نقطہ نظر

سی پیک سیاحت: شِش کٹ اور اوندرا پوئیگاہ (چودہویں قسط)

ڈیڑھ ہزار سے زائد سیڑھیاں جن کے ذریعے اردگرد کے بلندوبالا پہاڑوں، سرسبز وادیوں، گلیشیئرز اور ندی نالوں کا حسین نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


شِش کٹ اسٹاپ آگیا، بس نے بریک لگایا۔ مسافروں میں کچھ ہل چل مچی اور اترنے والے اتر گئے۔ شِش کٹ اس وقت تو ایک غیرمعروف قصبہ تھا مگر 2010ء میں اس وقت معروف ہوا جب عطاآباد میں پہاڑ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں گرنے سے دریا کا پانی رک گیا اور عطاآباد سے پھیلتا ہوا یہاں 20 کلومیٹر دور شِش کٹ تک آگیا تھا۔ اس جھیل کے لوگ تو ’عطاآباد جھیل‘ کے نام سے جانتے ہیں لیکن شِش کٹ والے اسے ’شِش کٹ جھیل‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ شِش کٹ سے شروع ہوتی ہے۔

آج شِش کٹ میرے لیے اس وجہ سے بھی اہم ہے کیونکہ میں نے 2021ء میں یہاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ چند دن گزارے ہیں۔ یہ میرے دوست اسحٰق کا گاؤں ہے۔ بھائی اسحٰق اسلام آباد کے ایک ادارے میں فنانس منیجر ہیں اور میری کتابوں کے قاری بھی ہیں۔ اگست 2021ء میں جب میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ دن عطاآباد جھیل کے کنارے گزارنا چاہتا ہوں تو بولے، ’آپ عطاآباد جھیل کے قریب شِش کٹ کیوں نہیں جاتے؟‘

’وہاں کوئی اچھا اور مناسب کرائے والا ہوٹل مل جائے گا؟‘ میں بولا۔

’ہوٹل کی کیا ضرورت ہے کیہر صاحب۔ وہ تو ہمارا گاؤں ہے۔ وہاں آپ ہمارے مہمان ہوں گے۔‘

’لیکن آپ تو یہاں اسلام آباد میں ہیں‘، میں بولا۔

’یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ شِش کٹ میں ابھی کچھ دن پہلے میں نے اپنا نیا کاٹیج تعمیر کروایا ہے اور وہ اس وقت فُل فرنشڈ ہے، ضرورت کی ساری چیزیں اس میں موجود ہیں۔ میں آپ کو اس کی چابیاں دے دیتا ہوں۔ آپ شِش کٹ پہنچیں اور اس کاٹیج کا تالا کھول کر اس میں جتنے دن چاہیں رہیں‘، وہ کمال فیاضی کے ساتھ بولتے چلے گئے۔

میں یہ سن کر خوش تو بہت ہوا لیکن بولا، ’نہیں نہیں اسحٰق بھائی، یہ زیادہ ہوجائے گا۔ ہمیں کوئی ہوٹل بتائیں‘۔

’سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ آپ اسی کاٹیج میں رہیں گے۔ اس کے اردگرد جتنے بھی گھر ہیں سب میرے رشتے داروں کے ہیں اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میرے والدین کا گھر بھی وہیں قریب ہی ہے‘، وہ بولتے چلے گئے۔ انہوں نے اُسی دن ایک جیپ کا بھی انتظام کردیا جو کچھ مسافروں کو شِش کٹ سے اسلام آباد چھوڑنے آئی تھی اور اب خالی واپس جارہی تھی۔ رات کو شِش کٹ کا ڈرائیور جیپ لےکر اسلام آباد میں ہمارے گھر پہنچ گیا اور ہم سب اس میں بیٹھ کر گلگت روانہ ہوگئے۔

