ابراہیم رئیسی کی وفات: ایران نے ساری قیاس آرائیاں دفن کردیں
صدر ابراہیم رئیسی کی ناگہانی موت کے بعد ایران ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ گزشتہ روز تہران میں ان کے نمازِ جنازہ کے موقع پر عوام کے جم غفیر نے صرف ملک میں سوگ کی فضا کی نشاندہی نہیں کی بلکہ عوام کے اس مجمع نے یکجہتی اور سیاسی تسلسل کی علامات کا مظاہرہ بھی کیا۔
دوسری جانب بین الاقوامی بالخصوص عرب ممالک کے رہنماؤں کی جنازے میں شرکت نے مشرقِ وسطیٰ کی سفارتی بساط پر ایران کی اسٹریٹجک حیثیت کو کسی حد تک مضبوط کیا۔
صدر ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد خطے کے اہم پاور ہاؤس، ایران کے سیاسی اور اسٹرٹیجک ردعمل کو دنیا نے انتہائی قریب سے دیکھا جس کی وجہ ملک کو درپیش داخلی چینلجز اور خطے میں بڑھتے ہوئے تنازعات بالخصوص غزہ میں کئی ماہ سے جاری طویل جنگ ہے۔
مبصرین اس معاملے میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں کہ تہران میں اقتدار کی منتقلی کس طرح ہوتی ہے، اور اسے وہ تبدیلی کے ان ممکنہ اشاروں سے تشبیہ دے رہے ہیں جو شاید سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے وفات کے بعد ایران میں رونما ہوگی۔
ابراہیم رئیسی کی وفات کے بعد جس طرح طاقت کا خلا پیدا ہونے کی قیاس آرائیاں ہورہی تھیں، ایسا ہوا نہیں بلکہ ایران نے ردعمل کے طور پر نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ سپریم لیڈر نے فوراً نائب صدر محمد مخبر کو قائم مقام صدر مقرر کیا اور اب 28 جون کو ملک میں صدر کا انتخاب متوقع ہے جوکہ ہیلی کاپٹر حادثے کے محض 39 دن بعد ہوں گے۔ جبکہ وزیرخارجہ امیر عبدللہیان کی وفات کے بعد اہم سفارتکار علی بغیری کانی کو قائم مقام وزیرخارجہ مقرر کردیا ہے۔
ایران ماضی میں سنگین بحرانوں کا سامنا کرچکا ہے جن سے وہ کامیابی سے نمٹا۔ ملکی تاریخ بالخصوص 1980ء کی دہائی میں ایران-عراق جنگ میں پیش آنے والے اتار چڑھاؤ نے اس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کی مضبوطی کو ظاہر کیا۔
30 اگست 1981ء میں ایران کو اس وقت ایک دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب صدر محمد علی رجائی اپنے وزیراعظم محمد جواد بہونار (جو بعدازاں نائب صدر بنے) سمیت دفتر میں ہونے والے ایک دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعے نے ایران-عراق جنگ کے ابتدائی سالوں میں سیاسی منظرنامے میں طاقت کا خلا پیدا کیا۔
اس واقعے کے چند ماہ بعد اعلیٰ عدلیہ کے آیت اللہ محمد بہشتی سمیت دیگر اہم سیاسی رہنما دھماکے میں جاں بحق ہوئے۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے واقعات، آیت اللہ خامنہ ای (جو اس وقت ایک سیاستدان تھے) پر قاتلانہ حملے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرسکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بحران سے نمٹنے کی خصوصیت ایران کے آئین کا حصہ بن گئی جس کی وجہ سے 1989ء میں آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد بھی کوئی بحران کھڑا نہیں ہوا۔
ابراہیم رئیسی کی میراث
اگر بات ابراہیم رئیسی کی دورِ صدارت کی ہو تو ان کا دور نئی بنیاد پرست اصلاحات متعارف کروانے کے بجائے انقلابی اقدار کو برقرار رکھنے پر زیادہ مرکوز تھا۔ انہوں نے سپریم لیڈر کے اسٹریٹجک فیصلوں کے ساتھ قدامت پسند نظریات کو ایک بار پھر نافذ کیا جبکہ اس دوران سیاسی اصلاحات کی گنجائش بھی کسی حد تک محدود رہی۔
اگرچہ مغربی مبصرین اکثر ابراہیم رئیسی کو آیت اللہ خامنہ ای کا گدی نشین سمجھتے تھے لیکن ایرانی اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایرانی امور کے مایہ ناز مبصر پروفیسر محمد مراندی کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کے بعد ابراہیم رئیسی کا سپریم لیڈر بننے کا تصور مغرب کی پیداوار ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خامنہ ای کی صحت مند ہیں۔
