پی ایس ایل فیصلہ کُن مرحلے میں داخل، فائنل میں کونسی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی؟
پاکستان سپر لیگ کے نویں ایڈیشن کا گروپ مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ جمعرات سے کراچی کے نیشنل بینک ایرینا (سابقہ نیشنل اسٹیڈیم) میں پلے آف مرحلے کے میچز کا آغاز ہورہا ہے۔ اگرچہ گروپ اسٹیج میں ملتان سلطانز نے دس میچز میں 14 پوائنٹس حاصل کرکے اپنی برتری برقرار رکھی لیکن پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن کے باوجود اسے فائنل تک پہنچنے کے لیے آزمائش سے گزرنا ہوگا۔
پلے آف مرحلے کے پہلے میچ میں جمعرات کی شام دو سابقہ چیمپیئنز ملتان سلطانز اور پشاور زلمی کے آمنے سامنے ہوں گے۔ پشاور زلمی جس نے لیگ کا آغاز مایوس کن انداز میں کیا تھا لیکن چند ابتدائی میچز کے بعد اس نے خود کو سنبھال لیا اور اپنے جیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔ پشاور زلمی نے اگرچہ اپنے آخری تینوں میچز جیت کر پلے آف تک رسائی حاصل کی لیکن ان کی پوزیشن مستحکم کرنے میں کراچی کنگز نے بھی کردار ادا کیا جو کئی میچ جیت کے قریب پہنچ کر ہار گئی۔ پشاور کو شاید تیسری پوزیشن پر گزارا کرنا پڑتا، اگر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اپنا آخری میچ غیر سنجیدہ انداز میں نہ کھیلتی۔ لیکن پلے آف کی یقینی رسائی نے کوئٹہ کو سہل پسند بنادیا اور پشاور کو پوائنٹس ٹیبل کی پہلی دو ٹیموں میں جگہ مل گئی۔
اگر کہا جائے کہ پشاور زلمی کے خزانے میں بابراعظم تھا تو قسمت کی دیوی بھی ان پر مہربان تھی جس نے کئی میچز کے فیصلے اس وقت بدل دیے جب بازی حریف ٹیم کی ہاتھ میں تھی۔ کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے ساتھ اپنے آخری دو میچز میں پشاور زلمی کی شکست واضح تھی لیکن عرفان نیازی اور انور علی آخری دو رنز نہ لے سکے۔ ملتان سلطانز کے ساتھ میچ میں افتخار احمد کی دھواں دھار بیٹنگ کے باوجود جیت صرف 4 رنز سے چوک گئی۔ اور یوں پشاور زلمی دو میچز میں قریبی معاملہ ہونے کے باوجود پلے آف مرحلے میں پہنچ گئی۔ پشاور کی بہتر کارکردگی کا بوجھ بابراعظم نے اٹھایا اور اب تک وہ 498 رنز بنا کر پی ایس ایل نویں ایڈیشن میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے بلے باز ہیں۔
پی ایس ایل کے آغاز سے قبل کرکٹ کے تمام پاکستانی پنڈتوں اور موسمی تجزیہ کار لاہور قلندرز کو تیسری مرتبہ چیمپیئن بتارہے تھے۔ متوازن باؤلنگ اور بیٹنگ نے قلندرز کو تاجدار بنانے کی پیشنگوئی کردی تھی۔ اگر کچھ ابہام باقی تھا تو اسے شاہین شاہ آفریدی کی خوش قسمت کپتانی نے پورا کردیا تھا لیکن ہواؤں نے رخ بدلا اور جن کے سر پر فتح گری کا سایہ تھا ان کے چہروں کو سورج کی تپش نے جھلسادیا۔
