تیزاب گردی اور تیزاب کی کھلے عام فروخت، قانون کیا کہتا ہے؟
6 جنوری 2024ء کو نعمت اللہ غنی نے اپنی مطلقہ تنویر بانو اور سابقہ ساس پر تیزاب پھینک دیا۔ 50 سالہ ماں بیٹی کو بچاتے بچاتے تیزاب کی زد میں آگئیں اور پھسل کر جاں بحق ہوگئیں۔
3 مارچ 2024ء کو کوچنگ سینٹر میں استاد نے طالبہ اور اس کے دو مرد رشتے داروں پر تیزاب پھینک دیا۔ عزیز بھٹی تھانہ کی رپورٹ کے مطابق استاد کو گرفتار کرلیا گیا۔ برن یونٹ سول اسپتال کی انچارج ڈاکٹر سامیہ کے مطابق تیزاب کے حملے سے لڑکی 13 فیصد جبکہ ان کے رشتے دار 14 فیصد تک جُھلس گئے۔
اسمائل اگین فاؤنڈیشن میں ہماری چند ایسڈ سروائیورز سے ملاقات ہوئی، ان میں سے ایک کنول حماد بھی ہیں۔ سابق شوہر نے کنول کے چہرے پر تیزاب پھینکا تھا۔ طلاق کے بعد جب وہ نوکری کے پہلے دن دفتر جانے کے لیے تیار ہورہی تھیں تب دروازے کی گھنٹی بجی، دروازہ کھولا تو سامنے ان کے سابق شوہر کھڑے تھے۔ وہ ابھی صورتحال سمجھنے کی کوشش ہی کرتیں کہ کنول پر تیزاب پھینک دیا گیا۔
آج اس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ کئی آپریشن، پلاسٹک سرجری سے گزرنے کے بعد وہ دوبارہ زندگی کی طرف آئی ہیں۔ دوسری شادی اور بچے زندگی میں ٹھہراؤ کا سبب بنے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں نوکری بھی کی۔ آج کنول پُراعتماد ہیں لیکن چہرے پر ہولناک حادثہ کے اثرات آج بھی واضح ہیں۔
ایسی ہی کہانی عثمان اور احمر کی بھی ہے جو اپنی بیویوں کو بچاتے ہوئے تیزاب گردی کا شکار بنے تھے۔ احمر نابینا ہوگئے اور ان کا چہرہ بھی بری طرح جھلسا۔ احمر کے ہونٹ ناک کی پلاسٹک سرجری جبکہ کئی جگہ بھی ڈرافٹنگ کی گئی جبکہ عثمان کی بھی ایک آنکھ اور چہرہ تیزاب سے بری طرح متاثر ہوا۔
سول اسپتال کے روتھ فاؤ برن سینٹر کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک کُل 12 ہزار 666 مریض اس سینٹر میں علاج کی غرض سے داخل ہوچکے ہیں۔ 34 ہزار 856 مریضوں کی سرجری جبکہ سینٹر کی او پی ڈی میں ایک لاکھ 48 ہزار 512 مریضوں نے علاج کروایا۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سامیہ تسلیم، ڈاؤ یونیورسٹی میں پلاسٹک سرجری کے شعبے سے منسلک ہیں اور برن سینٹر کی سربراہ بھی ہیں۔ ان کے مطابق 2023ء میں تیزاب سے جھلسنے اور جلنے والے مریضوں کی تعداد 29 تھی جن میں حادثاتی طور پر تیزاب سے جھلسنے والے مریض زیادہ تھے جبکہ 2024ء میں اب تک 6 مریض برن سینٹر میں آچکے ہیں جن میں سے زیادہ تر تیزاب گردی کے متاثرین ہیں۔
ڈاکٹر سامیہ نے مزید بتایا، ’برن سینٹر میں لائے گئے مریضوں میں گرم پانی، آگ، بجلی کے ساتھ ساتھ تیزاب سے جھلسنے والے مریض بھی شامل ہوتے ہیں جسے کیمیکل برن کہا جاتا ہے۔ کیمیکل برن مریضوں میں تیزاب یا الکلائین، دونوں سے جلنے والے شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں پورے پاکستان سے لوگ آتے ہیں لیکن زیادہ تر مریضوں کا تعلق کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہے‘۔
