’عینک لگا کر عید منانے والے بچوں کو اب عید کی کوئی خوشی نہیں‘
ہم اکثر گھر کے بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں کہ ’آج کل کے بچوں کو کیا پتا کہ ہمارے دور کی عید کیا ہوتی تھی؟‘ لیکن اس میں تازہ ترین اضافہ یہ ہوا ہے کہ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے نوجوان (ملینیئل) اب 2000ء کے بعد پیدا ہونے والی نسل (جین زی) کو کہتے نظر آتے ہیں کہ ’تمہیں کیا پتا ہمارے دور کی عید کیا ہوتی تھی؟‘
پہلے چار بچے ایک جگہ جمع ہوجاتے تھے تو کھیلنے کے لیے کھیل زیادہ اور وقت کم ہوتا تھا لیکن اب ڈیجیٹل دنیا کے اس دور میں تو بچے اپنے کزنز سے ہی نہیں ملنا چاہتے کیونکہ ’مما مجھے نہیں جانا، وہ کھیلتے نہیں ہیں موبائل چلاتے ہیں، میں بور ہوتی ہوں‘۔
خیر یہ تو ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت گفتگو کی جاچکی ہے اور اس پر بات کرکے میں نہیں چاہتی کہ آپ مجھے بزرگ سمجھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ صرف ایک یا دو دہائی کا یہ جنریشنل گیپ اتنا گہرا ہے کہ اس نے 1990ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچوں کی باتوں کو بزرگ کے قصے کہانیوں میں تبدیل کردیا ہے۔
جتنی تیزی سے دور بدل رہا ہے، ہر نسل کے لوگ جدیدیت سے موافق ہورہے ہیں اور اس کی مثال وہ 82 سالہ انکل ہیں جنہیں میں نے پوری زندگی علیٰ الصبح اخبار پڑھتے دیکھا لیکن گزشتہ 3 سال سے اب وہ صبح اخبار کے بجائے ہاتھ میں موبائل لیے بیٹھے نظر آتے ہیں۔
زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح عید بھی جدیدیت کے دور میں رنگ چکی ہے اور اس حوالے سے نوجوانوں کی سوچ اور سرگرمیوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ چاند رات کو باتوں ہی باتوں میں، میں نے اپنے دوست سے پوچھا؛
’علی عید کا کیا پلان ہے؟‘
’کیا پلان ہوگا یار نماز پڑھیں گے اور پھر مست اے سی چلا کر سوئیں گے‘۔
’تمہارے مزے ہیں، کم از کم سو تو جاؤ گے ہمارے گھر تو رشتہ دار آئیں گے سونے کا وقت ہی نہیں ملے گا‘۔
یہ جواب دینے کے بعد میرے ذہن نے برق رفتار جھٹکا کھایا اور میں ماضی کی ان گلیوں میں واپس چلی گئی کہ جہاں رات بھر صبح نئے کپڑے پہننے کی خوشی سونے نہیں دیتی تھی اور آج میں یہ سوچ رہی ہوں کہ مجھے عید کے پہلے دن سونے کا موقع نہیں ملے گا۔
ہم وہ بچے تھے جو عید پر عینک لگانے کو فرض سمجھتے تھے، اپنے کاندھے پر لٹکے چھوٹے سے بیگ میں عیدی جمع کرکے نہال ہوجاتے تھے اور اس عیدی سے ہم بندوق نہ خریدیں ایسا تو ناممکن تھا۔ جب تک چھرے والی بندوق سے دو تین بچوں کو زخمی نہ کردیں اور ہمارے والدین ہماری بندوق ضبط نہ کرلیں ہماری عید مکمل نہیں ہوتی تھی تو پھر چند سال میں ایسا کیا ہوگیا کہ اب ہمیں عید کی آمد کی خوشی ہی نہیں ہوتی؟
جواب کی کھوج میں ماضی کے جھروکوں میں جھانکا تو میں نے جدید دور کی تبدیلیوں اور کسی حد تک ملکی حالات کو بھی اس کا قصوروار پایا جس نے وقت سے پہلے ہمیں بڑا کردیا ہے۔