رات بھر ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بالاکوٹ، کاغان اور ناران کی منزلیں طے کرتے ہوئے ہم نے صبح صبح درّہ بابوسر عبور کرلیا اور مزید آگے بڑھتے ہوئے چلاس، جگلوٹ، گلگت، نگر اور ہنزہ سے ہوتے ہیں شام تک عطاآباد جھیل کی سرنگوں سے گزر کر شِش کٹ پہنچ گئے۔ یہاں اسحٰق کا شاندار کاٹیج ہمارا منتظر تھا جہاں ضرورت کی ہر چیز حتیٰ کہ کچن میں گیس سلنڈر تک موجود تھا تاکہ ہم اپنا کھانا خود پکا سکیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم جب تک یہاں رہے شِش کٹ والے ہی ہمارے میزبان بنے رہے۔ ہمیں کسی نے کھانا پکانے نہ دیا۔ کہیں سے ناشتہ، کسی کے ہاں ظہرانہ، کہیں پر چائے تو کسی کے ہاں عشائیہ۔ اسحٰق کے والد نائبل شاہ صاحب، والدہ اور ہمشیرہ نے بھی ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ تیسرے دن خود اسحٰق بھائی بھی اسلام آباد سے شِش کٹ پہنچ گئے۔

پھر اسحٰق نے ہمیں شِش کٹ گاؤں کی دلچسپ کہانی بھی سنائی، ’آج سے ایک صدی پہلے 1922ء میں جب یہ علاقہ ویران ہوا کرتا تھا اور یہاں سے بس ایک کچا سا راستہ چین میں شاہراہ ریشم کی طرف جاتا تھا۔ اس راستے پر تاجر گھوڑوں پر سفر کرتے تھے اور غریب قلی اپنے کاندھوں پر ان کا سامان تجارت اٹھا کر کئی کئی دن پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ ہمارے پردادا صفر علی بھی انہی مزدوروں کے ساتھ یہ بوجھ ڈھونے کا کام کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان پر برطانوی حکومت تھی اور انگریز گلگت و ہنزہ پر بھی قابض ہوچکا تھا۔ والی ہنزہ میر صفدر علی انگریزوں سے شکست کے بعد سنکیانگ میں روپوش ہوچکے تھے اور ہنزہ پر انگریزوں نے میر ناظم علی کو ریاست کا ایک بے اختیار والی بنا دیا تھا۔

’تو ایک دن ہمارے دادا صفر علی اسی طرح کسی تاجر کا بوجھ اٹھائے ہنزہ سے چین کی طرف جاتے ہوئے اس مقام (شِش کٹ) پر پہنچے تو یہاں انہیں اپنے جیسا ایک اور مزدور ملا جو اپنا بوجھ زمین پر گرائے ہانپ رہا تھا۔ اسے تیز بخار تھا اور وہ نقاہت کی وجہ سے یہاں گر پڑا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اب بچ نہیں سکے گا اس لیے کوئی اس کا مال اٹھا کرلے جائے اور منزل پر پہنچا کر مالک کے حوالے کردے۔ یہ مال بھی کسی انگریز تاجر کا تھا جو اسے چین میں شاہراہ ریشم تک پہنچانا تھا۔ ہمارے دادا اس بےچارے کا بوجھ تو نہیں اٹھا پائے کیونکہ ان کے پاس اپنا سامان ہی بہت زیادہ تھا۔ البتہ وہ اس کی تیمارداری کے لیے رات بھر اس کے پاس رکے رہے لیکن غریب مزدور کی تکلیف کم نہ ہوئی۔

’چنانچہ صبح صفر علی اس مزدور کو یہ تسلی دے کر وہاں سے روانہ ہوئے کہ میں اگلے گاؤں سے کچھ لوگوں کو بھیجتا ہوں تاکہ وہ تمہیں اور تمہارے سامان کو اٹھا کر آبادی تک لے آئیں۔ اگلے گاؤں پہنچ کر دادا نے یہی کیا۔ ان کی گزارش پر گاؤں کے لوگ بیمار مزدور کی مدد کے لیے روانہ ہوئے اور صفر علی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ لیکن جب تک یہ لوگ اس مزدور کے پاس پہنچے تب تک وہ بےچارہ انتقال کرچکا تھا۔ لیکن تشویشناک بات یہ تھی کہ اس کا ڈھویا گیا انگریز کا سامانِ تجارت بھی غائب تھا۔

’خیر وہ لوگ بےچارے کیا کر سکتے تھے۔ انہوں نے اس مزدور کی وہیں تدفین کی اور اس کی موت اور سامان چوری کی اطلاع والی ہنزہ کو دی۔ دادا صفر علی جب اپنا سامان چین پہنچا کر واپس ہنزہ لوٹے تو والی ہنزہ کے اہلکاروں نے انہیں چوری کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ صفر علی نے التجا کی کہ وہ بے گناہ ہے لیکن اس کے پاس اپنی بےگناہی کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ چند دن بعد والی ہنزہ نے اس کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے مقامی رسم کے مطابق ایک خطرناک موقع دیا۔

