نقطہ نظر

اداریہ: پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ کس حد تک درست؟

پی ٹی آئی کو لگام ڈالنے کے جنون میں حکمران جماعتیں حقائق تسلیم کرنے کے بجائے ملک کو مزید انتشار کی جانب دھکیل رہی ہیں۔

حکومت کے مایوس کُن فیصلے خود اس کے لیے خطرناک ہیں۔ جتنی سخت اپنی مٹھی بند کریں گے اتنی ہی تیزی سے ریت کی طرح ان کی مٹھی سے اقتدار پھسلتا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر لگام ڈالنے کے جنون میں حکمران جماعتیں حقائق تسلیم کرنے کے بجائے دانستہ یا غیردانستہ طور پر ملک کو مزید انتشار کی جانب دھکیل رہی ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے 11 ججز نے جمعہ کو اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی کو ایک سیاسی پارٹی تسلیم کیا جس کے ساتھ ہی اتحادی حکومت نے پارٹی مکمل پابندی لگانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ یہ چونکا دینے والا اعلان پیر کی دوپہر کیا گیا اور ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے طے کیا ہے کہ وہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے۔ اس کے علاوہ حکومت سابق صدر عارف علوی، سابق وزیراعظم عمران خان اور قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

کیا اپنی دو تہائی اکثریت کھو دینے کے بعد حکومت کا یہ ردعمل درست ہے اور وہ بھی ایسی اکثریت جو انہیں الیکشن کمیشن کے غیرآئینی اور ماورائے قانون فیصلوں کی مرہون منت حاصل ہوئی؟ کیا پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت کی حیثیت اس کے حقدار کو مل جانے کا امکان اتنا خطرناک تھا کہ حکمران جماعتیں فوجی آمروں کی روش پر چلتے ہوئے مشکوک الزامات لگا کر سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی کوشش کریں؟

اگر حکومت کا گمان یہ تھا کہ وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے ذریعے انہوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تو اس معاملے میں وہ غلط ہیں۔ اس پریس کانفرنس نے تاثر دیا کہ وہ صرف بے بس اور سہمے ہوئے ہیں جو اپنے اردگرد اٹھتے طوفان میں خود کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اب امید ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ اعلان کرکے حکومت یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس طرح کے اقدام پر کیا ردعمل سامنے آئے گا۔ اس کے باوجود یہ حیران کُن ہے کہ عطا تارڑ کی جانب سے پریس کانفرنس سے قبل ان کی جماعتوں میں موجود دانش مند افراد نے اس تجویز کو رد کیوں نہیں کیا؟

لگتا ہے کہ حکومت اور ان کے اسٹیبلشمنٹ کے سرپرستوں کو اب تک یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ صورت حال ان کے لیے بالکل نئی ہے۔ پچھلی حکومتیں جو خوف کے سیاسی ہتھکنڈے اپنا کر حکومت کیا کرتی تھیں، وہ ایسا مضبوط معیشت کو ہتھیار بنا کر کرتی تھیں۔ لیکن موجودہ صورت حال اس کی متحمل نہیں کہ حکومت اس طرح کے سخت اقدامات لے۔

اگر یہ سب کرنے کا مقصد جمہوری سیاسی نظام کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تو پھر انہیں یہ سب جاری رکھنا چاہیے۔ تاہم اگر وہ سماجی اور اقتصادی استحکام کا حصول چاہتے ہیں انہیں اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی لچک، پختگی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ملک کو سیاسی انتشار اور سماجی عدم استحکام کی راہ پر گامزن کیے بغیر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کافی فائدہ حاصل کیا ہے۔

سیاست میں مکمل فتح شاذ و نادر ہی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے مذاکرات کے راستے بند نہیں ہونے چاہئیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