انہوں نے زور دیا، ’حادثاتی طور پر گھروں میں استعمال کے دوران تیزاب گر جانے کے واقعات ہماری اپنی غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ گھروں میں استعمال ہونے والا تیزاب کافی زیادہ تیز ہوتا ہے بالخصوص کھلے ملنے والے تیزاب کی تیزی یا شدت تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتی۔ پانی سے جلنے والے مریض کی جلد پر آبلے پڑ جاتے ہیں لیکن تیزاب کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ جس جگہ گرتا ہے وہاں جذب ہوجاتا ہے۔ پہلے پہل جلد، پھر چربی، ٹشو اور اس کے بعد پورا کا پورا پٹھا ہی اس کی شدت سے گَل جاتا ہے۔ ہمارے پاس اکثر مریض ایسے بھی آتے ہیں کہ جن کا پورا گوشت تیزاب سے گَل چکا ہوتا ہے اور ہڈی نظر آرہی ہوتی ہے۔ تیزاب کے حملوں میں مجرم کا ہدف چہرہ ہی ہوتا ہے جس سے آنکھیں، ناک اور کان ضائع ہوجاتے ہیں۔ ان مریضوں میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے جو پسند کی شادی یا شادی سے انکار، جائیداد میں حصہ نہ دینے اور ایسے ہی گھریلو جھگڑوں کے نتیجے میں تیزاب گردی کا نشانہ بنتی ہیں‘۔
ڈاکٹر سامیہ یاد کرکے بتاتی ہیں ’پچھلے سال اندرون سندھ کا ایک کیس ہمارے سامنے آیا جس میں سگے چچا نے بھتیجی اور بھابھی پر تیزاب پھینکا تھا۔ بچی نے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا لیکن ماں چند دن زیرِعلاج رہی۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ ان کی جان بچا لی جائے۔ ان کے جسم کے اعضا خاص کر ان کی چھاتی گَل کر میرے ہاتھ میں آگئی۔ یہ بات میں کبھی بھول نہیں سکتی۔
ایک اور کیس میں شوہر نے اپنی بیوی پر تیزاب پھینکا تھا لیکن وہ خاتون آج بھی اس ہی شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی سپورٹ سسٹم نہیں تھا۔ ان کے میکے سے کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ اکثر خواتین صرف اس لیے’ وکٹم’ ہوتی ہیں کیونکہ انہیں سماجی اور معاشی طور پر کسی کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر سامیہ نے علاج کے طریقہ کار کے حوالے سے بتایا کہ ’سب سے پہلے مریض کی جلد پر کام کیا جاتا ہے لیکن اگر کیمیکل سے زیادہ جھلس گیا ہے تو پہلے ٹشوز کی گرافٹنگ پر کام ہوگا جسے Tissue Flap Surgery کہتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک چھوٹی چیز ہے۔ تیزاب سے جلنے والے شخص کا کئی سالوں تک علاج چلتا رہتا ہے۔ جب مریض بہتر ہوجاتا ہے تو پھر انسانی آنکھ پلکیں بھویں، ناک اور کان بنائے جاتے ہیں۔ ایسے مریض عموماً اپنے متاثرہ اعضا کو زیادہ حرکت نہیں دیتے جس کی وجہ سے اعضا کے پھٹے اکڑ جاتے ہیں جن کے لیے contracture surgery کی جاتی ہے لیکن بات وہی ہے کہ ہم قدرتی خوبصورت چہرہ نہیں بنا سکتے نہ ہی اسے اس کی پرانی حالت میں واپس لاسکتے ہیں‘۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر وقاص سمیع پلاسٹک سرجن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس زیادہ تر وہ مریض آتے ہیں جن کے زخم بہتر ہوچکے ہوتے ہیں یعنی ہمارے پاس دوسرے اور تیسرے مرحلے کے مریض علاج کے لیے آتے ہیں۔ زیادہ تر کے پٹھوں کو بہتر کیا جاتا ہے ساتھ ہی پلکیں، بھنویں آنکھیں اور کان بنائے جاتے ہیں‘۔
ڈاکٹر وقاص سمجھتے ہیں کہ حادثے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ کون سا تیزاب تھا لیکن جب کوئی کسی پر حملہ کرتا ہے تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس قسم اور کس شدت کا تیزاب پھینکا گیا ہے۔