’اسے قلعہ بلتت کے سامنے والے میدان میں آگ میں تپا کر سرخ کیا ہوا کلہاڑی کا آہنی پھل ہاتھ میں لےکر لوگوں کے سامنے 14 قدم چل کر دکھانا تھا۔ اگر اس دوران اس کا ہاتھ گرم لوہے سے نہ جلتا تو وہ بے گناہ تھا۔ دوسری صورت میں طے ہوجاتا کہ سامان اسی نے چوری کیا ہے۔ صفر علی ایک ہجوم کے سامنے اپنے ہاتھوں میں دہکتا ہوا سرخ گرم لوہا لے کر چلے اور 14 کی بجائے 17 قدم چل گئے۔ گرم لوہے نے البتہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑا۔ تب والی ہنزہ نے پکارا، ’صفر علی لوہا پھینک دو، تم بے گناہ ہو‘۔

صفر علی کی بے گناہی ثابت ہونے پر والی ہنزہ نے نہ صرف اسے باعزت بری کیا بلکہ جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا تھا وہ علاقہ اسے بطور جاگیر پیش کردیا۔ سو سال پہلے 1922ء میں ہمارے پر دادا صفر علی اپنی اولاد کے ساتھ ہنزہ سے ہجرت کرکے یہاں پہنچے اور اس علاقے کو آباد کیا۔ یہ خوبصورت گاؤں شِش کٹ جہاں آج آپ موجود ہیں ہمارے پردادا صفر علی کا آباد کردہ ہے’۔

لیکن بھائی اسحٰق کے منہ سے یہ ساری معلومات تو مجھے کئی سال بعد ملیں۔ اِس وقت تو ہم 1987ء میں تھے اور ہماری بس ابھی ابھی شاہراہِ قراقرم کے اس حصے سے گزر کر شِش کٹ پہنچی تھی جس کے نصیب میں کئی سال بعد ڈوب جانا لکھا تھا۔

شِش کٹ کے فوراً بعد ہم نے ایک پُل سے دریائے ہنزہ پار کیا اور دوسری طرف کچھ دیر میں گلمت کا اسٹاپ آگیا۔ ڈرائیور نے بریک لگایا اور بس چراچرا کر رک گئی۔ مسافروں میں پھر ہل چل پیدا ہوئی۔ بس کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور لوگ پائیدان پر دھپ دھپ کرتے ہوئے اترنے لگے۔ بس کے پچھلے حصے میں پڑا سامان کا ڈھیر اب آدھارہ گیا تھا۔ یہاں سے کچھ اور مسافر سوار ہوئے اور بس پھر چل پڑی۔ اب بارش ختم ہوچکی تھے اور ہر طرف ڈھلتے دن کی زرد دھوپ پھیل گئی۔ بس اب چڑھائیوں پر رینگ رہی تھی۔ دور نیچے ڈھلوانوں پر جا بہ جا سبز کھیتوں کے چوکور قطعے بکھرے ہوئے تھے جن میں کہیں کہیں مٹی کے گھروندے بھی نظر آتے تھے۔ دریا کہیں دور پہاڑوں کی گود میں بہہ رہا تھا اور نظر نہیں آرہا تھا۔

یہاں پہاڑوں کی ساخت بھی بالکل مختلف اور منفرد تھی۔ اب تک جو پہاڑ سفر میں آئے تھے وہ سب اونٹ کے کوہان کی طرح تھے مگر اب ان کی جگہ شفاف شیشے کے کرچی کرچی ڈھیر کی مانند لا تعداد نوک دار چوٹیوں والے پہاڑ تھے اور ان چوٹیوں میں اٹکی ہوئی سفید برف چاندی کے تاروں کی مانند لٹکی نظر آتی تھی۔ دریا کے پار نظر آنے والا یہ دلکش اور عجیب پہاڑی سلسلہ شام کی دھوپ میں چمک رہا تھا۔

’یہ۔۔۔ یہ پھسو کونز ہیں نا؟‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ میں ان پہاڑوں کی تصاویر نیشنل جیوگرافک اور پی آئی اے کے رسالے ’ہمسفر‘ میں دیکھ چکا تھا۔

’جی ہاں جی۔۔۔ یہ پھسوکونز ہیں‘، نذیر نے گردن ہلائی۔ میں ایک محویت کے عالم میں دیر تک اس منظر کو دیکھتا رہا۔

