نقطہ نظر

آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں پاکستان نے کیا کھویا، کیا پایا؟

عامر جمال نے اپنی اس اولین ٹیسٹ سیریز میں، جہاں غیر معمولی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا، وہاں انہوں نے اعتماد سے بھرپور جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 143 رنز بنائے۔

آسٹریلیا کی وکٹوں پر کرکٹ خاص طور پر ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا، پاکستان کے لیے ہمیشہ ہی دشوار رہا ہے۔ پاکستان 1964ء سے اب تک تقریباً 50 برسوں میں 14 مرتبہ اس ملک کا دورہ کرچکا ہے۔ وہاں 40 ٹیسٹ کھیلے مگر صرف چار میچز ہی جیت سکا جبکہ اسے 29 ٹیسٹ میچز میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

دونوں ممالک کے درمیان آسٹریلیا کی سرزمین پر اب تک 13 ٹیسٹ سیریز کھیلی جا چکی ہیں۔ ان 13 ٹیسٹ سیریز میں سے 11 میں پاکستان کو شکست ہوئی جبکہ دو سیریز برابر رہیں۔ آسٹریلیا 7 مرتبہ پاکستان کے خلاف سیریز میں کلین سویپ کرچکا ہے جبکہ آج تک کوئی اور ملک پاکستان کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں سیریز وائٹ واش نہیں کر سکا ہے۔

اس بات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے آسٹریلیا کے خلاف اسی کی سرزمین پر کھیلنا کس قدر مشکل ہے۔ اب حالیہ سیریز میں بھی آسٹریلیا نے پاکستان کو تینوں ٹیسٹ میچز ہرا کر کلین سویپ کیا ہے۔ اس نے پرتھ میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں 360 رنز کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کی، پھر وہ میلبرن میں 79 رنز سے کامیاب ہوا اور سڈنی میں کھیلا گیا تیسرا اور آخری ٹیسٹ 8 وکٹوں سے جیتا۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے اس مرتبہ پاکستان کرکٹ ٹیم ایک نئے کپتان کی قیادت اور نئے کوچنگ اسٹاف کی ماتحتی میں کھیلی مگر شان مسعود واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جن کی کپتانی میں کھیلی گئی اولین ٹیسٹ سیریز میں قومی ٹیم کو کلین سویپ کی ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔

اب تک دونوں ممالک کے درمیان مجموعی طور پر 72 ٹیسٹ میچز کھیلے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 40 ٹیسٹ آسٹریلیا کی سرزمین پر، 23 پاکستان میں جبکہ 9 میچز نیوٹرل مقامات پر کھیلے گئے۔ ان میں سے آسٹریلیا نے 37 ٹیسٹ، پاکستان نے 15 ٹیسٹ میچز جیتے جبکہ 20 میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔

آسٹریلیا اپنی سرزمین پر پاکستان کو 7 مرتبہ سیریز میں کلین سویپ کرنے کے علاوہ ایک بار نیوٹرل مقام پر بھی وائٹ واش کرچکا ہے۔ اس طرح آسٹریلیا نے کُل 8 مرتبہ پاکستان کو سیریز میں کلین سویپ کیا ہے جبکہ پاکستان بھی آسٹریلیا کو دو بار وائٹ واش کرچکا ہے۔ ایک مرتبہ 83-1982ء میں عمران خان کی قیادت میں ہوم گراونڈ پر اور دوسری بار 15-2014ء میں مصباح الحق کی کپتانی میں متحدہ عرب امارات میں۔

پاکستان نے آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈ پر کھیلے گئے 23 ٹیسٹ میچز میں سے 7 میں شکست دی جبکہ آسٹریلیا صرف 4 مرتبہ فاتح رہا اور 12 ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ نیو ٹرل مقامات پر 9 ٹیسٹ کھیلے گئے۔ دونوں ممالک نے چار، چار میچز جیتے اور ایک میچ ڈرا ہوا۔ کینگروز کی سرزمین پر اب تک کھیلے گئے 40 ٹیسٹ میچز میں سے آسٹریلیا نے 29 ٹیسٹ جیتے، 7 ڈرا ہوئے جبکہ پاکستان صرف 4 ٹیسٹ ہی جیت  سکا۔

