وزیراعظم کے انتخاب کی آنکھوں دیکھی داستان
3 مارچ اتوار کو شہباز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن ان کے انتخاب کے وقت قومی اسمبلی میں جتنا شورشرابا برپا تھا، سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے ایام میں یہ شور تھم سکے گا یا اسی طرح جاری رہے گا؟
واقعات کا تذکرہ کرنے سے پہلے 18 اگست 2018ء میں اس وقت چلتے ہیں جب وزیراعظم کا انتخاب ہورہا تھا۔ اس وقت بھی حالات یہی کچھ تھے، مگر فرق صرف یہ تھا کہ شہباز شریف کی جگہ عمران خان تھے اور نعرے لگانے والی مسلم لیگ (ن) کے اراکین تھے۔
اس بار قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور دیگر جماعتوں کے اراکین میں کچھ نئے چہرے نظر آتے ہیں لیکن بیشتر وہی پرانے چہرے ہیں جن پر ان کی جماعتیں اور حلقے کے ووٹرز مہربان ہیں اور پہلے بھی انہیں منتخب کرکے اس ایوان میں اپنا نمائندہ بناکر بھیج چکے ہیں۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکینِ اسمبلی کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے چہروں اور ناموں سے پارلیمان کے رپورٹرز بھی انجان نظر آئے۔ جیسے جیسے قومی اسمبلی کے اجلاس ہوں گے اور ان اراکین کی جانب سے ایوان میں تقاریر ہوں گی تو صحافی بھی ان کے اسمِ گرامی سے واقف ہوتے جائیں گے۔ لہٰذا فوری طور پر نام کے ساتھ یہ بتانا مشکل ہے کہ کون سا رکن اپوزیشن بینچز سے ایجنڈے کی کاپیاں جمع کرتا رہا، اسپیکر روسٹرم کے سامنے ہونے والے احتجاج میں کاپیاں پھاڑتا رہا اور وزیراعظم شہباز شریف اور نواز شریف کی طرف کاپیاں اُچھالتا رہا۔
اپنے حلف سے لے کر وزیراعظم کے انتخاب تک، پی ٹی آئی المعروف سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے جس طرح احتجاج کا سلسلہ شروع کیا، لگتا یہی ہے کہ یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہے گا۔ ان کی صفوں میں سینئیر پارلیمانی رہنماؤں کی تعداد کم اور ہارڈ لائنر کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث اس بات کے بھی خدشات نظر آتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں معاملہ صرف نعرے بازی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے آگے بھی جاسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی کے حالیہ تینوں اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کے احتجاج کے دوران اپنی قیادت کو حصار میں لیے رکھا کہ کہیں کوئی ہارڈ لائنر ان پر حملہ ہی نہ کردے۔
پریس گیلری سے اجلاس کا آنکھوں دیکھا حال
وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت 11 بجے مقرر تھا۔ پانچ سال پہلے کی طرح اس مرتبہ مہمانوں کے لیے مختص اوپر والی گیلریز بھری ہوئی نہیں تھیں۔ اراکین ساڑھے 11 بجے کے بعد آہستہ آہستہ ایوان میں آتے نظر آئے۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے اپنی نشستوں کے سامنے ڈیسک پر عمران خان کی تصاویر والے پوسٹرز رکھ دیے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں نے بھی ایسا ہی کیا۔
11 بج کر 53 منٹ پر ایوان میں نواز شریف اور شہباز شریف ایک ساتھ داخل ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی نے اپنے روایتی انداز میں ’شیررررررر‘ کا نعرہ لگایا جبکہ سنی اتحاد کونسل نے جواباً ’شیم‘ کا نعرہ لگایا اور اسی لمحے اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ نواز شریف، خورشید شاہ، یوسف رضا گیلانی اور دیگر سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنی نشست پر براجمان ہوئے۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے اسپیکر روسٹرم کے نیچے سیکریٹری اسمبلی اور اس کے اسٹاف کے روسٹرم کے قریب آگئے اور نواز شریف کے سامنے کھڑے ہوکر شدید نعرے بازی کی جبکہ دیکھنے اور سننے والوں کے حلق خشک ہوگئے لیکن جوش ٹھنڈا نہیں ہوا۔
