نقطہ نظر

ٹرن آؤٹ سے مسترد شدہ ووٹوں تک، عام انتخابات 2024ء کیسے رہے؟

پاکستان کے 12ویں عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا جہاں رجسٹرڈ ووٹرز کے محض 47.90 فیصد نے اپنے نمائندوں کے انتخاب میں حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔
| |

ایک جانب جہاں سیاسی جماعتیں وفاق اور صوبوں میں حکومت بنانے کی رسہ کشی میں مصروف نظر آتی ہیں وہیں دوسری جانب کچھ حلقوں سے یہ بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر عام انتخابات کیسے رہے؟ 8 فروری کو کتنے پاکستانیوں نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا؟ اور جہاں ووٹر ٹرن آؤٹ توقع کے مطابق کم رہا، کیا ایسے حلقوں کے کامیاب امیدواروں کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حلقے کے تمام افراد کی نمائندگی کرتے ہیں؟

سیاسی تجزیہ کار احمد بلال محبوب کے مطابق سیاسی نظام میں جمہوریت کی صحت جانچنے کا اہم ذریعہ ووٹر ٹرن آؤٹ ہے بالکل اسی طرح جس طرح انسانی صحت جانچنے کا بلڈ پریشر ہے۔

قومی اسمبلی کی 264 نشستیں جن کے نتائج کا اعلان الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کیا گیا، ڈان کی جانب سے ان حلقوں کے فارم 47 کے کیے گئے ایک تجزیے کے مطابق پاکستان کے 12ویں عام انتخابات میں کُل 6 کروڑ 8 لاکھ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ 2018ء میں 5 کروڑ 48 لاکھ پاکستانیوں نے ووٹ ڈالا تھا جبکہ 2018ء کے مقابلے میں 2024ء میں تقریباً 60 لاکھ سے زائد ووٹرز نے ووٹ کی طاقت کا استعمال کیا۔

ووٹر ٹرن آؤٹ کے علاوہ فارم 47 میں موجود ڈیٹا، دو دیگر اہم نکات پر بھی روشنی ڈالتا ہے جن سے ہمیں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد اور ہر حلقے میں خواتین اور مرد ووٹرز کے درمیان تفاوت کا تجزیہ کرنے میں بھی مدد ملی اور ان تجزیات کے نتائج ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں۔

ووٹرز نے ووٹ کے حق کا استعمال نہیں کیا

مہینوں کے سیاسی عدم استحکام، مخالفین پر تشدد سمیت تمام ان الزامات کے باوجود کہ کامیابی کا فیصلہ تو پہلے ہی کیا جاچکا ہے، 8 فروری کو کروڑوں پاکستانیوں نے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشنز کا رخ نہیں کیا۔ اعداد سے ظاہر ہوا کہ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کے صرف 47.8 فیصد نے ووٹ ڈالا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تناسب مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کا نصف فیصد بھی نہیں۔ تو یہ کہنا درست ہوگا کہ حالیہ انتخابات میں ملک کے نصف سے زائد اہل ووٹرز نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔

حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں سابق سینیٹر جاوید جبار نے لکھا کہ ’انتخابات کی ساکھ کو مثبت رکھنے کے لیے ووٹر ٹرن آؤٹ کم سے کم 75 فیصد ہونا چاہیے جوکہ زیادہ تر جمہوریتوں میں آئینی ترمیم کے لیے درکار مارجن کے برابر ہے‘۔

پاکستان کا جمہوری عمل، آئین میں ترمیم لانے کے لیے اسمبلی میں تمام منتخب نمائندوں کی دو تہائی اکثریت کی توثیق کو لازمی قرار دیتا ہے۔ ووٹر ٹرن آؤٹ ان افراد کا تعین کرتا ہے جو قانون سازی کے عمل میں عوام کی نمائندگی کریں گے، یہ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں مسلسل 60 فیصد سے نیچے رہا ہے اور کبھی بھی یہ 75 فیصد کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔

کم ووٹر ٹرن آؤٹ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پورے پاکستان (پنجاب کے علاوہ جہاں ووٹر ٹرن آؤٹ 51 فیصد رپورٹ ہوا) میں ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے کم رہا۔ بلوچستان میں ٹرن آؤٹ سب سے کم یعنی 41 فیصد ریکارڈ کیا گیا، سندھ میں ٹرن آؤٹ 43.6 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا میں ٹرن آؤٹ 44 فیصد رہا۔

تمام 264 حلقوں میں این اے 214 تھرپارکر-I میں سب سے زیادہ 70.9 فیصد ووٹ ڈالے گئے جبکہ سب سے کم جنوبی وزیرستان میں 16 فیصد ریکارڈ کیے گئے۔ کم ترین نہ ہونے کے باوجود این اے 236 کراچی شرقی-II (24.93 فیصد) اور این اے 241 کراچی جنوبی (23 فیصد) میں غیر متوقع طور پر کم ٹرن آؤٹ رہا۔

پولنگ اسٹیشنز پر پُرتشدد واقعات کا خوف بھی ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہونے کی ایک وجہ ہے۔ این اے 236 کے ووٹر طلحہ سعید نے کہا کہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرپائے کیونکہ دوپہر ایک بجے فائرنگ کے باعث ان کا پولنگ اسٹیشن بند کردیا گیا تھا۔

حالانکہ کراچی کے بیشتر پولنگ اسٹیشن کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حساس قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود ایسا واقعہ رونما ہوا۔ جبکہ انتخابی عمل میں پولیس اور رینجرز کی بڑی تعداد کی بھی خدمات حاصل کی گئی تھیں تاکہ انتخابی عمل پُرامن طریقے میں مکمل ہوسکے۔

ایسا نہیں تھا کہ انتخابی عمل کو آسان بنانے کے لیے رقم نہیں دی گئی۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے 42 ارب روپے کا بجٹ دیا گیا تھا جس کا مطلب ایک رجسٹرڈ ووٹر کے لیے 329.51 روپے مختص کیے گئے تھے۔

ٹیکس دہندگان کے فنڈز سے کی جانے والی سرمایہ کاری اور ایک سال سے تیاری کے باوجود الیکشن کمیشن تمام ووٹرز کو سہولیات مہیا کرنے میں ناکام رہا۔ ہم نے ذاتی طور پر این اے 238 کے پولنگ اسٹیشن میں مشاہدہ کیا کہ وہاں بزرگ اور معذور شہریوں کو ووٹ ڈالنے کی خصوصی سہولیات کا فقدان تھا۔

الیکشن کمیشن نے 8300 ہیلپ لائن بھی تشکیل دی جس پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر ووٹرز اپنے متعلقہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں، پولنگ اسٹیشنز اور سلسلہ نمبر کی تمام معلومات موصول کرسکتے تھے۔ بدقسمتی سے انتخابی دن سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر موبائل فون سروسز بھی معطل تھیں۔ وہ لوگ جو 8300 پر ایک دن پہلے میسج نہیں بھیج پائے، وہ اپنی پولنگ تفصیلات سے لاعلم رہے جس کا انہیں نقصان ہوا جبکہ بہت سے لوگ اس سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کرپائے۔

الیکشن کمیشن کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی بڑی تعداد نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔

خواتین کا ووٹر ٹرن آؤٹ کتنا رہا؟

2018ء میں مجموعی طور پر خواتین کا ٹرن آؤٹ 46.89 تھا جبکہ رواں سال کے عام انتخابات میں یہ تناسب کم ہوکر 41.3 تک پہنچ گیا۔ جبکہ اس کے برعکس 2018ء کے مقابلے میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 56.01 تھا جوکہ رواں سال بڑھ کر 58.7 فیصد تک پہنچ گیا۔ یوں مردوں اور خواتین کے درمیان فرق 17.4 فیصد پوائنٹس تک بڑھ گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں ایک کروڑ 2 لاکھ 20 ہزار کم خواتین نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔

2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے ملک بھر میں 98 ضمنی انتخابات ہوچکے ہیں، خواتین کے کم ٹرن آؤٹ کا رجحان ان تمام حلقوں میں تواتر سے دیکھنے میں آیا جہاں مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کا 40 فیصد خواتین ووٹرز تھیں، یعنی ہر انتخاب میں 20 لاکھ کم خواتین نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔

ریاست نے خواتین ووٹرز کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کیے جن میں سے ایک الیکشن ایکٹ 2017ء کا سیکشن 9 ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کسی حلقے میں ڈالے گئے کُل ووٹوں کے 10 فیصد سے کم ہے تو الیکشن کمیشن یہ کہہ سکتا ہے کہ متعلقہ حلقے میں خواتین ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے اور وہ ایک یا ایک سے زائد پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ یا پورے حلقے میں الیکشن کو کالعدم قرار دے سکتا ہے۔

2018ء کے انتخابات میں شمالی وزیرستان کے قریب واقع شانگلہ میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم ہونے کے باعث الیکشن کمیشن نے انتخاب کو کلعدم قرار دے دیا تھا۔ حالیہ انتخابات میں قومی یا صوبائی اسمبلی کے کسی بھی حلقے میں کاسٹ کیے گئے مجموعی ووٹوں میں خواتین کے ووٹ 10 فیصد سے کم ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

این اے 13 بٹگرام میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں خواتین کے سب سے کم ووٹ یعنی 18.8 فیصد رپورٹ ہوئے۔ دوسری جانب سب سے زیادہ این اے 1 اپر چترال/لوئر چترال میں دیکھے گئے جہاں مجموعی ووٹوں میں خواتین کے ووٹوں کا تناسب 49.5 فیصد رہا۔

تاہم الیکشن ایکٹ کی اس شق سے خواتین ٹرن آؤٹ کی ایک غلط تشریح سامنے آتی ہے۔

بنیادی طور پر یہ شق کُل ووٹوں میں سے خواتین کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب پر توجہ دیتی ہے جس کی وجہ سے اکثر خواتین ٹرن آؤٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس شق پر نظرثانی کرتے ہوئے خواتین کے ووٹر ٹرن آؤٹ کو کُل رجسٹرڈ خواتین اور انتخابی دن ووٹ ڈالنے والی خواتین کے تناسب سے دیکھا جائے۔

مردوں کے مقابلے میں خواتین کے رجسٹرڈ ووٹوں کا کم تناسب انتخابی عمل میں خواتین کی کم شرکت کی وجہ بھی بن سکتا ہے لیکن اس سب کے باوجود چند حلقوں میں خواتین ووٹرز کا تناسب مردوں سے زیادہ بھی دیکھا گیا۔

این اے 1 چترال میں مردوں کے 49.8 فیصد کے مقابلے میں 57.2 فیصد رجسٹرڈ خواتین ووٹرز نے ووٹ کے حق کا استعمال کیا۔ اسی طرح این اے 63 گجرات-II میں خواتین ووٹرز کا تناسب 51.8 فیصد جبکہ مردوں کا 50.2 فیصد رہا۔

لاہور کے حلقہ این اے 128 میں ووٹ ڈالنے والے رجسٹرڈ مرد اور خواتین ووٹرز کا تناسب تقریباً برابر رہا (مرد 56.48 فیصد جبکہ خواتین 56.02 فیصد تھیں)۔ اسی طرح این اے 139 پاکپتن-I میں 52.13 فیصد مردوں اور 52.10 فیصد خواتین نے ووٹنگ عمل میں حصہ لیا۔ این اے 178 مظفر گڑھ-IV میں یہ تناسب تقریباً برابر رہا (53.7 مردوں جبکہ 53.03 خواتین نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا)۔

تھر کی خواتین نے ایک بار پھر اپنے زبردست ٹرن آؤٹ سے مثال قائم کی، این اے 214 تھرپارکر-I میں 72.8 فیصد جبکہ این اے 215 تھرپارکر- II میں 67.7 فیصد خواتین نے ووٹ ڈالا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی تھرپارکر کی خواتین کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا تھا۔

