نقطہ نظر

انتخابی مہم میں مصنوعی ذہانت کا بڑھتا ہوا رجحان

سیاسی جماعتیں اے آئی کا استعمال کرکے ایسے ووٹرز کے ذہن پر اثرانداز ہورہی ہیں جو نہ ڈیجیٹل دنیا سے واقفیت رکھتے ہیں اور نہ ہی سیاسی طور پر متحرک ہیں۔ ایسے میں وہ کیسے بتائیں گے کہ حقیقی اور مصنوعی میڈیا میں کیا فرق ہے؟

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اپنے ورچوئل جلسے کے لیے سابق وزیراعظم عمران خان کی آواز میں تقریر بنانے میں مصنوعی ذہانت ( اے آئی) کے استعمال کو ابھی ایک مہینہ ہی گزرا ہوگا کہ اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سیاسی رہنماؤں کی مصنوعی ذہانت کے ذریعے آوازیں بنانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔

اے آئی سے بنائے گئے پارٹی گانوں سے لے کر تشہیری تصاویر تک، مصنوعی ذہانت کے آواز اور ایڈیٹنگ کرنے والے ٹولز نے ٹیکنالوجی کے ذریعے انتخابی مہم کو ایک نیا رخ دیا ہے جس سے ڈیجیٹل سیاست کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔

گزشتہ عام انتخابات میں ہم نے ڈیجیٹل سیاسی مہم کا بڑھتا ہوا رجحان دیکھا تھا جہاں جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے، منظم طور پر ہیش ٹیگ ٹرینڈز چلائے گئے، خصوصی موبائل ایپلیکیشنز بنائی گئیں اور بڑے سوشل میڈیا ’کنوینشنز‘ جیسے طریقوں سے ڈیجیٹل مہمات چلائی گئیں۔ اب جب ہمارا ملک فروری میں سب سے بڑے ڈیجیٹل انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے تو ایسے میں سیاسی جماعتیں یہ جاننا چاہتی ہیں کہ سیاست میں ٹیکنالوجی کی حالیہ مداخلت سے وہ کیسے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

مذکر اعجاز جوکہ مسلم لیگ (ن) کے ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ اور ان کی ڈیجیٹل اسٹریٹجی کے ذمہ دار ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ ’اکتوبر میں نواز شریف کی آمد سے قبل مینارِ پاکستان میں ان کے جلسے کے لیے مواد تیار کرنے کے لیے ہم نے اے آئی کا استعمال کیا‘۔

مذکر اعجاز نے کہا ’تصاویر بنانے کے لیے اے آئی کا استعمال فائدہ مند ہے لیکن یہ ٹولز اردو میں اتنے اچھے نہیں ہیں اس لیے ہم انہیں محدود حد تک ہی استعمال کرپاتے ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کو سپورٹ کرنے کے لیے انہوں نے 30 ڈیجیٹل ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔

اے آئی کا استعمال سوشل میڈیا ٹیموں کے اخراجات بچاتا ہے کیونکہ اگر وہ اس کا استعمال نہ کریں تو انہیں اعدادوشمار کا تجزیہ کرنے اور تشہیری مہمات کے لیے مہنگے ماہرین کی خدمات حاصل کرنی پڑے گی، ہاں البتہ اس مواد پھیلاؤ کے مضمرات پریشان کُن ثابت ہوسکتے ہیں۔

گزشتہ سال ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر عمران خان کی آنکھیں بند دکھائی گئیں جس سے ان کے حامیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ جیل میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہورہا۔ ایکس پر پوسٹ کی جانے والی 26 سیکنڈز کی اس کلپ کو 500 سے زائد بار شیئر کیا گیا۔ خبررساں ادارے اے ایف پی کے فیکٹ چیک نے انکشاف کیا کہ اس ویڈیو میں فلٹر استعمال کیا گیا ہے جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ عمران خان کی آنکھیں بند ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے کہا کہ ’اے آئی کے استعمال کے مضمرات پریشان کُن ہیں۔ سیاسی جماعتیں اے آئی کا استعمال کرکے ایسے ووٹرز کے ذہن پر اثرانداز ہورہی ہیں جو نہ ڈیجیٹل دنیا سے واقفیت رکھتے ہیں اور نہ ہی سیاسی طور پر متحرک ہیں۔ ایسے میں وہ حقیقی اور مصنوعی میڈیا میں کیسے فرق کریں گے؟

نگہت داد مصنوعی ذہانت پر اقوامِ متحدہ کے مشاورتی باڈی کی رکن بھی ہیں، وہ خبردار کرتی ہیں کہ اے آئی کے استعمال سے متعلق ضابطوں پر اٹھنے والے سوالات اب تک جواب طلب ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس تناظر میں دیکھیں تو اے آئی کے استعمال سے لوگوں کا معلومات کی ساکھ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا‘۔

پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ذمہ دار جبران الیاس نے ڈان کو بتایا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ حقیقی اور اے آئی کی مدد سے بنائے گئے مواد میں فرق ہے۔ ’ہمیں اردو میں 65 فیصد درستگی حاصل کرنے کےلیے 36 بار تبدیلی کرنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے لوگ باآسانی بتا سکتے ہیں کہ یہ اصلی نہیں ہے‘۔

جبران الیاس نے کہا کہ ہم اے آئی کے استعمال کے حوالے سے آگہی رکھتے ہیں اس لیے ہم نے عمران خان کے آن لائن جلسے میں یہ واضح کیا تھا کہ ’یہ عمران خان کی اے آئی آواز‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم اے آئی کو بہت طریقوں سے استعمال کرنے کے تجربے کررہےہیں لیکن ہمیں ضابطوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ ہم پولنگ کے دن سے پہلے عمران خان کی ایک اور اے آئی تقریر جاری کرنے پر طور پر غور کرسکتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں اور دیہی علاقوں میں ٹک ٹاک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے پی ٹی آئی انتخابات سے قریب، اپنی مہم کے لیے ٹک ٹاک پر توجہ مرکوز کرے گی۔

لوگوں میں ڈیجیٹل آگہی

گزشتہ عام انتخابات 2018ء کے بعد سے انٹرنیٹ صارفین کے استعمال میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پی ٹی اے کے مطابق 2018ء میں 5 کروڑ 50 لاکھ موبائل براڈ بینڈ سبسکرائبرز جبکہ 5 کروڑ 50 لاکھ براڈ بینڈ انٹرنیٹ صارفین تھے لیکن نومبر 2023ء کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 12 کروڑ 60 لاکھ موبائل براڈ بینڈ صارفین جبکہ 12 کروڑ 90 لاکھ براڈبینڈ انٹرنیٹ صارفین ہیں (جوکہ مجموعی آبادی کا 54 فیصد ہیں)۔

ڈیجیٹل استعمال میں نمایاں اضافے کے پیشِ نظر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پہلی بار عام انتخابات میں ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے لیے بھی ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔ ضابطہ اخلاق میں قومی نظریے، خودمختاری، وقار یا سلامتی کے لیے نقصان دہ، قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والے یا امن و امان کے مسائل پیدا کرنے والے مواد کو پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔

انتخابات سے قبل ٹیک پلیٹ فارمز کے ساتھ ڈیجیٹل آگہی کے اقدامات پر کام کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹیکنالوجی کے ذمہ دارانہ استعمال اور فنڈنگ سے متعلق کوئی اصول جاری کرتا اور نہ ہی ذمہ داروں کا احتساب کرتا ہے۔

فریڈم نیٹ ورک فار کولیشن اگینسٹ ڈس انفارمیشن (سی اے ڈی) کی جانب سے ایک تحقیق کی گئی جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ یونیورسٹی کے طلبہ غلط معلومات کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان (63 فیصد جواب دہندگان) کا خیال ہے کہ انہیں انٹرنیٹ پر ہر روز غلط معلومات ملتی ہیں اور 62 فیصد کے مطابق یہ غلط معلومات جمہوریت اور انتخابات کے لیے خطرہ ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں سینٹر آف ایکسی لینس ان جرنلزم (سی ای جے) کی ڈائریکٹر عنبر راحم شمسی نے کہا کہ ’سچ کی قدر ختم ہوگئی ہے۔ ہم نے پاکستان بھر میں 800 طلبہ کے لیے 13 جامعات میں ڈیجیٹل لٹریسی ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ ہم نے دیکھا کہ نوجوان اب تک حقیقت اور پروپیگنڈے کے درمیان فرق پہچاننے سے قاصر ہیں‘۔

امبر راحم شمسی اور ان کی ٹیم نے حال ہی میں ملک کے صحافتی منظر نامے میں آزاد اور غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کے لیے غیر جانبدارانہ حقائق کی جانچ کے لیے iVerify کا آغاز کیا ہے۔ ’2018ء کے بعد سے میڈیا ادارے حقائق کی جانچ کے بارے میں زیادہ باشعور ہوچکے ہیں۔ تاہم جن طلبہ سے ہم نے بات کی، ان میں سے کوئی بھی فیکٹ چیک کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہے۔ اس حوالے سے اب بھی بہت سے اقدامات لینا باقی ہیں‘۔


یہ مضمون 16 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رمشا جہانگیر

لکھاری ڈان اخبار کی اسٹاف ممبر ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ramshajahangir@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