انہوں نے ایران میں قیادت کی منتقلی کے آئینی عمل کی وضاحت کی۔ انہوں نے بتایا کہ ماہرین کو منتخب کرکے ایک کونسل بنائی گئی ہے جو ضرورت پڑنے پر سپریم لیڈر کو منتخب بھی کرتا ہے اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹا بھی دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وقت آنے پر کونسل اپنی قانونی اختیارات کا استعمال کرے گا۔
یہ واضح رہے کہ جب آخری بار ایران میں طاقت کی منتقلی ہورہی تھی تب آیت اللہ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کی جگہ سپریم لیڈر بننے کے لیے سب سے پہلی ترجیح نہیں تھے۔ درحقیقت آیت اللہ خمینی نے تو بذاتِ خود آیت اللہ حسین علی منتظری کو اپنا جانشین منتخب کیا تھا لیکن اپنی وفات سے تین ماہ قبل انہوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور پھر آیت اللہ خامنہ ای کا انتخاب کیا۔ یہی وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب ایران میں سپریم لیڈر جیسے بااختیار عہدے پر اقتدار کی منتقلی ہوئی۔
سپریم لیڈر کی تبدیلی کا امکان
یہی وجہ ہے کہ ابراہیم رئیسی کے انتقال کے بعد اب سپریم لیڈر کے عہدے پر تبدیلی کا انحصار انتخابی صورتحال اور اس کے نتائج پر ہوگا۔ ایران کا سیاسی نظام جہاں افراد کو سیاسی جماعتوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے، ایک پیچیدہ دور میں داخل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدارتی انتخاب میں کھڑی ہونے والی شخصیات اور ان کی صف بندی اس پورے عمل میں ایک کلیدی کردار ادا کریں گی۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ابراہیم رئیسی کے بعد ایران میں کون آگے بڑھتا ہے اور کس طرح کا سیاسی بیانیہ اپنانے کا انتخاب کرتا ہے۔ کچھ حلقوں کے نزدیک ان امیدواروں میں شاید پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف، جوہری مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے والے سعید جلیلی، قائم مقام صدر محمد مخبر یا سابق اسپیکر علی لاریجانی شامل ہوسکتے ہیں۔
فی الحال تہران میں جنازے کی وجہ سے انتخابی مباحثوں پر عارضی طور پر توجہ نہیں دی جارہی۔ کہا جارہا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے لائحہ عمل پر بات چیت سرکاری پانچ روزہ سوگ ختم ہونے اور امیدواروں کی رجسٹریشن کے آغاز پر شروع ہوگی۔
توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے انتخابات، ایران میں حالیہ سالوں میں ہونے والے انتخابات سے مختلف ہوں گے کہ جن میں ووٹرز کی دلچسپی اور ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ یہ انتخابات صرف ابراہیم رئیسی کا پیشرو منتخب کرنے سے کئی زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔ صدارتی امیدوار اور سیاسی دھڑے کس طرح فوری بحران کا جواب دیتے ہیں اور ایران کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کو کس طرح بیان کرتے ہیں، اس سے ان کی انتخابی مہم کی سمت کا تعین ہوگا۔
قدامت پسند نظریات رکھنے والا دھڑا جو غالباً ابراہیم رئیسی کی پالیسیوں سے اتفاق کرتا ہے، وہ تجویز کررہے ہیں کہ تبدیلی نہیں لائی جائے بلکہ رئیسی کی انقلابی پالیسیوں کو برقرار رکھنے کی روش جاری رکھی جائے۔ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی طرف یہ جھکاؤ بالخصوص خطے میں جاری تنازعات اور علاقائی عدم استحکام کے پیش نظر درست لگے کیونکہ ان تنازعات میں ایران کافی حد تک ملوث ہے جبکہ ملک میں خود ایسے عناصر کا غلبہ ہے جو اصلاحات لانے کے حامی نہیں۔
طاقت کے مرکز کی منتقلی