نعرے بازی کے اس سلسلے کے درمیان صرف دوبار وقفہ آیا۔ پہلا وقفہ اجلاس کے آغاز کے وقت آیا جب تلاوت کلام پاک اور قومی ترانہ پڑھنے کا وقت تھا جبکہ دوسرا وقفہ وزیراعظم کے انتخاب کے وقت آیا جب اراکین کو اپنے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے دو الگ الگ لابیز میں بھیجا گیا۔ دونوں اطراف کے اراکین قومی اسمبلی اپنی اپنی لابیز میں چلے گئے۔ ایوان میں صرف اختر مینگل اکیلے بیٹھے رہے جبکہ پیپلزپارٹی کے نواز یوسف تالپور کو علالت کے باعث اسمبلی عملہ شہباز شریف کے لیے مختص کردہ لابی کے سامنے لے گیا۔ انہوں نے اپنا نام درج کروایا اور وہیں سے واپس ایوان آگئے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کا کوئی رکن ایوان میں موجود نہیں تھا۔
ایوان میں ’مینڈیٹ چور‘ اور ’گھڑی چور‘ سمیت بیشتر نعرے سننے کو ملے۔ سنی اتحاد کونسل کے رکن جمشید دستی ہاتھ میں چھوٹا سا آئینہ پکڑے نواز شریف اور شہباز شریف کو دکھاتے رہے، نعرے مارتے اور دو انگلیاں منہ میں دبا کر سیٹیاں بھی بجاتے رہے۔ نعرے مارنے میں فیصل آباد سے منتخب سنی اتحاد کونسل کے رکن نثار جٹ بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے، شاندانہ گلزار اور دیگر خواتین کی آوازیں بھی ایوان میں گونج رہی تھیں۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے وہ اراکین جنہوں نے اپنی قیادت کو حصار میں لے رکھا تھا، جوابی نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ ایک دو مراحل پر تلخی زیادہ بڑھ گئی اور اس سے پہلے کہ معاملہ ہاتھاپائی تک جاتا، اسمبلی کا سیکیورٹی عملہ درمیان میں آگیا۔
ابتدا میں جب نعرے بازی شروع ہوئی تو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سنی اتحاد کونسل کے اراکین اسد قیصر، عمر ایواب اور عامر ڈوگر کو مسلسل پکارا کہ وہ اپنے اراکین کو خاموش کروائیں لیکن جن اراکین کو اسپیکر پکار رہے تھے انہوں نے فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف ایک بینر اٹھایا ہوا تھا اور نعرے بازی کرنے والے اپنے ساتھی اراکین سے چند فٹ دور کھڑے تھے۔
اسی شور میں اسپیکر نے وزیراعظم کے انتخاب کے طریقہ کار کا اعلان کیا لیکن اس بار وہ قواعد کے تحت ایوان میں غیرموجود ارکان کو بلانے کے لیے گھنٹیاں بجوانا اور لابیز کے دروازے بھی بند کروانا بھول گئے۔ شور سے تنگ آکر نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، خورشید شاہ اور دیگر نے اپنے کانوں پر ہیڈ فون لگا لیے۔ اسپیکر نے اعلان کیا کہ دائیں طرف کی لابی میں شہباز شریف کو ووٹ دینے والے ووٹرز جائیں جبکہ بائیں طرف کی لابی میں عمر ایوب کے ووٹرز جائیں۔ اعلان ہوتے ہی 12 بج کر 29 منٹ پر نواز شریف اور شہباز شریف لابی کی طرف روانہ ہوئے اور ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے اراکین بھی ان کے ساتھ لابی کی جانب بڑھنے لگے۔ امیدواروں کے لیے الاٹ کی ہوئی لابیز کے داخلی پوائنٹ پر اسمبلی عملہ ایک ایک رکن کا نام درج کرتا اور یہ ارکان لابی کے اندر جاکر بیٹھ جاتے جہاں پہلے سے ہی ان کی خاطر تواضع کا سامان موجود تھا۔
مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور دیگر اتحادی آہستہ آہستہ جاتے رہے لیکن سنی اتحاد کونسل کے اراکین ایوان میں موجود رہے اور شدید نعرے بازی کرتے رہے۔ اس دوران یوسف رضا گیلانی، طارق فضل چوہدری اور دیگر رہنما اختر مینگل کو ووٹ دینے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔ کچھ دیر بعد اختر مینگل اپنی نشست سے اٹھے اور سرکاری بینچز پر موجود بلاول بھٹو سے ملے، بلاول بھٹو آگے بڑھے اور ان سے مصافحہ کیا، دونوں نے کچھ دیر بات کی اور اس کے بعد اختر مینگل اپنی نشست پر واپس آگئے، انتخاب ختم ہونے تک اپنی نشست پر بیٹھے رہے اور ووٹنگ کا حصہ نہیں بنے۔
ایک بج کر 18 منٹ تک تمام اراکین لابیز میں جاچکے تھے جبکہ ایوان اور گیلریز میں لوگوں کو کچھ دیر کے لیے سکون کا سانس لینے کا موقع ملا۔ ایک بج کر 32 منٹ تک گنتی مکمل ہوئی اور اسپیکر نے اراکین کو لابی سے ایوان میں آنے کی ہدایت دی۔ جیسے ہی اراکین ایوان میں آنا شروع ہوئے تو سنی اتحاد کونسل نے ایوان میں آتے ہی ایک بار پھر نعرے بازی شروع کردی۔ اس بار ان کے نعروں میں شدت تھی کیونکہ وہ ریفریشمنٹ کرکے واپس آئے تھے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے روبرو ایک بار پھر شدید نعرے بازی جاری تھی اور اسی شور شرابے میں اسپیکر نے نتائج کا اعلان کیا۔
