پاکستان

الیکشن 2024: ملک کے 12 حلقوں میں اہم رہنماؤں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع

ملک بھر میں آج عام انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل جاری ہے، تقریباً 5 ہزار امیدوار پنجہ آزمائی کے لیے انتخابی میدان میں اترے ہیں۔

ملک بھر میں آج عام انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل جاری ہے، تقریباً 5 ہزار امیدوار پنجہ آزمائی کے لیے انتخابی میدان میں اترے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان سیکڑوں مقابلوں کے درمیان کچھ حلقے ایسے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر زیادہ توجہ کا مرکز بنیں گے، اِن میں سے قومی اسمبلی کے 12 حلقوں میں ہونے والے چند اہم مقابلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

بونیر کا حلقہ این اے-10

خیبرپختونخوا میں بونیر کے حلقہ این اے-10 میں رہنما تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر علی خان، سابق رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) شیر اکبر خان اور رہنما جماعت اسلامی (جے آئی) بخت جہاں خان مدمقابل ہیں جوکہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سابق اسپیکر بھی ہیں۔

شیر اکبر نے گزشتہ الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 58 ہزار 317 ووٹوں کے ساتھ جیتا تھا لیکن اب وہ پی ٹی آئی-پارلیمینٹیرین کے ساتھ ہیں، جو کہ سابق وزیر دفاع اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی سے الگ ہونے والا دھڑا ہے، این اے-10 میں مجموعی طور پر 8 امیدوار انتخابی میدان میں اترے ہیں تاہم ان تینوں کے درمیان کڑا مقابلہ متوقع ہے۔

لکی مروت کا حلقہ این اے 41

لکی مروت کا حلقہ این اے 41 کے لیے 39 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے 33 آزاد ہیں، یہاں بھی جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) کے اسجد محمود، پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت اور آزاد امیدوار و سابق سینیٹر سلیم سیف اللہ خان کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

اس علاقے کو جے یو آئی-ف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، 2008 کے علاوہ تمام عام انتخابات میں یہ نشست 2002 سے جے یو آئی (ف) کے پاس رہی ہے، 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے ہمایوں سیف اللہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے پیر زکوری شریف کے خلاف کامیاب ہوئے تھے۔

رواں برس مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے بیٹے اسجد کو میدان میں اتارا ہے، سلیم سیف اللہ کو مروت قومی اتحاد (ایم کیو آئی) کی حمایت حاصل ہے، یہ انتخابی اتحاد ان کے خاندان نے دیگر سیاسی جماعتوں اور قبائلی سرداروں کی حمایت سے تشکیل دیا ہے، ممتاز عالم دین اور مولانا فضل الرحمٰن کے قریبی ساتھی مفتی عبدالغنی بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر شیر افضل پہلے مقامی سیاست میں سیف اللہ برادران کے ساتھ تھے اور ان کی مشترکہ کوششوں سے ایم کیو آئی کی تشکیل ہوئی، اگرچہ وہ ایک مضبوط امیدوار ہیں، تاہم توقع ہے کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو آئی میں تقسیم کا فائدہ بالآخر جے یو آئی (ف) کو ہو سکتا ہے۔

ڈیرہ اسمعٰیل خان کا حلقہ این اے 44

ڈیرہ اسمعٰیل خان میں دہشت گردی سے متاثرہ اس حلقے میں سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن کا مقابلہ اپنے 2 حریفوں، پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور اور رہنما پیپلزپارٹی فیصل کریم کنڈی سے ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اس سے قبل 2002 اور 2013 میں یہ نشست جیتی تھی لیکن 2008 میں فیصل کریم کنڈی اور 2018 میں علی امین گنڈا پور سے یک طرفہ مقابلے میں ہار گئے تھے۔

اِن دونوں انتخابات میں مولانا فضل الرحمٰن 46 ہزار سے زائد ووٹ حاصل نہ کر سکے جبکہ فیصل کریم کنڈی اور علی امین گنڈا پور 81 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

راولپنڈی کا حلقہ این اے 54

راولپنڈی ضلع کی تحصیل ٹیکسلا کے اس حلقے پر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور سابق وزیر ہوابازی غلام سرور خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