دو دیگر حلقے جہاں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کے 60 فیصد سے زائد خواتین نے ووٹ ڈالا ان میں این اے 92 بھکر- II (63 فیصد) اور این اے 165 بہاولپور- II (62.6 فیصد) شامل ہیں۔

اگرچہ یہ تعداد، مثبت پیشرفت کو ظاہر کرتی ہے لیکن زیادہ تر اعدادوشمار دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔ تمام حلقوں میں مرد ووٹرز کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ کم از کم 12 حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 20 فیصد یا اس سے کم رہا۔ اس کے برعکس دیکھا جائے تو کسی بھی حلقے میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 20 فیصد سے کم نہیں تھا۔

این اے 42 جنوبی وزیرستان میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 9.21 فیصد ریکارڈ کیا گیا جوکہ پورے ملک میں سب سے کم تھا۔ دیگر حلقوں جہاں خواتین ووٹرز کا تناسب 20 فیصد یا اس سے کم رہا، ان میں این اے 27 خیبر، این اے 13 بٹگرام، این اے 4 سوات-III، این اے 11 شانگلہ، این اے 36 ہنگو/اورکزئی، این اے 26 مہمند، این اے 3 سوات- II، این اے 263 کوئٹہ-II اور این اے 30 پشاور-III شامل ہیں۔

کراچی کے دو حلقوں این اے 236 (ضلع شرقی) این اے 241 (ضلع جنوبی) میں غیرمتوقع طور پر خواتین کا ٹرن آؤٹ بالترتیب 15.7 فیصد اور 20.3 فیصد رہا۔

ایسے 26 حلقے تھے جہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ 21 سے 30 فیصد کے درمیان ریکارڈ کیا گیا۔ کراچی کے 4 حلقے بھی ان میں شامل تھے جس نے شہر کی خواتین کے سیاسی طور پر متحرک ہونے پر کئی سوالات کھڑے کیے ہیں۔

الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن نے درج ذیل حلقوں میں صنفی اعتبار سے ووٹ کی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں جن میں این اے 19 صوابی، این اے 46 اسلام آباد-I، این اے 50 اٹک-II، این اے 64 گجرات، این اے 87 خوشاب، این اے 154 لودھراں-I، این اے 266 قلعہ عبداللہ/چمن شامل ہیں، لہٰذا ان حلقوں کو اس تحقیقی تحریر میں شامل نہیں کیا گیا۔

مسترد شدہ ووٹوں کی کہانی

کسی بھی جمہوری عمل کی سالمیت اس بات پر منحصر ہے کہ کاسٹ کیے گئے تمام ووٹوں کو گنتی میں شامل کیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی انتخابی تاریخ میں اس جمہوری اصول کو کمزور کیا جاتا ہے۔ 2024ء کے حالیہ انتخابات میں سامنے آنے والے حقائق بھی کچھ مختلف نہیں تھے۔ قومی اسمبلی کی 264 نشستوں میں ہوئے انتخابات میں تقریباً 20 لاکھ ووٹوں کو مسترد کیا گیا۔

یہ تعداد تشویش پیدا کرتی ہے، گیلپ پاکستان ڈیٹا اینالٹکس ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ ڈالے گئے کُل ووٹوں میں سے مسترد ووٹوں کا تناسب گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ نہ صرف جمہوری نمائندگی کو چیلنج کرتا ہے بلکہ پاکستان کے انتخابی طریقہ کار کی افادیت اور اس کے جمہوری مستقبل کے وسیع تر اثرات کے حوالے سے بھی سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔

کامیاب امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں سے زیادہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد

قومی اسمبلی کے 24 حلقوں میں کامیاب امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد مسترد شدہ ووٹوں سے کم رہی۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ان میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف اضلاع شامل ہیں۔

