نقطہ نظر

آٹزم سے آگاہی کا عالمی دن: آٹسٹک بچوں کا مستقبل کس طرح روشن کیا جائے؟

آٹزم کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ وہ ذہنی حالت ہے جس میں بچے مختلف انداز میں سوچتے ہیں، والدین کو سمجھنا چاہیے کہ آٹزم کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن بچوں کی زندگی ضرور بہتر کی جاسکتی ہے۔

’پہلے سعد نئی جگہ اور نئے چہرے دیکھ کر پریشان ہوجاتا تھا اور بہت روتا تھا، پھر 20 سے 25 منٹ بعد وہ ٹھیک ہوجاتا۔ شروع میں ہم یہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ چڑچڑے پن کا شکار ہے، دانت نکل رہے ہیں یا پھر بھوک کی وجہ سے بے چینی ہے لیکن جب وہ ڈھائی سال کا ہوا تو ڈاکٹر نے اس میں مائیلڈ آٹزم کی تشخیص کی۔ آج سعد ساڑھے تین برس کا ہے اور الحمداللہ بہتر ہے‘، یہ کہنا تھا مسز سلمان کا جو آٹسٹک بچے سعد کی والدہ ہیں۔

7 سالہ عبداللہ کی والدہ نے بتایا کہ ’عبداللہ میرے دوسرے بیٹے ہیں۔ پیدائش کے بعد وہ روتے بہت تھے اور چھ ماہ تک ان کی گردن نہیں ٹھہری۔ ہم نے اس حوالے سے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انہوں نے پہلے تو طاقت کی ادویات دیں اور پھر جب دوسرے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انہوں نے بتایا کہ عبداللہ مائیلڈ آٹسٹک ہے‘۔

حکومت سندھ کے قائم کردہ ادارے C-ARATs کے ڈاکٹر رمند کمار نے بتایا، ’عبداللہ کی ادویات اور تھراپی جاری ہیں۔ آج عبداللہ ایک باتونی بچہ ہے اور وہ اسکول کے پلے گروپ میں پڑھتا ہے۔ فزیو تھراپی سے اس کے ہاتھوں کی گرفت بہتر ہوئی ہے‘۔

عبداللہ کی والدہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹر بتا چکے ہیں کہ یہ مکمل طور پر تو ٹھیک نہیں ہوپائے گا لیکن تھراپی سے کافی حد تک بہتر ہوجائے گا۔ پہلے پہل اس کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑی ہوئی تھیں لیکن اب وہ موبائل پکڑ کر اپنے والد کو وائس میسج بھیج دیتا ہے۔ وہ اتنا بہتر ہوچکا ہے کہ اسے اپنی بات کہنا آگئی ہے اور وہ دستر خوان پر بسمہ اللہ بھی پڑھتا ہے‘۔

وہ بتاتی ہیں، ’عبداللہ کو اسکول جانا بہت پسند ہے۔ ہم نے شہر کے کئی اسکولوں کا دورہ کیا لیکن ان کی فیسیں بہت زیادہ تھیں جو ہماری استطاعت نہیں۔ آٹزم کی تشخیص و علاج میں عبداللہ کے دو سال پہلے ہی ضائع ہوچکے تھے اور پھر ہمیں C-ARATs کا علم ہوا۔ ابتدائی دنوں میں ہم میں سے کوئی ایک ہمیشہ عبداللہ کے ساتھ جاتا تھا۔ ہم ڈرتے تھے کہ وہ خود کو یا کوئی اسے نقصان نہ پہنچا دے لیکن آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ادارہ ہم جیسے والدین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں‘۔

15 سالہ عبدالنافع ان والدین کے لیے مثال ہیں جو اپنے آٹسٹک بچوں کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند رہتے ہیں۔ عبدالنافع تیراک ہیں اور وہ میراتھن بھی جیت کر آتے ہیں۔ گانے بھی گاتے ہیں اور ڈرائنگ کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