لاہور قلندرز کی سب سے بڑی غلطی یا کمی اچھے اسپنر کی تھی۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور کوچنگ اسٹاف کے غلط فیصلوں نے لاہور کو لاڑکانہ بنادیا۔ بیٹنگ میں فخر زمان کی ناکامی کو فان ڈاسن رسی نے کسی حد تک پورا کیا لیکن باؤلنگ میں حارث رؤف اور زمان خان کی کمزوری کو شاہین شاہ آفریدی نہ سنبھال سکے۔ چیمپیئن کے دعویدار پورے سیزن میں بس ایک میچ ہی جیت سکے۔
یہی حال کراچی کنگز کا ہوا۔ پلیئرز ڈرافٹنگ میں غلطیوں نے ٹیم کا توازن تو خراب کیا ہی لیکن اس کے ساتھ کارکردگی کو بھی دباؤ میں لے لیا۔ عمر رسیدہ کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیم کو میدان میں اتارنے اور شان مسعود کو کپتان مقرر کرنے والے بھول گئے کہ شان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا۔ کیرن پولارڈ اور شعیب ملک نے ایک ایک میچ تو جتوایا لیکن 6 میچز میں بدترین کارکردگی سے شکستوں کا بوجھ بھی مسلط ہوتا رہا۔
پلیئنگ الیون بھی حریف ٹیم کی طاقت کو مدنظر رکھے بغیر بنائی گئی۔ شان مسعود خود ناکام رہے جبکہ جیمس ونس بھی توقعات پر پورے نہ اتر سکے۔ باؤلنگ میں میر حمزہ نے کئی بار عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کیا لیکن انور علی اور حسن علی چلے ہوئے کارتوس ثابت ہوئے۔
اس سیزن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے سب کو حیران کردیا۔ معین خان اور دوسرے کوچنگ اسٹاف کو فارغ کرکے شین واٹسن کی کوچنگ انقلابی تبدیلیاں لے کر آئی جس میں سب سے اہم سرفراز احمد کی کپتانی سے علیحدگی تھی۔ شین واٹسن نے ٹیم اونر ندیم عمر کی مشکل آسان کردی جو سخت فیصلے لینے سے گھبراتے تھے۔
جیسن روئے زیادہ کامیاب تو نہیں رہے لیکن شفٹ اوپنر سعود شکیل نے شاندار بیٹنگ کی۔ 323 رنز بناکر وہ صرف کامیاب اوپنر ہی نہیں رہے بلکہ ان کے غیرروایتی شاٹس نے سب کے دل بھی موہ لیے۔ روئلی روسو اور ردرفورڈ نے متعدد بار بروقت اسکور کرکے ٹیم کو پلے آف مرحلے تک پہنچایا۔
کوئٹہ کی سب سے اہم بات ان کی اسپن باؤلنگ تھی۔ عقیل حسین، ابرار احمد اور ڈیبیو کرنے والے عثمان طارق نے ہر جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ عثمان کا ایکشن رپورٹ ہوچکا ہے کیونکہ وہ گیند کرواتے ہوئے کچھ دیر رکتے ہیں اور پھر گیند پھینکتے ہیں۔
کوئٹہ کے لیے کھیلنے والے فاسٹ باؤلر عامر خان نے بھی مناسب باؤلنگ کی۔
اس سیزن پلے آف مرحلے میں اسلام آباد کی واپسی ہوئی ہے۔ اسلام آباد کی بیٹنگ اور باؤلنگ نے اہم میچ جیت کر اپنا راستہ بنایا۔ شاداب خان نے عمدہ بیٹنگ کی جبکہ کولن منرو کی چند اننگز نے ٹیم کو سہارا دیا۔ سلمان آغا، اعظم خان اور فہیم اشرف بھی وقتِ ضرورت اچھی بیٹنگ کرتے رہے۔ اسلام آباد بھی قسمت کی یاوری کا احسان مند رہے گی۔
سیزن کے خاموش ہیرو
اس سیزن میں کچھ کھلاڑی ایسے رہے جو خاموشی سے اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ ایسے ناموں میں ملتان کے عثمان خان سر فہرست ہیں۔ وہ پی ایس ایل کے پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ایک سیزن میں دو سنچریاں بنائیں۔ پانچ میچز میں 337 رنز بناکر وہ بابراعظم کے ساتھ ساتھ نظر آتے ہین۔
