نقطہ نظر

معیشت اور انتخابات: سوالات، امکانات اور خدشات

غیر یقینی کی ایک وجہ الیکشن کی روایتی سیاسی گہما گہمی نہ ہونا بھی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس لیے خاموش ہیں کہ ان کے پاس کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے۔

دبئی پلازہ کا شمار راولپنڈی کے مصروف ترین کاروباری مراکز میں ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہاں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا لیکن آج ہر طرف سناٹا ہے۔ اس پلازے میں واقع کمپیوٹر ہول سیل کی ایک معروف دکان کے مالک بتاتے ہیں کہ ایک سال پہلے تک ان کی روزانہ کی فروخت ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے درمیان تھی جو اب سمٹ کر 20، 21 ہزار روپے تک رہ گئی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ کاروبارکو مہنگائی اور بے روزگاری سے زیادہ ملک میں جاری سیاسی بے یقینی نے نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر وقت پر شفاف انتخابات ہو جائیں تو شاید ملک بہتری کے راستے پر چل پڑے۔ یہ صاحب ہی نہیں بلکہ ملک کا ہر شہری گزشتہ دو سالوں سے جاری بدترین معاشی بحران سے پریشان ہے۔ حکومت مہنگائی میں اضافے کی سالانہ شرح 30 فیصد کے قریب بتاتی ہے۔

غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں پسے عوام انتخابات سے امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ ہرجگہ یہی بحث ہے کہ کیا 8 فروری کو انتخابات ہو ں گے یا نہیں اور اگر ہو گئے تو ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کیا اتنی مضبوط ہوگی کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال سکے؟

انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بے یقینی کیوں ہے؟

انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے, انتخابی نشانات الاٹ ہو رہے ہیں اسکے باوجود پورے ملک میں ایک بے یقینی ہے۔کہیں روایتی انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آتی، کہیں پوسٹر یا وال چاکنگ نہیں، کبھی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے سینیڑز انتخابات رکوانے کی قراردادیں ایوان بالا میں جمع کرادیتے ہیں تو کبھی اداروں کے ترجمان سمجھے جانے والے صحافی اور تجزیہ کار کوئی نیا شگوفہ چھوڑ دیتے ہیں۔

خودکش دھماکے کے حالیہ خدشے نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ پہلے بتایا گیا کہ بلوچ مظاہرین پر حملہ ہوسکتا ہے پھر سوموار کے روز ایک نیا الرٹ رپورٹ ہوا جس کے بعد دارالحکومت میں متعدد اسکولز بند کردیے گئے۔

راقم نے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے جاری کیا جانے والا ایک پیغام دیکھا ہے جس میں اسٹاف، خاص طور پر غیر ملکیوں کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اب اگر خودکش حملے کا نشانہ بلوچ مظاہرین ہیں تو غیر ملکی تنظیمیوں کو کیوں خبردار کیا جارہا ہے۔ نگران وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ تھریٹ الرٹ کا الیکشن ملتوی ہونے سے کوئی تعلق نہیں، ان کا اصرار ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی استعداد پر اعتماد کریں، لیکن ان تمام حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود الیکش کے انعقاد کے حوالے سے ابہام تاحال موجود ہے۔

8 فرروی کو ہونے والے الیکشن گزشتہ عام انتخابات سے اس طرح مختلف ہیں کہ پہلے ملک کے طاقتور ادارے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف پر برہم تھے اور ان کا سارا جھکاؤ کرکٹر سے سیاست دان بننے والے عمران خان کی جانب تھا۔ اس بار یہ معاملہ الٹ ہے۔

نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے اور اداروں کی تضحیک کے الزام میں پاکستان تحریک انصاف فوج کی نظر میں اپنی وقعت کھو چکی ہے۔ پارٹی کے سربراہ عمران خان پر کئی سنگین الزامات ہیں اور وہ کئی ماہ سے جیل میں قید ہیں۔

ان کے دیرینہ ساتھی ضمیر کی آواز یا مبینہ دباؤ کے نتیجے میں ایک ایک کرکے انہیں چھوڑ چکے ہیں۔ جبکہ نئے آنے والے الزام عائد کرتے ہیں کہ ان پر پارٹی چھوڑنے کا دباؤ ہے اور انہیں الیکشن مہم نہیں کرنے دی جارہی۔

اسلام آباد کے ڈرائنگ روزمز میں کبھی سرگوشی کی جاتی ہے کہ نواز شریف حکومت بنانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے تو کبھی بتایا جاتا ہے کہ وہ درخواست کر رہے ہیں کہ انہیں بطور وزیر اعظم ان کی گزشتہ مدت ہی پوری کرنے دی جائے۔

سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عبدالرزاق کھٹی کے خیال میں بے یقینی کی ایک وجہ الیکشن کی روایتی سیاسی گہما گہمی نہ ہونا بھی ہے۔ سیاسی جماعتیں اس لیے خاموش ہیں کہ ان کے پاس کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے۔ نواز اور پیپلز پارٹی کا امریکا اور فوج مخالف بیانیہ عمران خان ہائی جیک کرچکے ہیں۔ ملک پر کئی بار حکومت کرنے کے باجود مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے پاس ووٹرز کو دکھانے کے لیے کوئی کارکردگی نہیں۔ آج ملک تقریباً دیوالیہ ہوچکا ہے لیکن کسی جماعت کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ عبدالرزاق کھٹی سمجھتے ہیں کہ اس بار الیکشن عمران حامی اور عمران مخالف کی بنیاد پر لڑا جائےگا۔

’انتخابات 8 فروری کو ہو رہے ہیں‘

اس وقت انتخابات کے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا ملک میں 8 فروری کو انتخابات ہورہے ہیں یا نہیں۔ انگریزی اخبار سے منسلک سینئر تجزیہ کار ابرار سعید کہتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پھیلائی جارہی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ الیکشن کے روز لوگ گھروں سے نہ نکلیں اور دھاندلی کرنے والوں اور اپنا کھیل کھیلنے والوں کو موقع مل جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حملوں کا بھی خدشہ ہے جن سے انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں۔ جید سیاسی تجزیہ کار اور سینیئر صحافی سہیل ورائچ نے تو تمام خدشات رد کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات 8 فروری کو ہو رہے ہیں۔

عبدالرزاق کھٹی کی رائے میں اگر کسی وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہوئی تو اس کا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا۔ ان کے مطابق دو سال پہلے پاکستان تحریک انصاف اپنی مقبولیت کھو چکی تھی۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت برطرف ہونے اور عمران خان کے خلاف کیسز بننے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں بے پایاں اضافہ ہوا۔

ٹرن آوٹ کیا ہوگا؟

گزشتہ انتخابات کے نتائج کے اعتبار سے پاکستان میں اس وقت تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں۔ گزشتہ الیکشنز کے دوران پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جس کے ووٹر کا مزاج جارحانہ ہے۔ وہ نہ صرف الیکشن مہم میں حصہ لیتا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اپنی جماعت کے حق میں لوگوں کو قائل کرتا ہے اور آکر ووٹ بھی ڈالتا ہے۔

تاہم اس بات کا امکان ہے کہ موجودہ حالات میں جب پی ٹی آئی قیادت سنگین الزامات کا سامنا کر رہی ہے، پی ٹی آئی ووٹر اس بار گھر سے ہی نہ نکلے۔ پاکستان تحریک انصاف سے ان کا انتخابی نشان بلا چھن جانے اور اس کے امیدواروں کو مضحکہ خیز نشانات جیسے کہ جوتا الاٹ کیے جانے پر پی ٹی آئی ووٹر کے کنفیوز ہوجانے کا بھی امکان ہے۔

پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا پارٹی سے چھن جانے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ پارٹی کو ووٹ کم ملے یا ضائع ہوجائے۔ کیونکہ آبادی کا خاطر خواہ حصہ خواندہ نہیں۔ دیہات کے رہنے والوں کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ کسی نئے نشان پر درست انداز میں مہر ثبت کر سکیں۔

سینئر صحافی سہیل وڑائچ کی رائے میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت جیلوں میں ہے۔ کارنر میٹنگز نہیں ہوپارہی ہیں۔ ایسے میں نئے امیداوروں کے لیے منظم مہم چلانا مشکل ہوگا۔ سہیل وڑائچ کے خیال میں انتخاب میں کامیابی کا بڑا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ امیدوار اپنی الیکشن مہم کیسے چلاتے ہیں، کس طرح لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے قائل کرتے ہیں اور الیکشن والے دن کس طرح اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کا ووٹر پولنگ اسٹیشن آکر درست ووٹ ڈالے۔

لیکن پی ٹی آئی کو ووٹ کم پڑنا یا ضائع ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کو ہی ہوگا۔ خدشہ ہے کہ شاید مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ووٹر بھی کم ہی نکلیں کیونکہ الیکشن میں دو ہفتے رہ گئے ہیں لیکن ان جماعتوں کی انتخابی مہم ابھی تک زور نہیں پکڑ سکی ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں انتخابات حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا بین الاقوامی برادری پاکستان کے عام انتخابات کے نتائج تسلیم کرے گی یا نہیں۔ بنگلہ دیش میں حال ہی میں منعقد ہونے والے الیکشنز کو امریکا نے غیر منصفانہ قرار دے دیا ہے۔

عبدالرزاق کھٹی سمجھتے ہیں کہ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اگر موسم کو بھی مدنظر رکھیں تو ٹرن آوٹ کم رہنے کی امید زیادہ ہے کیونکہ ملک کے بیشتر بالائی علاقوں میں ابھی تک برف باری شروع نہیں ہوئی ہے۔ اگر فروری میں برف باری ہوئی تو شاید کئی علاقوں میں لوگ پولنگ اسٹیشن ہی نہ پہنچ پائیں۔