پنجاب کے حلقہ این اے 59 تلہ گنگ/چکوال میں سب سے زیادہ مسترد ووٹ ریکارڈ کیے گئے۔ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار غلام عباس ایک لاکھ 41 ہزار 680 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد رومان احمد نے ایک لاکھ 29 ہزار 716 ووٹ حاصل کیے۔ جیت کا مارجن 11 ہزار 964 رہا جبکہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 24 ہزار 547 رپورٹ کی گئی۔ اس کے بعد این اے 213 عمرکوٹ ہے جہاں 17 ہزار 571 ووٹ مسترد ہوئے۔ 137 کے قریب اضلاع میں 5 سے 10 ہزار کے درمیان مسترد ووٹ رپورٹ ہوئے۔

اگر فیصد کے لحاظ سے بات کریں تو این اے 255 صحبت پور/جعفر آباد میں 8.1 فیصد کے ساتھ مسترد ووٹوں کا تناسب سب سے زیادہ رہا۔ اسی طرح این اے 196 قمبر-شہادت کوٹ میں 7.1 فیصد ووٹوں کو مسترد قرار دے کر گنتی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔

گراف میں 264 حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کو تقسیم کیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر ووٹ 1 سے 4 فیصد کی حد میں آتے ہیں۔

بالخصوص کچھ حلقوں میں یہ 5 سے 9 فیصد کے درمیان بھی رہا۔ یہ تفاوت ان مخصوص اضلاع میں ضائع ہونے والے ووٹوں کی بڑی تعداد میں کن عوامل نے کردار ادا کیا، اس حوالے سے خدشات کو جنم دیتا ہے۔ ان حلقوں میں آخر ہوا کیا؟

تشویشناک اعداد وشمار

بعض حلقے جیسے این اے 255 صحبت پور/جعفر آباد، این اے 196 قمبر-ایس، این اے 191 جیکب آباد کشمور، این اے 59 تلہ گنگ، این اے 151 ملتان-IV، این اے 198 گھوٹکی، این اے 190 جیکب آباد، این اے 213 عمرکوٹ میں واضح طور پر مسترد شدہ ووٹوں کی شرح بلند رہی۔

متعلقہ اعداد و شمار کی روشنی میں، بالخصوص ان 15 حلقوں کے معاملے میں یہ اخلاقی اور جمہوری ضرورت بن جاتی ہے کہ مسترد شدہ ووٹوں کی بڑھتی ہوئی گنتی کے اسباب کو حل کیا جائے۔ مسترد شدہ ووٹوں کی حیران کُن تعداد مطالبہ کرتی ہے کہ اس حوالے سے فوری جانچ اور کارروائی کی جائے۔

عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے صحافی اللہ بخش آریسرار نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے پریزائیڈنگ افسر سے مسترد شدہ ووٹوں کی بڑی تعداد کی وجوہات دریافت کیں۔

ایک وجہ جو سامنے آئی وہ کمزور نظر والے ووٹرز کو انتخابی نشانات کی شناخت میں پریشانی کا سامنا تھا۔ مثال کے طور پر وہ اکثر تیر اور برش، سفید مور اور ہرے مور، یا بھیڑیے اور شیر کو پہچاننے میں وہ پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب ایک جیسے نظر آنے والے انتخابی نشانات کو بیلٹ پیپر پر ایک ساتھ چھاپ دیا جاتا ہے تو گمان ہوتا ہے کہ یہ کہیں اس حکمت عملی کے تحت تو نہیں کیا گیا کہ ووٹرز اپنے ترجیحی انتخاب کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوجائیں اور اس سے مماثل نشان پر مہر لگادیں، خیر اس حوالے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے۔

اللہ بخش آریسرار نے بتایا کہ ’بااثر وڈیروں نے انتخابی عملے کے ساتھ مل کر دو دو بار مہر لگائی جس سے مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ انگوٹھے کے نشانات لینے کے عمل کے دوران، اکثر ووٹرز کے انگوٹھوں پر سیاہی رہتی ہے اور اسے مؤثر انداز میں صاف کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔ نتیجتاً جب لوگ ووٹنگ بوتھ میں داخل ہوئے تو ان کے انگوٹھوں کی سیاہی نادانستہ طور پر بیلٹ پیپر پر منتقل ہوگئی اور یوں ضائع شدہ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا‘۔