شہباز شریف کو 201 جبکہ عمر ایوب کو 92 ووٹ ملے۔ یوں اسپیکر نے شہباز شریف کو قائدِ ایوان کی نشست سنبھالنے کی دعوت دی لیکن شہباز شریف نے نتائج کا اعلان ہوتے ہی پہلے نواز شریف سے بغل گیر ہوئے۔ اس کے بعد وہ اپنی نشست سے اٹھے اور آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر قیادت سے ان کی نشستوں پر جاکر ملے اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد انہوں نے قائد ایوان کی نشست سنبھالی اور اپنا خطاب شروع کیا۔ لیکن اس پورے منظرنامے میں نواز شریف کچھ غیرآرام دہ نظر آئے، ان کے خلاف ہونے والی نعرے بازی کا غصہ ان کے چہرے کے تاثرات سے واضح محسوس کیا جاسکتا تھا۔
پانچ برس پہلے بالکل ایسا ہی ہوا تھا جیسے اب ہورہا تھا۔ اس وقت عمران خان تھے، آج شہباز شریف تھے، اس بار بھی شہباز شریف کی تقریر میں ہر ممکن کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی جیسے پانچ سال پہلے مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے منتخب ہونے کے بعد کیا تھا۔ پیپلزپارٹی اس وقت بھی سکون سے سب کچھ دیکھ رہی تھی، اس بار بھی ایسا ہی تھا لیکن اس بار نعرے لگانے والے تھک نہیں رہے تھے۔ شہباز شریف بھی مکمل تیاری سے آئے تھے اور وہ نعرے لگانے والوں کو تھکانا چاہتے تھے۔
دونوں طرف جوش تھا، کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طویل تقریر کو ایوان کی ایک بڑی اکثریت اس لیے نہیں سن پائی کیونکہ سنی اتحاد کونسل کے نعروں کا شور وزیراعظم کے خطاب پر حاوی تھا۔ اگرچہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین فارم ’47 والا وزیراعظم نامنظور‘، ’مریم کے پاپا چور ہیں‘، ’دیکھو دیکھو کون آیا چور آیا چور آیا‘ کے نعرے لگاتے رہے لیکن وزیراعظم نے پورا وقت لے کر اپنی تقریر مکمل کی۔
وزیراعظم کی تقریر ختم ہوتے ہی آصف علی زرداری نے ایوان سے نکلتے ہوئے راستے میں ایم کیو ایم کے رکن وسیم احمد کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ کی اور باہر چلے گئے۔ اسی دوران نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان سے چلے گئے۔ اب عمر ایوب کی تقریر کی باری تھی، اس بار مسلم لیگ (ن) کی خواتین اور مرد اراکین اسمبلی عمر ایوب کے سامنے آکر نعرے بازی کرنے لگے۔ اس دوران شیر افضل مروت بھی مسلم لیگ (ن) کی خواتین اراکین کے درمیان کھڑے ہوکر نعرے لگانے لگے تو عطا تارڑ اور دیگر اپنی جماعت کی خواتین اراکین کے قریب آگئے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکے۔ عمر ایوب کی تقریر کے دوران مسلم لیگ (ن) نعرے بازی کرتی رہی لیکن اس کام میں وہ سنی اتحاد کونسل کو مات نہ دے سکے۔
اس بار پارلیمانی رہنماؤں کو خطاب کا موقع نہیں دیا گیا جیسے پانچ سال پہلے بلاول بھٹو زرداری، اختر مینگل یا ایم کیو ایم کو دیا گیا تھا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم حکومت کے اتحادی ہیں۔
پانچ سال پہلے جب اسد قیصر اسپیکر بنے تھے تب وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے شور سے تنگ آکر انہوں نے اجلاس پندرہ منٹ کے لیے مؤخر کردیا تھا لیکن اس بار ایاز صادق نے ابتدا میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن بعد میں ایک بار بھی نہیں کہا کہ شور نہ کریں کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ یہ ان کی بات نہیں مانیں گے۔
پانچ سال پہلے مسلم لیگ (ن) دھاندلی کا رونا رو رہی تھی پانچ سال بعد پی ٹی آئی چیخ رہی ہے لیکن بدلتے کرداروں کے ساتھ ایک طرح کی کہانی نے اب پاکستان کے عوام کو بیزار کردیا ہے۔ دائرے میں ہوتا یہ سفر ختم ہی نہیں ہورہا۔
عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