دریا کا پاٹ تو اب خاصا وسیع ہوگیا تھا مگر پانی اس میں دور ایک گوشے میں بہہ رہا تھا جہاں اس کی موجودگی کا ثبوت ایک ہلکی سی چمک تھی۔ باقی سارا پاٹ لہریے دار سرمئی ریت سے ڈھکا ایک ریگستان کا منظر پیش کررہا تھا۔

دریائے ہنزہ کے وسیع پاٹ میں یہیں قریب حسینی برج بھی ہے جوکہ دنیا کا خطرناک ترین معلق پل ہے۔ ایک کلومیٹر طویل یہ پیدل چلنے والوں کا پل حسینی نامی گاؤں کو دوسرے کنارے سے جوڑتا ہے۔ آہنی رسوں سے معلق اس پل پر میٹر بھر کے فاصلے پر لکڑی کے تختوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ پل عبور کرنے والوں کو بس احتیاط سے لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے ان تختوں پر پیر رکھتے رکھتے آگے بڑھنا ہوتا ہے اور کسی کی ذرا سی بھی غلطی اسے نیچے گہرائی میں دریائے ہنزہ کے یخ بستہ پانیوں تک پہنچا سکتی ہے جہاں انسان ڈوبنے سے قبل ٹھنڈ سے بھی موت کا شکار ہوسکتا ہے۔

پھر یہاں بائیں طرف کے پہاڑوں میں بلندی پر ’بورتھ جھیل‘ بھی ہے۔ نمکین پانی کی یہ جھیل ہر سال سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کا مسکن بھی ہے۔ 8 ہزار 200 فٹ کی بلندی پر واقع یہ خوبصورت جھیل جہاں وسط ایشیا سے جنوبی ایشیا کے درمیان ہجرتی پروازیں کرنے والے پرندوں کا اہم پڑاؤ ہے، وہیں یہ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے بھی ایک اہم کشش رکھتی ہے۔

پھر یہاں ’اوندرا پوئیگاہ‘ بھی تو ہے۔ اوندرا پائے گاہ یعنی اوندرا کی سیڑھیاں۔ شاہراہِ قراقرم کی تعمیر سے پہلے گلگت و ہنزہ سے چین کی طرف جانے والے اس راستے کے ذریعے چونکہ ریشم، مصالحہ جات اور قیمتی پتھروں کی تجارت ہوا کرتی تھی اس لیے اس کی حفاظت اور اس تجارت پر نظر رکھنے کے لیے والیانِ ریاست نے یہاں جا بہ جا کئی چھوٹے بڑے قلعے بھی تعمیر کر رکھے تھے اور حفاظتی چوکیاں بھی بنا رکھی تھیں۔ انہی قدیم قلعوں میں سے ایک ’اوندرا‘ کا قلعہ بھی تھا جو یہاں گلمت میں اوندرا نامی پہاڑی کی چوٹی پر سیکڑوں سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قلعہ زمین بوس ہوگیا اور اس کی چند باقیات ہی رہ گئیں۔ 2020ء میں جب پوری دنیا کرونا وبا کی لپیٹ میں تھی، راستے مسدود تھے اور دنیا بھر کے انسانوں کی طرح گلمت کے باسی بھی اپنے علاقے میں محصور تھے تو یہاں کے باشندوں نے ایک انوکھے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ٹھانی اور یہ منصوبہ تھا، نیچے گلمت سے اوپر اوندرا پہاڑ کی چوٹی پر قلعے تک پتھر کی ڈیڑھ ہزار سیڑھیوں کی تعمیر۔ مٹی اور پتھر کی سلوں سے تعمیر کی جانے والی یہ ڈیڑھ ہزار سیڑھیاں تکمیل کی صورت میں پاکستان کی بلند ترین سیڑھیاں ہوسکتی تھیں اور ان کی تعمیر سے جہاں ایک طرف قلعہ اوندرا کی باقیات سنبھالنے میں آسانی ممکن تھی۔ وہیں علاقے میں ایک نئی سیاحت فروغ پانے کے امکانات بھی واضح تھے۔