ایک جانب جہاں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی افواج کا کردار وسعت اختیار کررہا ہے اور وہ زیادہ مضبوط ہورہے ہیں وہیں ابراہیم رئیسی کی موت کی وجہ سے ایران میں مستقبل کی طاقت کی حرکیات کا موضوع بھی زیرِ بحث آچکا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں پاسدارانِ انقلاب افواج نے نہ صرف عسکری سطح پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے لیکن اس نے ایران کے سیاسی اور معاشی منظرنامے میں بھی شرکت کی ہے۔ یہ رجحان آنے والے سالوں میں طاقت کے ڈھانچے میں ممکنہ تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایران میں پاسدارانِ انقلاب کا بڑھتا ہوا اثر ایران کے اسٹریٹجک ڈھانچے کی تعریف کو بدل سکتا ہے۔
محمد مراندی کہتے ہیں کہ ’ہماری ملک میں ریاست کی مختلف شاخیں ہیں۔ ہماری ریاست کے ڈھانچے میں مختلف عناصر ہیں اور معاملات یونہی چلتے رہیں گے جیسے وہ چلتے آرہے ہیں۔ جلد انتخابات ہونے والے ہیں اور نیا صدر منتخب ہوگا۔ نئے صدر کی پالیسیاں شاید ابراہیم رئیسی سے مماثل ہوں بالخصوص خارجہ پالیسی جہاں ملک میں بڑے پیمانے پر اتفاق رائے ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’داخلی سیاست اور معیشت کی بات ہے تو ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ امیدوار کون ہیں اور صدر کون منتخب ہوتا ہے‘۔
خارجہ پالیسی
یہ امکان کم ہے کہ ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی تبدیل ہو۔ اس کی اہم وجوہات خارجہ پالیسی کی سمت طے کرنے میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا مرکزی کردار اور پاسدارانِ انقلاب کا اثرورسوخ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ایوانِ صدر میں تبدیلیوں کے باوجود ایران کی خارجہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی ہم نے دیکھی نہیں۔
ابراہیم رئیسی کے ماتحت ایران نے ’مشرق پر توجہ‘ کی اپنی پالیسی کو جاری رکھا جس میں ایران نے مشرقی قوتوں جیسے چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے کی کوششیں کیں۔ اس روش نے مغرب کے لیے ایران کے عدم اعتماد کو ظاہر کیا بالخصوص یہ اور واضح انداز میں ظاہر ہوا جب ایران کے جوہری معاہدے کو ناکام بنادیا گیا۔
ابراہیم رئیسی کی انتطامیہ نے غیر مغربی ممالک کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعلقات مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے افریقہ اور براعظم جنوبی امریکا کے ممالک کے دورے کیے اور مغربی پابندیوں کے باعث اپنی معاشی کمزوری کو کم کرنے کی کوشش کی جبکہ ساتھ ہی ایران کے عالمی تعلقات کو متنوع بنایا۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان کے دور میں ایران اور روس کے تعلقات مزید گہرے ہوئے جن میں عسکری سطح پر تعاون اور یوکرین تنازعہ میں روس کی حمایت شامل ہیں۔
علاقائی سیاست کی بات کی جائے تو ایران حماس جیسے دیگر مسلح گروہوں کی حمایت جاری رکھے گا اور مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں ایران کا کردار مستقل رہے گا، یعنی اس میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں۔ یہ پالیسیاں ریاست کے نظریاتی اور اسٹریٹجک مقاصد میں سرایت کرچکی ہیں۔
مرحوم ابراہیم رئیسی کی قیادت میں ایران کی خارجہ پالیسی کی ایک اور قابلِ ذکر کامیابی سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی تھی۔
ریاض نے ان کی وفات پر اظہارِ تعزیت کیا اور ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا جس نے دونوں ممالک کے درمیان برف کی دیوار پگھلنے کی نشاندہی کی۔ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے قائم مقام صدر محمد مخبر کو خطوط لکھے جن میں انہوں نے ایران کی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
تہران کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری تیونس کے صدر قیس سعید اور مصری وزیر خارجہ سامح شکری کے ابراہیم رئیسی کے جنازے میں شرکت کے لیے تہران کے دورے سے بھی نمایاں ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب تیونس اور مصری کے صدور نے ایران کا دورہ کیا۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