عبدالنافع کی والدہ ذکیہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ ڈھائی سال کی عمر تک عبدالنافع کو چلنے میں مشکل ہوتی تھی۔ انہیں تشویش ہوئی تو انہوں نے Institute of professional psychology سےعبدالنافع کا چیک اپ کروایا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ ’سویئر آٹسٹک‘ ہے۔ ایسے بچے عام طور پر دیگر عام بچوں کی طرح ہی نظر آتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بنیادی طور پر یہ ذہنی مشکل کا نام ہے۔ گفتگو میں مسلسل ہاتھ ہلانا ان کی عادت ہوتی ہے۔ حرکت کرتی ہوئی چیزیں انہیں اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ عبدالنافع میں بھی یہ تمام علامات موجود تھیں۔ آٹسٹک بچوں کو اپنی بات سمجھانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ 6 برس کی عمر میں عبدالنافع نے ٹوٹے پھوٹے لفظ بولنا شروع کیے۔ اس کے بعد مسلسل اسپیچ تھراپی لینے کی وجہ سے وہ بالکل عام بچوں کی طرح بات کرتا ہے‘۔

عبدالنافع کی والدہ ذکیہ صاحبہ کے مطابق، ’آٹسٹک بچہ باتوں اور واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ نہیں پاتا لہٰذا وہ کوئی رائے نہیں بنا پاتا نہ ہی کسی خیال کو اپنے ذہن میں بُن پاتا ہے۔ چیزوں یا باتوں کو آپس میں جوڑنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے اس لیے آپ ان سے کوئی بات کریں گے تو وہ ایک ہی بات بار بار دہرائیں گے۔ والدین تو صبر و تحمل سے ان کی باتیں سنتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں لیکن دیگر لوگوں کے چہروں پر تاثرات ایسے ہوتے ہیں جیسے کہنا چاہتے ہوں ’بیٹا سمجھ گئے اب چپ ہو جاؤ‘، یہ دیکھنا ہم والدین کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے‘۔

وہ مزید بتاتی ہیں، ’آٹسٹک بچے بولنے اور سیکھنے میں وقت بھی زیادہ لیتے ہیں جبکہ وہ مجمع سے گھبراتے بھی ہیں۔ ان بچوں کے والدین کے لیےمشکل اور تکلیف دہ مرحلہ وہ ہوتا ہے جب دیگر والدین آٹسٹک بچوں سے اپنے عام بچوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ ’ہمارا بچہ یہ کرتا ہے تمہارا بچہ یہ کیوں نہیں کرتا؟‘ اور نہ ہی والدین کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے کہ انہوں نے کچھ غلط کیا ہوگا۔

’ یہ سوچ ختم کرنا ہوگی کہ اگر خالہ، ماموں، چچا یا تایا دیر سے بولے تھے تو یہ بچہ بھی اسی لیے بولنے میں وقت لے رہا ہے۔ اپنی عمر کے مطابق بچے کو اگر چلنے اور بات کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے تو والدین کو چاہیے کہ جلد از جلد اپنے بچے کا معائنہ کروائیں کیونکہ فوری اقدامات لینا ان کے اور ان کے بچے دونوں کے لیے بہتر ہے’۔

سعد کی والدہ مسز سلمان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں آٹزم پر اتنا کام نہیں ہورہا ہے جتنا ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے تو والدین تھراپسٹ کو اس کے منہ مانگے پیسے دینے پر والدین مجبور ہیں، ایسے میں آٹسٹک بچوں کے خصوصی اسکولوں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ عام سرکاری یا نجی اسکولز میں آٹسٹک بچوں کو داخلہ نہیں ملتا۔ ایک دو میں اگر ملتا بھی ہے تو وہ بھی اس شرط پر کہ والدین اسکول میں الگ ریسورس ٹیچر رکھ کردیں کیونکہ ان کے ٹیچر آٹسٹک بچوں کو سنبھال نہیں سکتے نہ ہی وہ انہیں مطلوبہ توجہ نہیں دے سکتے ہیں۔ شہرِ کراچی میں ایسے بہت کم اسکول ہیں جو آٹسٹک بچوں کے ٹیسٹ لیتے ہیں اور اسی ٹیسٹ کی بنیاد پر وہ کلاس میں بٹھاتے ہیں۔