ان سیڑھیوں کے ذریعے باآسانی اوندرا قلعے کی بلندی تک پہنچ کر نہ صرف اردگرد کے بلندوبالا پہاڑوں، سرسبز وادیوں، گلیشیئرز اور ندی نالوں کے حسین مناظر دیکھے جاسکتے تھے بلکہ یہاں سے ایک ہی نظر میں عطاآباد جھیل، بورتھ جھیل، حسینی برج اور پھسو کونز کا بھی نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ پھر یہ سیڑھیاں ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے لیے بھی استعمال ہوسکتی تھیں۔ چنانچہ گلمت کی عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور جوانوں نے مل کر اس دشوار کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ٹھان لی اور موسم سرما میں 1655ء قدمچوں (Steps، مقامی زبان میں پوئیگاہ) پر مشتمل پاکستان کی ان بلند ترین سیڑھیوں کی تعمیر کو صرف ایک ماہ میں مکمل کرکے دم لیا۔

اگست 2021ء میں جب میں اپنی فیملی کے ہمراہ یہاں گلمت آیا تھا تو 100 روپے فی کس ٹکٹ دےکر ہم نے بھی سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کیا تھا۔ مگر جیسے جیسے اوپر چڑھتے گئے ویسے ویسے سانس مزید پھولتا اور دل مزید دھڑکتا چلا گیا۔ کچھ ہی دیر میں بری طرح ہانپ گئے اور یوں لگا جیسے ہزار بارہ سو سیڑھیاں چڑھ آئے ہوں لیکن جب ایک گزرتے مقامی بزرگ سے فخریہ پوچھا کہ ’ہم کتنی سیڑھیاں چڑھ آئے ہیں؟‘

اس نے چند ثانیے ہمیں غور سے دیکھا اور پھر مسکرا کر کہا ’صرف 400۔۔۔‘ چنانچہ ہم ٹھٹک کر وہیں کھڑے ہوگئے البتہ ہانپنا مزید بڑھادیا۔ پھر بے چارگی سے اوپر جاتی ہزار سے زائد سیڑھیوں کو دیکھا اور نیچے نظر آتے سرسبز و رنگارنگ گلمت اور مٹیالے دریائے ہنزہ کو دیکھ کر وہیں پسر گئے۔ کچھ تصاویر بنوائیں اور شرافت سے واپسی کی سیڑھیوں پر اتر گئے جہاں نیچے چشمے کے کنارے نمبردار سلطان ایوب کے ساتھ گاؤں کے چند بزرگ چائے پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

یہیں قریب دریائے ہنزہ پر ایک تنگ جگہ بنے پل کو عبور کرکے وادی شمشال کا راستہ جاتا ہے لیکن یہ راستہ اس قدر ویران، طویل اور اس درجہ خوفناک ہے کہ 2021ء میں ہم جیپ پر اس راستے پر خاصا آگے تک چلے جانے کے باوجود اس کی ویرانی اور اس کی خوفناکی سے گھبرا کر شمشال کا خیال دل سے نکال کر واپس پلٹ آئے تھے۔

’یہ دیکھو جی عبیداللہ صاحب۔۔۔ پھسو گلیشیئر‘، نذیر نے اچانک مجھے بس کی کھڑکی سے باہر بائیں جانب متوجہ کیا۔ میں نے چونک کر وہاں دیکھا۔ لگتا تھا جیسے پہاڑ کی چوٹی سے دامن تک کسی نے لاکھوں ٹن برف کا چورا کرکے اسے دہی میں ملاکر پھیلا دیا ہو۔ اس برفانی پھیلاؤ کا سلسلہ پہاڑ سے نیچے جھالر کی طرح لٹک رہا تھا اور اس جھالر سے رستا پانی ایک تیز دھارا بن کر دریا میں شامل ہونے جا رہا تھا۔ یہ پھسو گلیشیئر تھا۔

سڑک دریا کے کنارے سے دور ہوکر گلیشیئر کی حدود میں داخل ہوگئی۔ بس پھسو نالے پر بنے پل کے اوپر سے گزری تو پانی کے طاقتور دھاروں کی تیز آواز نے ماحول بدل دیا۔ اب بس گلیشیئر کے ساتھ ساتھ چلی جارہی تھی۔ دریا اور سڑک کے درمیان میلوں وسیع ایک میدان حائل ہوگیا تھا جس میں اکا دکا مکانات بلند و بالا پھسو کونز کے پس منظر میں کھلونے لگ رہے تھے۔ گلیشیئر سے آنے والی سرد ہواؤں سے بچنے کے لیے ان گھروں میں دروازے کے علاوہ اور کوئی راستہ، کوئی کھڑکی تک نہیں تھی۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