پاکستان نے آسٹریلیا کی سرزمین پر جو 4 ٹیسٹ جیتے ان میں پہلے دو میچز مشتاق محمد کی قیادت میں کھیلے گئے تھے۔ پہلا میچ 77-1976ء میں سڈنی میں جبکہ دوسرا 79-1978ء میں میلبرن میں کھیلا گیا۔

اس طرح مشتاق محمد پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف اسی کی سرزمین پر دو ٹیسٹ میچز میں فتح یاب کروانے والے واحد کپتان ہیں۔ پاکستان کو آسٹریلیا میں تیسرا ٹیسٹ جتانے والے کپتان جاوید میانداد ہیں جنہوں نے 82-1981ء میں سڈنی میں فتح دلائی۔ پاکستان نے چوتھا ٹیسٹ 96-1995ء میں سڈنی ہی میں وسیم اکرم کی کپتانی میں جیتا۔ یہ آسٹریلیا کی سرزمین پر پاکستان کی آخری کامیابی تھی جس کو اب 28 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔

اس مرتبہ آسٹریلیا کے دورے پر بابر اعظم کی جگہ شان مسعود کو پاکستان کا نیا کپتان مقرر کیا گیا۔ وہ قومی ٹیسٹ ٹیم کے 35 ویں کپتان بنے۔ وہ آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی قیادت کرنے والے 22 ویں جبکہ آسٹریلیا کی سرزمین پر پاکستان کی کپتانی کرنے والے 12ویں کھلاڑی ہیں۔ توقع تھی کہ شان کی قیادت میں پاکستان آسٹریلیا کو اسی کی سرزمین پر 28 سال بعد شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ تین ٹیسٹ میچز کی اس سیریز میں پاکستان کو آٹھویں بار وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تو پاکستان کا آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرانا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

ٹیم کارکردگی

سیریز کے دوران اننگز میں کسی بھی ٹیم کا سب سے زیادہ اسکور 487 رنز تھا جو آسٹریلیا نے پرتھ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں اسکور کیا جبکہ پاکستان کا زیادہ سے زیادہ اسکور 313 رنز تھا جو اس نے سڈنی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں اسکور کیا۔ آسٹریلیا نے سیریز میں سب سے کم اسکور 262 رنز میلبرن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بنائے جبکہ پاکستان پرتھ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں صرف 89 رنز پر آؤٹ ہوا جوکہ سیریز میں اس کا سب سے کم اسکور ہے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا 12واں کم ترین اسکور ہے یہ اب تک 18 مرتبہ اننگز میں 100 سے کم اسکور کرچکا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میلبرن ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں آسٹریلیا کی پوری ٹیم 318 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی تو اس کے تمام 10 کھلاڑی کیچ آؤٹ ہوئے تھے۔ آسٹریلیا کے ساتھ ایسا 10ویں مرتبہ ہوا تھا۔ اس قسم کے سب سے زیادہ واقعات انگلینڈ کے ساتھ پیش آئے جن کی تعداد 16 ہے جبکہ بھارت کے ساتھ 15 اور نیوزی لینڈ کے ساتھ 13 مرتبہ یہ واقعات پیش آچکے ہیں۔ پاکستان اور سری لنکا اس قسم کے 9 واقعات میں ملوث ہیں کہ جب ٹیم کے تمام 10 کھلاڑی کیچ آؤٹ ہوئے ہوں۔ تاہم پاکستان کے خلاف آسٹریلیا کا یہ پہلا اتفاق تھا۔

سیریز کے تینوں ٹیسٹ میچز میں آسٹریلیا کی ٹیم الیون برقرار رہی۔ کسی بھی میچ کے لیے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی کیونکہ اس کے تمام کھلاڑی فارم میں تھے اور فٹ تھے جبکہ اس کے برعکس پاکستانی ٹیم کے بیشتر کھلاڑی فارم اور فٹنس کے مسائل سے دوچار رہے۔ پاکستان نے اس سیریز میں اپنے 16 کھلاڑی آزمائے۔ دوسرے ٹیسٹ میں تین جبکہ تیسرے میں دو کھلاڑی تبدیل کیے گئے۔ پاکستان کی جانب سے تین کھلاڑیوں نے ٹیسٹ ڈیبیو کیا۔ پہلے میچ میں دو فاسٹ باؤلرز خرم شہزاد اور عامر جمال نے کامیاب ڈیبیو کیا مگر خرم کے اَن فٹ ہوجانے کے باعث وہ دوسرا اور تیسرا ٹیسٹ نہیں کھیل سکے۔ تیسرے ٹیسٹ میں نوعمر بلے باز صائم ایوب کو موقع دیا گیا جو پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے لیکن دوسری اننگز میں نہایت  اعتماد  سے کھیلے۔