’میں اکثر سوچتی ہوں کہ غریب آٹسٹک بچے کو کن مشکلات کا سامنا ہوگا کیونکہ گھر پر ٹرینر اور اسکول کا اضافی بوجھ تو صرف صاحبِ حیثیت والدین ہی اٹھا سکتے ہیں۔ ہم سعد کی فیسیں، تھراپی اور دیگر کی مد میں تقریباً ماہانہ 90 ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ سعد اسکول کے ساتھ ساتھ ہفتے میں دو دن شام میں ری ہیب سینٹر جاتا ہے جبکہ اس کے لیے گھر میں تھراپسٹ بھی آتی ہے۔ یعنی ہم اس کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں لیکن وہ والدین جن کی ماہانہ تنخواہ گھر چلانے کے لیے کافی نہیں ہوتی وہ آٹسٹک بچوں کی دیکھ بھال کیسے کرپاتے ہوں گے؟‘

مسز سلمان مزید بتاتی ہیں کہ ’کراچی میں اس وقت آٹسٹک بچوں کے لیے حکومت کی زیرِ نگرانی چلنے والا ایک ہی اسکول ہے جس کی شہر میں صرف دو شاخیں ہیں۔ ایک شاخ گلستانِ جوہر جبکہ ایک کورنگی میں ہے۔ ان دونوں شاخوں میں پہلے ہی اتنے بچے داخل ہیں کہ نئے بچوں کی باری آتے آتے 3 سے 4 سال لگ جاتے ہیں۔ یہ شہر بہت بڑا ہے اس لیے یہاں اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آٹزم کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے بالخصوص کورونا کے بعد ان میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ میرا بیٹا بھی کورونا کے دور میں پیدا ہوا تھا‘۔

عبداللہ کی والدہ سمجھتی ہیں کہ ان کا بیٹا جیسے جیسے بڑا ہوتا جائے گا اسے کہیں لے جانا بھی مشکل ہوتا جائے گا لیکن وہ اور عبداللہ کے والد، اپنے بیٹے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔

سعد جو مائلڈ آٹسٹک ہیں، ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’شروع میں سعد عام اسکول جاتا تھا لیکن اس اسکول کے پرنسپل نے شکایت کی کہ یہ غصیلی طبیعت کا مالک ہے۔ لیکن اس کے علاوہ میرا بیٹا بہت ذہین اور ایکٹو ہے۔ اس کی سمعی اور بصری یادداشت بہت اچھی ہے۔ پہلے یہ ایک سے دو لفظ بول پاتا تھا لیکن اسپیچ تھراپی سے اس کی حالت میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ آج اسے دو کلمے اور چند سورتیں بھی یاد ہیں جبکہ اس کی آواز بہت اچھی ہے‘۔

عبداللہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ عبداللہ کو مذاق کرنا پسند ہے جبکہ وہ جانوروں سے بہت پیار کرتا ہے۔ اسے وہ تمام چیزیں چاہئیں جو ان کے بھائیوں کے پاس ہیں’۔

ڈاکٹر ارم رضوان سینٹر آف آٹزم ری ہیبلیٹیشن اینڈ ٹریننگ سندھ (C-ARTs) کی چیف آٹزم کنسلٹنٹ ہیں، کہتی ہیں ’آٹزم کی بعض علامات واضح ہوتی ہیں جیسے اگر بچے کا نام پکارا جائے مگر وہ توجہ نہ دے۔ والدین کو گمان ہوتا ہے کہ بچہ شاید سُن نہیں پا رہا۔ لہٰذا وہ بچوں کا پہلے پہل بہرے پن کا معائنہ کرواتے ہیں۔ لیکن جب ان بچوں کی کوئی پسندیدہ آواز یا موسیقی لگائی جائے تو وہ فوراً بھاگتے ہوئے آتے ہیں جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ بچہ سن پا رہا ہے لیکن توجہ نہیں دے رہا۔

’وہ اپنے ہم عمر بچوں کی طرح بنیادی کام نہیں کر پاتے یا انہیں کوئی کام کہا جائے تو وہ کام نہیں کرپاتے۔ عموماً بولنے کی صلاحیت سے محروم بچے اشاروں کی زبان میں اپنی بات سمجھانے لگتے ہیں لیکن آٹسٹک بچے یہ بھی نہیں کرتے۔ عام بچے آپس میں کھیلتے ہیں لیکن آٹسٹک بچے اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گُھل مل نہیں پاتے۔ آٹزم بنیادی طور پر بولنے، گُھلنے ملنے اور توجہ دینے میں مشکل پیش آنے کا نام ہے‘۔