انتخابات کا نتیجہ کیا ہوگا؟

اسلام آباد میں انتخابات کے نتائج کے حوالے سے کئی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن اس بات پر مصر ہیں کہ الیکشن میں ان کی جماعت سبقت لے جائے گی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے حامی بضد ہیں کہ اداروں کے نواز شریف سے معاملات طے ہیں اور وہی وزیر اعظم ہوں گے۔ کئی لوگ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی، جے یو آئی وغیرہ اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں پر مشتمل ایک قومی حکومت بنانے کی بات کررہے ہیں۔ ان لوگوں میں سینیٹر محمد علی درانی بھی شامل ہیں۔

سینیٹر محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں اس لیے ان کے مشورے کو اسٹیبلشمنٹ کی آواز سمجھا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی عام انتخابات کے بعد ماضی کی طرح ایک کمزور سی حکومت بنائے جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔

سنجیدہ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یہ سب افواہیں اور پروپیگنڈا ہیں۔ ابرار سعید کی رائے میں عوامی یا کمزور حکومت اسی وقت وجود میں آسکتی ہے جب کوئی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکے۔ اگر انتخابات میں کم لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں تو ہی دھاندلی کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اگر پولنگ والے دن ٹرن آوٹ زیادہ رہتا ہے تو شاید وسیع پیمانے پر دھاندلی ممکن نہ ہوسکے۔

عبدالرزاق کھٹی کہتے ہیں کہ پاکستان کے عام انتخابات ایک ایسے وقت میں ہورہے ہیں جب امریکا اور بھارت میں بھی رائے شماری ہورہی ہے۔ اگر امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آتے ہیں تو شاید پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ ہو۔ امریکی صدارتی انتخابات اس ماہ سے شروع ہو رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ وہ کھمبے کو بھی کھڑا کردے تو اسے ووٹ پڑے گا اور وہ جیت جائے گا لیکن ضروری نہیں کہ موجودہ حالات میں ان کی خود اعتمادی درست ہی ثابت ہو۔

کیا الیکشن کے بعد معاشی استحکام آسکے گا؟

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ الیکشن سے بے یقینی کی فضا تو چھٹ جائے گی، لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہوگا لیکن الیکشن کے بعد معاشی استحکام کی فوری کوئی امید نہیں۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے تجزیے کے مطابق الیکشن کے بعد دوست ممالک سے امداد یا فارن ڈائرکٹ انویسٹمنٹ کے حوالے سے امیدیں حقائق کے منافی ہیں۔حکومت کہہ رہی ہے کہ 125 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان آنے والی ہے۔ لیکن پچھلے 23 برسوں میں پاکستان میں کل 48 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی جس کی سالانہ اوسط 2 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اب اتنی خطیر رقم یک دم کیسے آجائے گی؟

پھر پاکستان کو پرانے قرض بھی ادا کرنے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے دو عبوری قسطیں ملنی ہیں ۔ اور فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان 2024ء میں ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لےگا۔ یہ قرضہ کڑی شرائط پر ہوگا۔

الیکشن کے بعد اگر دوست ممالک پاکستان کو مطلوبہ قرضہ یا امداد دے بھی دیں تو وقتی تو گزارہ ہوجائے گا لیکن اگلے سال پاکستان شاید کڑی قسطوں پر لیا گیا بیرونی قرض کی قسط ہی نہ ادا کرپائے۔ اگر پاکستان قرضوں کی ری شیڈولنگ، ری پروفائلنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کے علیحدہ نتائج ہوں گے۔

شاہد حسن صدیقی کے مطابق اگر پاکستان توانائی ٹیکسوں کے شعبے میں اصلاحات نہیں کرتا، تعلیم و صحت کا بجٹ نہیں رکھا جاتا اور اس کو قانونی شکل نہیں دی جاتی تو پاکستان خودکشی کی جانب جارہا ہے۔

صحافی اور اقتصادی امور کے ماہر خرم حسین کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کو اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اگر فوری اصلاحات ہوجائیں اور نئی حکومت مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے عوامی مقبولیت کے فیصلوں سے اجتناب کر سکے تو دو سال کے بعد پاکستان کے اقتصادی حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ خرم حسین کے مطابق آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید بڑھے گی اور اگلے کم از کم دو سال پاکستان کے لیے معاشی طور پر بہت کٹھن ہوں گے۔

حرف آخر

ماہرین کا خیال ہے کہ الیکشن کے بعد بے یقینی کی فضا تو چھٹ جائے گی لیکن ملک ترقی اس وقت ہی کرے گا جب توانائی ٹیکس اور دوسرے شعبوں میں اصلاحات ہوں گی۔ ان اصلاحات کے نفاذ کے کوئی دوسال بعد ہی بہتری ہونا شروع ہوگی۔

لیکن کیا کسی سیاسی حکومت کے لیے اصلاحات یا دیگر الفاظ میں مزید مہنگائی کرنا ممکن ہوگا؟

اس تجزیے میں صرف اندرونی منطقی ممکنات پر بات کی گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال یا کسی دوسرے واقعے سے اگر کوئی بین الاقوامی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو ایسی صورت میں معاملات یکسر تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2001ء میں امریکا اور افغانستان کے درمیان جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشیت میں بہت بہتری آئی تھی۔

عاطف خان

صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