی کے راستوں پر توجہ دیں گے۔

یہ کتاب جمہوری طرز پر لکھی گئی ہے کیونکہ موسمیاتی بحران سے نکلنے کے لیے جمہوریت ہمارا بہترین سہارا ہے۔ لکھاریوں کے درمیان معمولی اختلافات ہوسکتے ہیں۔ ہر شخص نے اس کتاب میں اپنے نقطہ نظر سے بات کی ہے اور وہ مختلف نتائج پر پہنچ سکتے ہیں۔ اگر ہم تبدیلی لانے کے لیے ضروری عوامی دباؤ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان ماہرین کی مجموعی دانش کی ضرورت ہے۔

اس کتاب کا تصور یہ ہے کہ ایک یا دو مواصلات کے ماہرین یا انفرادی سائنسدانوں سے آپ کے لیے تمام نتائج اخذ کروانے کی بجائے ان کے شعبہ مہارت میں ان کی مجموعی دانش آپ کو ایک نقطے تک لے جائے گی جہاں سے آپ خود بھی سارے معاملے کو باہم جوڑنے کا آغاز کر سکیں۔

کم از کم یہی امید ہے کیونکہ میرا خیال ہے کہ موسمیاتی بحران حل کرنے کے حوالے سے سب سے اہم نتائج ابھی تک نکالے نہیں گئے ہیں اور امید ہے کہ وہ قارئین کے ذریعے نکالے جائیں گے۔

مجتبیٰ بیگ

لکھاری معروف ماحولیاتی مصنف اور مترجم ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