ڈاکٹر ارم یہ بھی کہتی ہیں کہ ’والدین کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ ان کی ری ہیبلیٹیشن کا مرحلہ شروع کیا جاسکے۔ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) میں بچے کی کیفیت شدت پسند بھی ہوسکتی ہے جبکہ مائیلڈ آٹسٹک بچے اگرچہ شدت پسند نہیں لیکن غصیلی طبیعت کے مالک ضرور ہوتے ہیں۔ یعنی بچے کے رویے آٹزم کے سطح کی نشاندہی کرتے ہیں۔

’ان میں سے کچھ بچے کسی کے ساتھ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے نہ ہی یہ کسی گروپ کا حصہ بنتے ہیں۔ اگر یہ بچے بات کرتے ہیں اور دوسرے بچوں کے ساتھ گھلتے ملتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے رویے میں بہتری آئی ہے، ایسے میں وہ مائیلڈ آٹسٹک کہلائیں گے‘۔

ڈاکٹر ارم رضوان بتاتی ہیں کہ سینٹر آف آٹزم ری ہیبلیٹیشن اینڈ ٹریننگ سندھ (C-ARTs) 2018ء میں گورنمنٹ آف سندھ کے اسپیشل ایجوکیشن اینڈ ری ہیبلٹشن کمپلیکس میں سینٹر آف آٹزم ری ہیبلیٹیشن اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں قائم ہوا۔

ڈاکٹر ارم نے بتایا کہ ’اس ادارے کی منفرد بات یہ ہے کہ یہاں تشخیص سے لےکر بچے کی نفسیاتی مدد تک، تمام سہولیات ایک چھت تلے مل جاتی ہیں۔ جس کے بعد یہاں آٹسٹک بچے کی ضرورت کے مطابق تعلیمی اور ری ہیبلیٹیشن کے پروگرام بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں نوعمر سے لڑکپن اور نوجوان آٹسٹک بھی آتے ہیں جبکہ یہاں تمام سہولیات مفت ہیں۔

’اس وقت حکومت سندھ کے تحت تین ایسے مراکز کراچی میں فعال ہیں۔ گلستان جوہر میں موجود مرکز بچپن اور لڑکپن کے بچوں کے لیے مختص ہے۔ نوجوان بچوں کے لیے کورنگی جبکہ تیسرا مرکز اورنگی میں بنایا جارہا ہے جو 2 سے 3 ماہ میں فعال ہوجائے گا۔ ایک آٹسٹک سینٹر حیدرآباد میں بھی قائم کیا جاچکا ہے جبکہ وہاں دوسرے کے قیام پر کام جاری ہے۔ ہمارے پاس ان پانچ اداروں میں لگ بھگ 5 ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں۔ ساتھ ہی ہم اندرون سندھ بھی اس طرح کا مرکز قائم کرنے کے لیے متحرک ہیں۔ ایک سے دو ماہ میں گمبٹ اسپتال میں یہ ٹریننگ سینٹر فعال ہوجائے گا۔ ایسا ہی ایک منصوبہ نوابشاہ کے لیے بھی تیار کیا گیا ہے جس پر کام جاری ہے‘۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک بار تشخیص ہوجائے تو پھر ان کی ری ہیبلیٹیشن کا مرحلہ آتا ہے جہاں اسپیچ تھراپی، اوکوپیشنل تھیراپی اور بی ہیورل تھراپی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم آٹسٹک بچوں کے لیے پرائمری تعلیمی پروگرام اور ثانوی تعلیمی پروگرام بھی فراہم کرتے ہیں اور جب یہ بچے 17 سال کے ہوجاتے ہیں تو انہیں ہنر بھی سکھایا جاتا ہے‘۔