زیادہ پرانے وقت کی بات نہیں بس 2010ء سے پہلے تک کی بات کریں تو ہماری عید کی خوشی کا تعلق عید کارڈز سے تھا۔ ابا کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر دوستوں کے لیے عید کارڈز لینے جانے کے لیے ہم بےچین رہتے تھے۔ سب سے اچھا اور مہنگا کارڈ اپنے سب سے اچھے دوست کو دینے سے ہم مسرور ہوتے تھے لیکن جدید دور میں جہاں عید کارڈز کی روایت بھلا دی گئی ہے وہیں ہم اب واٹس ایپ پر ایک روکھا سوکھا سا عید مبارک کہہ کر یہ فرض بھی پورا کرلیتے ہیں۔
پہلے عید کی رات بہن بھائیوں کے ساتھ عیدی گننے کا مزہ ہی الگ ہوتا تھا کیونکہ یہ ایک ایسا انعام ہوتا تھا جسے ہم اپنا حق سمجھتے تھے۔ ایسے میں 20 روپے ملنا ہمارے لیے 500 روپے سے کم نہیں تھا لیکن اب اگر ہمیں 5000 بھی عیدی مل جائے تو چہرے پر چاہ کر وہ خوشی نہیں آتی جو بچپن میں 20 روپے ملنے سے حاصل ہوتی تھی۔ اس کی وجہ شاید روپے کی قدر میں کمی ہے جس نے ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ ہماری عید کی چمک دمک کو بھی مدھم کردیا ہے۔
عیدی کی رقم سے میلوں میں نہیں گئے تو عید نامکمل لگتی تھی لیکن اب میلے میں جانا تو کیا اس کے پاس سے گزرے بھی سالوں بیت چکے ہیں اور سچ پوچھیں تو جانے کی چاہ بھی نہیں رہی کیونکہ جین زی کی زبان میں اب یہ ہمارے لیے ’کول‘ نہیں رہا۔
آج ہماری نسل اپنی نوکریوں اور زندگیوں کو ڈگر پر لانے کے لیے شدید فکرمند ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہم زندگی کے اس دور سے گزر ررہے ہیں کہ ہمیں اتنی پریشانیوں نے آگھیرا ہے کہ عید کی خوشی معمولی سی لگنے لگی ہے جو ہمارے کاندھوں پر موجود بوجھ کو کم نہیں کرسکتی۔
ہم وہی نسل ہیں جن میں سے زیادہ تر بہتر مستقبل کے خواب سجائے بیرونِ ملک جاچکے ہیں جہاں وہ اپنوں سے دور ایسی عید مناتے ہیں جہاں ان کی عید اپنے گھر والوں کو یاد کرتے گزر جاتی ہے۔
اداسی اور پریشانیوں میں گھری یہ نسل عید کی خوشیاں منانا بھول چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پریشانیوں سے فرار کی چاہ میں ہر موقع پر ہم سونے کو ترجیح دیتے ہیں اور یونہی ہمارا عید کا دن بھی کسی عام دن کی طرح گزر جاتا ہے جس میں اب عیدی ملنے کی خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی نئے کپڑے پہننے کی لیکن ہاں انسٹاگرام پر پوسٹ کرنے کے لیے ہم تیار ضرور ہوجاتے ہیں کیونکہ جدید دور کی مناسبت سے یہ وہ واحد شہ ہے جس پر ملینیئل اور جین زی کے نوجوان ایک صفحے پر ہیں۔
اس سب کے باوجود میں کم از کم فخر سے یہ تو کہہ سکتی ہوں کہ عید تو ہمارے بچپن کی ہوتی تھی پھر چاہے میں کوئی بوڑھی بزرگ ہی کیوں نہ لگوں۔ مجھے ہاتھ میں موبائل اور ٹیبلیٹ لے کر پیدا ہونے والے ان بچوں سے دلی ہمدردی ہے جنہیں نہ عیدی ملنے کی خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے کزنز اور دوستوں سے ملنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے عید کے دن کا انتظار ہوتا ہے۔
خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