ڈاکٹر سامیہ اور ڈاکٹر وقاص دونوں کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو جیسے ہی تیزاب گرے، اس حصے پر اس طرح پانی ڈالا جائے کہ وہ پانی انسانی جسم پر گرنے کے بجائے زمین پر گرے کیونکہ پانی سے تیزاب کا اثر ہلکا ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہاتھ پر تیزاب گرا ہے تو جسم سے دور کرتے ہوئے ہاتھ پر کم از کم 20 سے 25 منٹ تک مسلسل پانی ڈالتے رہیں یا اگر آنکھ پر تیزاب گرا تو 20 منٹ تک مسلسل پانی ڈالتے رہیں تاکہ تیزاب کی شدت کم ہوجائے۔ اس کے بعد اس حصے پر موجود کپڑے کو کاٹ کر الگ کریں، واضح رہے کہ کپڑے کو کھینچنا نہیں ہے بلکہ کاٹنا ہے۔ اس کے بعد جتنا جلدی ہوسکے اسپتال پہنچیں۔
ڈاکٹر وقاص نے اہم بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر حملے میں کوئی الکائن کیمیکل استعمال کیا گیا ہے تو اس پر پانی نہیں ڈالا جاتا کیونکہ وہ الکائن پانی کے ساتھ مل کر تیزابی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس لیے اس پر پاؤڈر ڈال کر اس کی شدت کم کرنی چاہیے۔ سب سے بہتر یہی ہے کہ جلد سے جلد ڈاکٹر تک پہنچیں تاکہ فوری طور پر علاج شروع کیا جاسکے۔
ڈاکٹر سامیہ کے مطابق، ’جھلسنے کے نشانات ایک دم نہیں جاتے، انہیں جانے میں سالوں اور کبھی کبھی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ آپ کسی کا اصل چہرہ واپس نہیں لاسکتے نہ ہی کسی کی بینائی لوٹانا ہمارے بس میں ہے‘۔
’اکثر مریض شروع شروع کے دنوں میں اپنا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ کئی مریضوں نے بتایا ہے کہ کئی سالوں سے انہوں نے آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا۔ انہیں اپنے بچوں سے ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ انہیں تسلیم کرنے سے انکار نہ کردیں۔ اس سب کے نفسیاتی اثرات الگ پڑتے ہیں۔ ان متاثرین کی ری ہیبلیٹیشن بھی سالوں چلتی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرے کا حصہ بنانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ ایسے لوگوں بھیک تو دے دیتے ہیں لیکن نوکری نہیں دیتے اور نہ ہی انہیں اپنے ساتھ بٹھانا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے بگڑے چہروں کی وجہ سے وہ خوف محسوس کرتے ہیں۔
’برن سینٹر میں فزیو تھراپی، نیٹروجینسٹ اور ایکوپشنل تھراپی کی سہولیات موجود ہیں لیکن اکثر مریضوں کی معاشی حالت انہیں مہنگا اور طویل مدتی علاج کروانے کی اجازت نہیں دیتی لہٰذا اپنے طور پر ہم متعلقہ محکموں اور اداروں سے ان کا رابطہ کروا دیتے ہیں‘۔
بیرسٹر ڈاکٹر ہما سودھر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان پینل کوڈ 1860ء میں ’تیزاب اور آگ سے جھلسانے کے جرائم کے بل 2014ء‘ کے تحت تیزاب گردی سے جتنا نقصان ہوگا یعنی اگر کوئی عضو ضائع ہوگیا یا چہرہ متاثر ہوا یا حادثے کی وجہ سے انسانی جان چلی گئی تو قانون کے مطابق ان جرائم کی سزا دی جائے گی اور ساتھ ہی ان مقدمات کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے گا۔ تیزاب گردی اور آگ لگانے کی زیادہ سے زیادہ 7 سال جبکہ کم سے کم 3 سال قید با مشقت سزا ہے۔ ساتھ ہی مجرم کو 10 لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا‘۔