خضدار، بلوچستان سے ڈان کے رپورٹر عبدالواحد شاہوانی نے کہا کہ صوبے بھر میں ووٹرز کی تعلیم اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے بلوچستان میں مسترد شدہ ووٹوں کی شرح بلند ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اقلیتی گروہوں، کسانوں اور زراعت سے وابستہ افراد میں ناخواندگی کی شرح بلند ہے جس کی وجہ سے یہ پولنگ کے عمل سے متعلق الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ تک علم نہیں تھا کہ آیا اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے مہر کا استعمال کرنا ہے یا اپنے انگوٹھے کا، یہی وجہ تھی کہ ایک قابل ذکر تعداد نے اپنے بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے بجائے اپنے انگوٹھے لگائے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ خطے میں تعلیم پر کتنی کم توجہ دی جاتی ہے، اس طرح کے واقعات رونما ہونا حیران کُن نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان کی تو توقع کی جانی چاہیے‘۔

عبدالواحد شاہوانی نے بتایا کہ یہاں لوگوں کو بیلٹ پیپر موڑنے کا درست طریقہ بھی معلوم نہیں۔ کچھ پولنگ اسٹیشنز میں خواتین اپنے ساتھ انتخابی مہر لے جاتی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے انگوٹھوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

گھوٹکی سے ڈان کے رپورٹر شمس بھٹو نے کہا ’حلقوں میں حریف، مخالف امیدواروں کی جیت کو شکست میں بدلنے کی کوشش میں دہری ووٹنگ کو یقینی بنانے کے لیے مذموم ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔ علاقوں میں سرداروں اور وڈیروں جیسی طاقتور شخصیات کا اثرورسوخ ووٹ مسترد ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے‘۔

ان تضادات کو دور کرنے میں ناکامی جمہوری عمل کی ساکھ کو خطرے میں ڈالتی ہے جس کی وجہ سے انتخابی نظام پر عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہ اعتماد پہلے ہی نازک ڈور سے جڑا ہے۔

یہ حکام کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مکمل چھان بین کریں کہ ہر ووٹ کی گنتی کی جائے اور ووٹر کی رائے سنی جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ اس عزم کے بغیر ہم تقسیم کے نام پر جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا خطرہ موہ لیتے ہیں۔

پاکستان کے 12ویں عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا جہاں رجسٹرڈ ووٹرز کے محض 47.90 فیصد نے اپنا نمائندہ منتخب کرنے میں حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی عمل میں شہریوں کی شرکت بڑھانے کا چیلنج کتنی اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ قوم کی انتخابی سرگرمی کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں زیادہ جامع انتخابی عمل کو فروغ دینے کے لیے ووٹنگ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہوگیا ہے۔



اس تحریر میں این اے 8 اور این اے 88 کے علاوہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کو شامل کیا گیا ہے۔ووٹوں کی کل گنتی میں این اے 8، این اے 88 اور این اے 265 کے ڈیٹا کو شامل نہیں کیا گیا۔


ہیڈر: اے آئی کی مدد سے بنایا گیا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

وارا عرفان

مصنفہ KAS-Dawn.com کی میڈیا فیلو ہیں۔ ثقافتوں اور زندگی کے مختلف تجربات پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
عنیقہ عتیق خان

مصنفہ اپنی تحریروں کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرتی ہیں اور شہری ترقی، ماحولیات اور سماجی انصاف پر قلم اٹھانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
حوا فضل

مصنفہ KAS-Dawn.com کی میڈیا فیلو ہیں۔ گورننس اور سماجی مسائل میں دلچسپی رکھتی ہیں، @Hawwa_Fazal سے ٹوئٹ کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