ملتان کے ریز ہینڈرک بھی خاموشی کے ساتھ ہر میچ میں اسکور کرتے رہے۔ لاہور قلندرز کے صاحبزادہ فرحان نے بھی ہر میچ میں اسکور کیا لیکن ٹیم کی شکستوں نے ان کی کارکردگی پر پردہ ڈال دیا۔ کوئٹہ کے خواجہ نافع اور کراچی کے عرفان نیازی کو اس سیزن کی دریافت کہا جاسکتا ہے۔
باؤلنگ میں ملتان کے محمد علی نئے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ نپی تلی فاسٹ باؤلنگ نے ملتان کو بہت مدد دی۔
اسپن باؤلنگ میں کوئٹہ کے ابرار احمد، پشاور کے عارف یعقوب، کوئٹہ کے مہران ممتاز، ملتان کے عثمان طارق اور فیصل اکرم نمایاں رہے۔ عارف یعقوب نے ایک اوور میں چار وکٹیں لے کر نیا ریکارڈ قائم کیا جبکہ عقیل حسین نے ہیٹ ٹرک کرکے اپنا نام نمایاں کھلاڑیوں کی فہرست میں درج کروایا۔
اس سیزن میں نئے اسپنر صائم ایوب دریافت ہوئے۔ انہوں نے کچھ میچز میں پہلا اوور کروایا اور ایلکس ہیلز جیسے مہان بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔
ایمرجنگ کھلاڑیوں کے طور پر اسلام آباد کے حنین شاہ، لاہور کے جہانداد خان نے خاصا متاثر کیا۔ جہانداد خان کو اگر مواقع ملیں تو پاکستان کو ایک اور عبدرزاق مل سکتا ہے۔ مہران ممتاز نے شاندار اسپن باؤلنگ کی لیکن انہیں بہت کم مواقع مل سکے۔
پی ایس ایل کا تاج کس کے سر سجے گا؟
چاروں ٹیمیں تاجدار بننے کی آخری دوڑ میں کمر کس چکی ہیں۔ چاروں بہت اچھی فارم میں ہیں اور اپنے بہترین کھلاڑیوں سے لیس ہیں۔ کراچی میں موسم ابر آلود ہے جبکہ تیز سمندری ہوائیں چل رہی ہیں۔ آخری دو میچز نے کراچی کی پچز پر اسپنرز کو بہت مدد دی ہے۔
اگر کسی استعمال شدہ پچ پر پہلا میچ کھیلا گیا تو عارف یعقوب اور اسامہ میر حریف ٹیم کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔
ملتان اور پشاور کے میچ میں ماہرین پشاور کو بابراعظم کی بہترین فارم کے باعث فیورٹ قرار دے رہے ہیں جبکہ جمعہ کو دوسرے پلے آف میں کوئٹہ کو اسلام آباد پر ترجیح دی جارہی ہے۔
کوئٹہ کی باؤلنگ بہت عمدہ ہے اور یقینی طور پر یونائیٹڈ کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے۔ عثمان طارق کے چار اوورز میچ کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
اگر میچز کا فیصلہ توقعات اور تجزیوں کے مطابق ہوا تو پیر 18 مارچ کو کراچی کے نیشنل بینک ایرینا میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی آمنے سامنے ہوسکتے ہیں۔
اگر ایسا ہوا تو شاید کوئٹہ دوسری مرتبہ چیمپئن بن جائے لیکن ملتان سلطانز کی انتہائی متوازی ٹیم سارے تجزیوں کو ناکام ثابت کرسکتی ہے۔
تو کلیجہ تھام کر بیٹھیے اور انتظار کیجیے ان چار سنسنی خیز میچز کا، جہاں ایک جانب کھلاڑیوں کی ناقابلِ فراموش کارکردگی ہوگی تو دوسری جانب مداحوں کا جوش و خروش بھی عروج پر ہوگا۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