سال 2024ء کے اہم انتخابات جو عالمی منظرنامہ تشکیل دیں گے
یہ سال جمہوریت کے لیے اہم ترین ثابت ہوگا۔ یہ انسانی تاریخ کا اہم سنگِ میل ہوگا کہ جہاں 4 ارب سے زائد لوگ یعنی دنیا کی نصف آبادی حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ دنیا کے 40 ممالک میں رواں سال انتخابات کا انعقاد ہوگا۔
امریکا، بھارت، انڈونیشیا، روس، برطانیہ، پاکستان، بنگلہ دیش، تائیوان، میکسیکو اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر ممالک میں قومی انتخابات ہوں گے۔ یورپی یونین میں بھی انتخابات ہوں گے۔ انتخابات میں جانے والی اقوام اور افراد کا تنوع غیرمعمولی ہے۔
جدید دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں ممالک کو انتخابی عمل سے گزرتا دیکھنا بظاہر جمہوریت کی فتح کے لیے پرکشش لگ رہا ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو جمہوریت کو بہت سے محاذوں پر خطرات کا سامنا ہے۔
اگرچہ یہ چیلنجز مختلف دائرہ کار میں مختلف شکل اختیار کرلیتے ہیں لیکن اس سے کچھ پیٹرن سامنے آتے ہیں۔ سال 2024ء جمہوریت کے لیے ایک اہم سال ثابت ہونے والا ہے لیکن اس کے مستقبل کے بارے میں کچھ محتاط اندازے لگائے جارہے ہیں۔
آئیے ان اہم انتخابات پر نظر ڈالتے ہیں جو 2024ء میں دنیا کے منظرنامے کو تشکیل دیں گے۔
امریکا
سال 2024ء میں سب سے اہم نومبر میں امریکا کے صدر، ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے لیے عام انتخابات ہوں گے۔ دہائیوں سے امریکا کو طاقتور جمہوریت اور دنیا کی جمہوری حکومتوں کے ضامن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہوں گے۔ ورائٹیز آف ڈیموکریسی (وی ڈیم) کے تجزیے کے مطابق بطور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی بھی سابقہ چیف ایگزیکٹو سے زیادہ جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے کام کیا۔
اب وہ اپنے سیاسی مخالفین کو سزا دینے، محکمہ انصاف کی آزادی کو سلب کرنے اور صدارتی اختیارات کو حکومتی انتظامیہ کے غیر سیاسی حصوں تک بڑھانے کے وعدے کررہے ہیں۔
اسی امر نے صدر جو بائیڈن کو متنبہ کرنے پر مجبور کیا کہ 2024 کے صدارتی انتخابات میں ’جمہوریت بیلٹ پر ہے‘۔
اس مرحلے پر امریکی رائے دہندگان بہت زیادہ پرواہ نہیں کرتے اور رائے عامہ کے کئی اہم جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کا پلڑا بھاری ہے۔
بھارت اور انڈونیشیا
بھارت اور انڈونیشیا جوکہ بالترتیب دنیا کے دوسرے اور چوتھے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں، وہاں جمہوریت کا عروج، عالمی آزادی کے لیے اہم گیم چینجر ثابت ہوگا۔ 1.7 ارب کی مشترکہ آبادی والے ان ترقی پذیر ممالک میں انتخابات کا پیمانہ بھی جدید دور کی انتظامیہ میں ایک معجزہ ہے۔
اپریل اور مئی میں ہونے والے انتخابات میں امکان یہی ہے کہ نریندر مودی تیسری بار 5 سالہ مدت کے لیے اقتدار میں آئیں گے۔
انڈونیشیا کے وزیرِ دفاع پرابوو سوبیانتو فروری میں سب سے زیادہ آبادی والے مسلم ملک کے اگلے صدر بننے کی دوڑ میں آگے ہیں۔
دونوں صورتوں میں خطرہ ہے کہ یہ ’مضبوط‘ رہنما آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں اقتدار حاصل کریں گے لیکن پھر یہ رہنما لبرل مخالف پالیسیاں اپنائیں گے جوکہ جمہوری اداروں کو دباؤ کا شکار کرتی ہیں۔
برطانیہ اور یورپ