مرکز امید کے سربراہ ذیشان نے بتایا کہ یہ مرکز ان کے والدین نے 1971ء میں قائم کیا تھا یعنی53 سالوں سے یہ مرکز مفت اور خصوصی بچوں کو سہولیات مہیا کر رہا ہے۔ ’یہاں 30 سے زائد پروفیشل افراد کی ایک ٹیم موجود ہے جو ہفتے میں 5 دن کام کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم آٹسٹک بچوں کے والدین کو بھی بچوں کے کاموں میں مصروف رکھیں۔ مرکز سے 300 گھرانے وابستہ ہیں جن کے بچوں کے لیے یہاں تھراپی سے لےکر تعلیم پروگرام موجود ہے۔

’مرکز امید کی اولین کوشش ہے کہ ہم خصوصی بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں۔ اسی لیے ہم لڑکوں کو مختلف چیزیں بنانا بھی سکھاتے ہیں۔ 16 سال سے بڑی لڑکیوں کو مہندی، سلائی، کڑھائی اور دیگر ہنر سکھائے جاتے ہیں جس کے بعد انہیں یہاں کام بھی مل جاتا ہے۔ کچھ والدین جو اچھا کھانا پکا لیتے ہیں، ہم انہیں آرڈر دلواتے ہیں۔ یوں ایک دوسرے کی معاونت سے یہ مرکز چل رہا ہے۔

’یہاں بچے چائے بناتے ہیں اور اسٹاف ان سے چائے خریدتا ہے۔ اس طرح انہیں معشیت اور لین دین کی بہتر سمجھ بوجھ آجاتی ہے۔ ہم یہاں آنے والے بچوں کو اس قابل بنا دیتے ہیں کہ وہ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے کام خود کریں اور چھوٹا کاروبار شروع کریں۔ ۔ہم خصوصی بچوں کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان سے بات چیت کرتے ہیں جبکہ عام لوگ انہیں سمجھ نہیں پاتے اور بیزار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ بچے چائے بنانے اور پیش کرنے میں نسبتاً زیادہ وقت لیں گے جبکہ عام بچہ یہی کام اس سے جلدی کرلے گا۔ پھر بھی میں کہوں گا کہ پہلے کی نسبت اب لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی بڑھ چکی ہے‘۔

ذیشان مزید کہتے ہیں کہ ’ہم والدین کے معاشی استحکام پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ کسی تھراپی کی کم از کم فیس 2 ہزار ہے اور اگر ڈاکٹر بڑا ہو تو اس کی فیس بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آٹسٹک بچوں کی تعلیم بھی عام بچوں سے مختلف ہوتی ہے اس لیے انہیں ان کی ضرورت کے مطابق بنیادی تعلیم دینا ضروری ہے۔ مرکز امید میں تمام کام خصوصی بچے کرتے ہیں جن میں پودوں کو پانی دینے سے لےکر مرکز کی صفائی شامل ہے۔

’ہمیں اس وقت افسوس ہوتا ہے جب آٹسٹک بچے کو تاخیر سے مرکز امید لایا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کچھ لوگ گود کے بچے بھی لاتے ہیں جن کی گردن نہیں ٹھہر رہی ہوتی لیکن ہم ان کی تھراپی شروع کردیتے ہیں۔ والدین کو سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کے بچے کی تھراپی جتنی جلدی شروع کی جائے گی اتنا ہی جلد اس کی زندگی بہتر ہوگی لہٰذا دیر نہ کریں‘۔

3 سال سے زائد عرصے اے سی ای ایل پی انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ڈیولپمنٹ (ACELP) میں کام کرنے والی ثمینہ کہتی ہیں، ’یہاں آنے والے بچے کو ان کی ذہنی صلاحیت کے مطابق تعلیم دی جاتی تھی۔ جو بچے ایکٹو ہوتے ہیں ان کی جماعت الگ ہوتی ہے۔ کچھ بچے پڑھنے کے بجائے دیگر سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے ہیں تو انہیں ووکیشنل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ایک میدان ہے جہاں انہیں کھیل کھیل میں بوتل کے ڈھکن لگانے اور بوتل کھولنے جیسے بنیادی کام سکھائے جاتے ہیں۔ کچھ بچے اتنے قابل ہوجاتے ہیں کہ انہیں انسٹی ٹیوٹ میں ہیلپر کے طور پر کام مل جاتا ہے جس کے لیے انہیں باقاعدہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے‘۔