2018 میں چوہدری نثار علی خان نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کے بعد آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا لیکن وہ اپنے روایتی حریف پی ٹی آئی کے غلام سرور سے تقریباً 23 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔

چوہدری نثار علی خان ایک بار پھر آزاد حیثیت سے انتخابی دوڑ میں شامل ہیں جبکہ غلام سرور اِس بار جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

سیالکوٹ-2 کا حلقہ این اے 71

سیالکوٹ کے اس حلقے میں 1993 سے لے کر اب تک رہنما مسلم لیگ (ن) خواجہ آصف نے تمام 6 عام انتخابات جیتے ہیں، تاہم 2018 کا الیکشن ان کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین الیکشن تھا جب وہ اپنے حریف رہنما پی ٹی آئی عثمان ڈار کو بہت کم مارجن سے شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اس بار خواجہ آصف کا مقابلہ عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار سے ہے، وہ اپنے بیٹے کے سیاست چھوڑنے اور پریس کانفرنس میں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرنے کے فیصلے کے بعد سیاسی میدان میں اتری ہیں۔

لاہور-6 کا حلقہ این اے 122

لاہور کے اس حلقے میں 16 آزاد امیدواروں سمیت 21 امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل مقابلہ رہنما مسلم لیگ (ن) و سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ وکیل و سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کے درمیان متوقع ہے۔

پیپلز پارٹی نے یہاں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا، لطیف کھوسہ ماضی میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے، وہ 3 ماہ قبل اُس وقت پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے جب پیپلزپارٹی نے پارٹی قیادت سے پیشگی اجازت لیے بغیر عمران خان کا کیس لڑنے پر ان کی رکنیت معطل کر دی تھی۔

سعد رفیق یہاں سے 2002 سے ایم این اے رہے ہیں اور انہوں نے پچھلے تمام انتخابات باآسانی جیتے، تاہم 2018 میں وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے معمولی فرق سے ہار گئے تھے، جب عمران خان نے یہ نشست خالی کی تو سعد رفیق نے ہمایوں اختر خان کو شکست دے کر ضمنی انتخاب میں یہ نشست جیت لی تھی۔

لاہور کا حلقہ این اے 130

لاہور کے اس حلقے میں چوتھی بار وزیراعظم بننے کے خواہشمند نواز شریف کا مقابلہ جیل میں قید رہنما پی ٹی آئی ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہے، مبصرین کا خیال ہے کہ اس نشست کے لیے کانٹے دار انتخابی معرکے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کو 9 مئی کے واقعات کے سبب عدالتی ٹرائل کا سامنا ہے اور وہ اپنی انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہیں، انہیں اپنی پارٹی اور ساتھیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود پی ٹی آئی کے ساتھ مضبوطی سے ڈٹے رہنے پر بعض حریفوں کی جانب سے بھی کافی پذیرائی ملی ہے۔

2018 میں ڈاکٹر یاسمین راشد ایک لاکھ 5 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے وحید عالم خان سے الیکشن ہار گئی تھیں، بعد میں وہ خواتین کی مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب ہوئیں۔

دوسری جانب نواز شریف پاناما پیپرز کیس میں سزا کی وجہ سے 2018 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے اور اب عدالتوں سے کلین چٹ ملنے کے بعد یہ نشست جیتنے کی امید کر رہے ہیں۔

ملتان کا حلقہ این اے 151

اولیا کے شہر ملتان میں قریشی اور گیلانی خاندان کے امیدواروں کے درمیان دلچسپ مقابلے متوقع ہیں، این اے 151 میں 2 نامور سیاستدانوں اور روایتی حریفوں کے بچے سید علی موسیٰ گیلانی اور مہر بانو قریشی آمنے سامنے ہیں۔

علی موسیٰ گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے ہیں جبکہ مہربانو قریشی پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی ہیں، یوسف رضا گیلانی ملتان کے ایک اور حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

قریشی خاندان اپنی وفاداریاں بدلنے کے باوجود پچھلی 4 دہائیوں سے یہ نشست جیت رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حلقے میں اس خاندان کا ایک مضبوط ووٹ بینک ہے، تاہم اس بار مقابلہ دلچسپ ہو گیا ہے کیونکہ گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں علی موسیٰ گیلانی نے مہر بانو قریشی کو تقریباً 20 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی، تاہم اس بار مہربانو قریشی اپنے والد شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے سبب ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی توقع کر رہی ہیں۔