2024ء کی دوسری ششماہی میں برطانیہ میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ حالیہ پولنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کیر اسٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی کی فتح ہوتی ہے تو یہ 14 سالوں میں حکومت کی پہلی تبدیلی ہوگی۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے جمہوریت کی یہ صلاحیت واضح ہوگی کہ وہ خونریزی کے بغیر مخالف مفادات کے درمیان سیاسی اقتدار کی منتقلی کو قابل عمل بناتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں انسانی تاریخ کا زیادہ تر حصہ ناکام رہا ہے۔
یورپ کے دیگر انتخابات انتہائی دائیں بازو کی مقبولیت جاننے کا ایک پیمانہ ہوگا۔
گزشتہ سال نومبر میں نیدرلینڈز میں ہونے والے انتخابات میں اسلام مخالف انتہاپسند گیئرٹ وائلڈرز کی ممکنہ کامیابی کے حوالے سے بہت سے تجزیہ کار پیشگوئی کررہے ہیں کہ جون میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ساتھ آسٹریا، بیلجیم، کروشیا اور فن لینڈ کے قومی انتخابات میں بھی دائیں بازو کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔
افریقہ
افریقہ کے درجن سے زائد ممالک میں رواں سال قومی انتخابات کا انعقاد ہوگا جن میں روانڈا، گھانا، تیونس، جنوبی سوڈان اور الجزائر بھی شامل ہیں۔ لیکن ان میں توجہ کا مرکز سال کے وسط میں منعقد ہونے والے جنوبی افریقہ کے انتخابات ہوں گے جوکہ 1994ء میں نسل پرست حکومت ختم ہونے کے بعد سے اہم ترین انتخابات ہوں گے۔
حالیہ پولز کہتے ہیں کہ 3 دہائیوں سے زائد عرصے سے اقتدار میں رہنے والی افریکن نیشنل کانگریس (اے این سی) حکومت کرنے کے لیے درکار 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرپائے گی جس سے ان کی 30 سالہ ایک جماعتی حکومت اختتام کو پہنچے گی۔
بوگس انتخابات
یہاں 2024ء کے ان انتخابات کا بھی خصوصی ذکر کرتے چلیں جوکہ آزاد اور شفاف نہیں ہوں گے۔
روس، روانڈا اور بیلاروس میں آمر حکمران ہیں جو مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر بوگس انتخابات کرواتے ہیں جن میں انہیں 90 فیصد یا اس سے زائد کی اکثریت حاصل ہوتی ہے۔
اور پھر بنگلہ دیش، ایران اور تیونس میں ہونے والے انتخابات ہیں جہاں وہ مخالفین کو انتخابات میں حصہ تو لینے دیتے ہیں لیکن جیتنے نہیں دیتے۔
تو کیا جمہوریت ان امتحانات میں کامیاب ہوجائے گی؟
کم ہوتے لبرل ازم، کچھ بڑی جمہوریتوں میں آزاد اداروں کے کمزور ہونے اور ترقی یافتہ جمہوریتوں خاص طور پر نوجوانوں میں، جمہوری نظام کے حوالے سے پھیلی مایوسی کے پس منظر میں دنیا بھر میں انتخابات ہورہے ہیں۔
لیکن محتاط امید کی وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ کا دھارا مزید جمہوری دنیا کی طرف پرعزم انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔
جمہوریت وہ ماڈل ہے جس کے حصول کے لیے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کوشاں ہیں۔ فریڈم ہاؤس کے مطابق 1990ء میں 69 انتخابی جمہوریتیں تھیں جو 2014ء تک بڑھ کر 122 ہوگئیں۔ یہ بتاتا ہے کہ آمروں اور غاصبوں کو بھی اپنے اقتدار کو جمہوری مینڈیٹ کی شکل دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور ترقی یافتہ جمہوریتوں میں شہریوں کے سروے جمہوری حکومت کے نظریات کے لیے اعلیٰ سطح کی حمایت ظاہر کرتے رہتے ہیں۔
’عوام کی حکومت، عوام سے، عوام کے لیے‘، یہ نعرہ اب بھی ان دیگر تمام متبادلات، جن کی اس وقت کوشش کی جا رہی ہے، کے مقابلے میں نمایاں فوائد رکھتا ہے۔ لیکن 2024ء میں اس نعرے کا سخت امتحان ہوگا۔
اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیے۔