عبدالنافع کی والدہ ذکیہ صاحبہ کا مشورہ ہے کہ بچوں کے والدین کو سمجھنا چاہیے کہ آٹزم کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن آٹسٹک بچوں کی زندگی ضرور بہتر کی جاسکتی ہے۔ جلد از جلد تشخیص کے بعد فوری تھراپی اس کا بہترین علاج ہے۔ یعنی اگر والدین اپنے نوعمر بچے کی نشوونما میں کمی دیکھیں یا انہیں یہ احساس ہو کہ ان کے بچے کو بولنے یا چلنے سے متعلق مشکلات کا سامنا ہے تو انہیں چاہیے کہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں’۔

وہ کہتی ہیں، ’اس طرح کے بچوں کے پٹھے کافی کمزور ہوتے ہیں، چہرے، ہاتھوں اور ٹانگوں کے مسلز بوجھ برداشت کر پاتے اس لیے اے ڈی ایل اوکوپیشنل تھراپی دی جاتی ہے جس میں بچوں کو اپنے اعضا کو حرکت دینا سکھایا جاتا ہے۔ عدالنافع جو اب 15 سال کا ہے، ساڑھے 3 سال کی عمر سے مختلف تھراپیز لے رہا ہے۔ لہذا آٹسٹک بچے میں بہتری کے لیے اسپیچ تھراپی اور فزیو تھراپی بنیادی حل ہیں‘۔

مسز سلمان اور عبداللہ کی والدہ سمجھتی ہیں کہ آٹسٹک یا کوئی بھی معذوری کا شکار بچوں کو خاندان کے ساتھ کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ مسز سلمان کا کہنا ہے کہ ’اگر میرے شوہر اور والدین میرا ساتھ نہ دیتے تو نوکری کے ساتھ سعد کو سنبھالنا میرے لیے ناممکن تھا۔ ہم میاں بیوی دونوں مل کر اپنے بچے کو بہتر سہولیات دینے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ اپنے بچے کی وجہ سے والدین بھی پریشانی محسوس کرتے ہیں‘۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومتی سطح پر نارمل اسکولوں میں آٹسٹک بچوں کے کوٹے کی بات کی جائے تاکہ عام بچے ان خصوصی بچوں کو اپنے ماحول میں قبول کریں اور آٹسٹک بچے ان کے ساتھ ایک ہی معاشرے میں رہنا سیکھیں۔ ساتھ ہی معذور لوگوں کی طرح خصوصی بچوں کا بھی سرکاری نوکریوں میں کوٹا ہونا چاہیے۔

یہ بچے معذور ہیں نہ ہی بیمار، بس دنیا کو دیکھنے کا ان کا نظریہ الگ ہوتا۔ آٹسٹک بچے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آٹسٹک لوگ اپنی دنیا میں رہتے ہیں لیکن وہ جس کام پر توجہ دیتے ہیں اسے عمدہ انداز میں پورا کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے نیوٹن اور ایڈیسن جیسے سائنسدانوں کی مثالیں موجود ہیں جبکہ نامور موسیقار بھی آٹسٹک افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

حکومتی سطح پر مزید اسکول بنانے اور سہولیات بہتر بنانے کی ضرورت ہمیشہ سے تھی اور رہے گی کیونکہ ان اسکولوں میں بچے کو رجسٹرڈ کروا بھی دیں تو انہیں داخلہ ملنے میں 3 سے 4 سال لگ جاتے ہیں۔ عام اسکولوں کی پرنسپل ایسا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے ان بچوں کا والدین ہونا کوئی جرم ہے اور وہ بچے کو داخلہ دے کر ان پر کوئی احسان کررہے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان بچوں کے چڑچڑے پن کی وجہ سے والدین بھی دباؤ میں آجاتے ہیں۔ بلاشبہ ان بچوں کو سنبھالنا ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔

آٹزم کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ وہ ذہنی حالت ہے جس میں بچے مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ اکثر اوقات ان بچوں کی باتوں کو سمجھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اس مشکل کا حل صرف بروقت تھراپی ہے۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