ڈیرہ غازی خان کا حلقہ این اے 185

ڈیرہ غازی خان کے اس قبائلی حلقے کے انتخابی میدان میں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ زرتاج گل، پیپلزپارٹی کے دوست محمد کھوسہ اور مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمود قادر لغاری شامل ہیں، سابق وزیراعلیٰ پنجاب دوست محمد کھوسہ کو قبائلی سردار کی حیثیت کی وجہ سے یہاں فیورٹ سمجھا جارہا ہے۔

2018 میں زرتاج گل نے یہاں مسلم لیگ ن کے سردار اویس لغاری کو 25 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی، دوست محمد کھوسہ نے ان انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا تھا اور 31 ہزار 703 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

کراچی کا حلقہ این اے-241

کراچی کے حلقہ این اے 241 سے ایم کیو ایم (پاکستان)کے ڈاکٹر فاروق ستار، صدر پی ٹی آئی کراچی خرم شیر زمان اور پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ مدمقابل ہیں۔

2018 میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی شرقی کے ایک حلقے سے الیکشن لڑا لیکن مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے ہار گئے، جنہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن لڑا تھا۔

خرم شیر زمان نے 2018 میں کراچی سے صوبائی نشست جیتی تھی اور وہ پہلی بار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار کراچی کے حلقہ این اے 244 سے بھی امیدوار ہیں، جہاں پی ٹی آئی کے ایک اور سابق ایم این اے آفتاب جہانگیر نے 2018 میں کامیابی حاصل کی تھی۔

سُراب کم قلات کم مستونگ کا حلقہ این اے 261

اس حلقے میں 3 اہم رہنماؤں کے درمیان دلچسپ مقابلہ متوقع ہے، سردار ثنا اللہ زہری اس بار پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل اور جنرل سیکرٹری جے یو آئی (ف) مولانا عبدالغفور حیدری کے مدمقابل ہیں۔

کسی زمانے میں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور زہری قبیلے کے سردار ثناء اللہ زہری نے دسمبر 2015 سے دسمبر 2017 تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دیں، انہوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اپنی پارٹی کی قیادت کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے کے بعد اگست 2021 میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

2018 میں ثنا اللہ زہری صرف 7 ہزار 152 ووٹ لے سکے اور اس نشست پر پانچویں نمبر پر آئے، جس پر جے یو آئی (ف) کے سید محمود شاہ نے 26 ہزار 711 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، 2008 میں ثنا اللہ زہری دوسرے نمبر پر رہے تھے جب یہ سیٹ پیپلز پارٹی کے آیت اللہ درانی نے جیتی تھی۔

دوسری جانب سردار اختر مینگل نے 2018 میں خضدار سے قومی اسمبلی کی نشست 23 ہزار سے زائد ووٹ لے کر باپ پارٹی کے خالد بزنجو کو شکست دی تھی، تاہم اسی سال وہ لسبیلہ-کم-گوادر کے حلقے سے ایک آزاد امیدوار اسلم بھوتانی سے الیکشن ہار گئے تھے۔

مولانا عبدالغفور حیدری 2002 کے انتخابات میں اس حلقے سے کامیاب ہوئے اور 2013 کے انتخابات میں دوسرے نمبر رہے، تاہم انہوں نے 2018 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، وہ پہلی بار 1993 میں قلات سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔

کوئٹہ کا حلقہ این اے 263

این اے 263 میں 27 آزاد امیدواروں سمیت ریکارڈ 46 امیدوار میدان میں ہیں، کئی اہم سیاسی رہنام انتخابی دوڑ میں شامل ہیں، اس لیے اس حلقے کے بارے میں پیشین گوئی کرنا مشکل ہے۔

بلوچستان کے 2 مختلف حلقوں سے 2018 کے انتخابات میں شکست کھانے والے سربراہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) محمود خان اچکزئی کا مقابلہ باپ پارٹی کی کی روبینہ عرفان، پیپلزپارٹی کے روزی خان کاکڑ اور حاجی لشکری رئیسانی سے ہے، جو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں، اس بار محمود خان اچکزئی نے پشین میں مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت کے بدلے یہاں جے یو آئی (ف) کی حمایت حاصل کرلی ہے۔