سیریز میں تین نئے کھلاڑیوں کی شرکت کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی تعداد 256  تک پہنچ چکی ہے۔

بیٹنگ کارکردگی

پوری سیریز میں دونوں ٹیموں کی جانب سے سوائے ڈیوڈ وارنر کے کوئی بھی بلے باز سنچری اسکور نہیں کر پایا۔ وارنر جو اپنے کریئر کی آخری ٹیسٹ سیریز کھیل رہے تھے، پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 164 رنز کی بڑی اننگز کھیلی۔ یہ ان کے ٹیسٹ کریئر کی 26ویں سنچری تھی جبکہ پاکستان کےخلاف چھٹی بار انہوں نے سنچری اسکور کی۔ اس طرح انہوں نے پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ ٹیسٹ سنچریاں بنانے کا ریکارڈ برابر کردیا جو مشترکہ طور پر گریگ چیپل اور ایلن بورڈر کے نام تھا۔

دونوں ٹیموں کی جانب سے کُل 19 نصف سنچریاں اسکور کی گئیں۔ 11 آسٹریلیا جبکہ 8 نصف سنچریاں پاکستان کے کھلاڑیوں نے اسکور کیں۔ آسٹریلیا کی جانب سے مچل مارش نے 4 اور مارنس لبوشین نے 3 نصف سنچریاں بنائیں۔ چار آسٹریلوی بلے باز عثمان خواجہ، ایلکس کیری، اسٹیو اسمتھ اور وارنر نے ایک، ایک نصف سنچری اسکور کی۔ پاکستان کی طرف سے کپتان شان مسعود اور سلمان علی آغا نے دو، دو جبکہ امام الحق، عبداللہ شفیق، محمد رضوان اور عامر جمال نے ایک، ایک نصف سنچری بنائیں۔

مجموعی طور پر پاکستانی کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی مایوس کُن رہی۔ کوئی بھی کرکٹر مجموعی طور پر 200 رنز بھی نہیں بنا سکا جبکہ آسٹریلیا کے چار بلے بازوں نے 200 سے زائد رنز اسکور کیے۔ مچل مارش 344 رنز بنا کر سرِفہرست رہے جبکہ ڈیوڈ وارنر نے 299، عثمان خواجہ نے 220 اور لبوشین نے 207 رنز بنائے۔

پاکستان کی طرف سے محمد رضوان نے دو ٹیسٹ کھیل کر 194 رنز اور شان مسعود نے تین میچز میں 181 رنز بنائے۔

حیرت انگیز طور پر عامر جمال نے اپنے اس اولین ٹیسٹ میں جہاں غیر معمولی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا وہاں انہوں نے اعتماد سے بھرپور جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 143 رنز بھی بنائے اور اس سیریز میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے پاکستانی بلے بازوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر رہے۔ سلمان علی آغا نے 141، بابر اعظم نے 126 اور عبداللہ شفیق نے 110 رنز  اسکور کیے۔

موجودہ دور کے بہترین بلے بازوں میں شمار کیے جانے والے بابر اعظم بدقسمتی سے گزشتہ کئی ماہ سے خراب فارم کا شکار ہیں۔ 50 سے زائد ٹیسٹ کھیل کر 9 سنچریوں اور 26 نصف سنچریوں کی مدد سے تقریباً 4 ہزار رنز بنانے والے بابر، سال بھر سے ایک نصف سنچری بھی اسکور نہیں کرپائے ہیں۔ ان کو کپتانی سے اس لیے ہٹایا گیا تاکہ وہ بیٹنگ پر بھرپور توجہ دے کر اپنی کھوئی ہوئی فارم واپس لاسکیں مگر وہ ابھی تک ایسا کچھ  بھی  نہیں کرپائے ہیں۔

اوپنرز کی کارکردگی

پاکستانی اوپنرز کی کارکردگی بھی اچھی نہیں رہی۔ امام الحق نے سیریز کا آغاز نصف سنچری سے کیا مگر بعد کی 3 اننگز میں وہ صرف 32 رنز بنا سکے۔ تیسرے ٹیسٹ میں ان کی جگہ نئے اوپنر صائم ایوب کو موقع دیا گیا۔ انہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز صفر سے کیا مگر دوسری اننگز کے دوران نہایت مشکل صورت حال میں اعتماد سے کھیلے اور تین چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 33 رنز بنائے۔ اگر ان پر توجہ دی گئی تو وہ مستقبل کے بہترین اوپنر ثابت ہوسکتے ہیں۔

عبداللہ شفیق نے بھی ایک نصف سنچری بنائی مگر وہ تیسرے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں کوئی رنز نہیں بناسکے۔ اس طرح انہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا پہلا ’پیئر‘ حاصل کیا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پیئر حاصل کرنے والے پاکستان کے 42ویں کھلاڑی اور 8ویں اوپنر ہیں۔

اس ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں عبداللہ شفیق اور صائم ایوب، دونوں صفر پر آؤٹ ہوئے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں 10واں موقع تھا کہ جب دونوں پاکستانی اوپنرز ایک ہی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوۓ ہوں۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز 21 سالہ صائم ایوب 32ویں پاکستانی کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز صفر  سے کیا۔

مڈل آرڈر بیٹنگ

شان مسعود پہلی بار کپتان کی حیثیت سے کھیلے اور وہ بھی آسٹریلیا کے خلاف اسی کی سرزمین پر۔ تاہم ان کی بیٹنگ قدرے بہتر رہی البتہ وہ زیادہ اچھی کارکردگی پیش کرسکتے تھے۔ انہوں نے میلبرن ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں نصف سنچریاں اسکور کیں۔ وہ پاکستان کے تیسرے کپتان ہیں جنہوں نے آسٹریلیا کے خلاف اسی کی سرزمین پر دونوں اننگز میں نصف سنچریاں بنائیں۔ اس سے قبل 65-1964ء میں حنیف محمد اور 84-1983ء میں عمران خان یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔

دیگر بلے باز بھی شان کا ساتھ نہ دے سکے۔ بابر بھی ناکام رہے۔ سب سے زیادہ ناکام سعود شکیل رہے جن سے بہت توقعات تھیں۔ اس سیریز سے پہلے وہ صرف 7 ٹیسٹ اور 13 اننگز کھیل کر 87.50 کی اوسط سے 875 رنز بناچکے تھے۔ توقع تھی کہ وہ سب سے کم ٹیسٹ کھیل کر ایک ہزار رنز مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کریں گے۔ مگر وہ 3 ٹیسٹ اور 6 اننگز میں صرف 92 رنز ہی بناسکے۔

تاہم محمد رضوان اور سلمان علی آغا نے اچھی بیٹنگ کی۔ اگر پہلے ٹیسٹ کے بعد سرفراز احمد کو نہ ہٹایا جاتا اور رضوان کو صرف بلے باز کی حیثیت سے کھلایا جاتا تو مڈل آرڈر بیٹنگ زیادہ مضبوط ہو جاتی۔

باؤلنگ کارکردگی

پاکستان کا باؤلنگ کا شعبہ مجموعی طور پر عمدہ رہا مگر آؤٹ آف فارم باؤلرز حسن علی اور فہیم اشرف بالکل ناکام رہے۔ فہیم نے ایک ٹیسٹ میں ایک اجبکہ حسن علی نے دو میچز میں دو وکٹیں حاصل کیں۔ یہ آل راؤنڈرز اسکور بھی نہیں کرسکے۔ شاہین آفریدی اگرچہ پہلے ٹیسٹ میں صرف دو وکٹ لے سکے مگر دوسرے ٹیسٹ میں انہوں نے 6 وکٹیں لیں مگر اس کے باوجود انہیں تیسرے میچ میں یہ کہہ کر ڈراپ کردیا گیا کہ انہیں آرام کی ضرورت ہے۔ حالانکہ سیریز کو وائٹ واش سے بچانے کے لیے شاہین جیسے اہم اسٹرائیک باؤلر کا کھیلنا ضروری تھا۔ اس پر باؤلنگ لیجنڈز وسیم اکرم اور وقار یونس نے بھی سخت اعتراض کیا۔

میر حمزہ نے بھی اچھی باؤلنگ کی اور دو میچز کھیل کر 7 وکٹیں حاصل کیں۔ نئے باؤلرز خرم شہزاد اور عامر جمال کے ٹیسٹ کریئر کا آغاز متاثر کُن رہا۔ خرم نے پہلے ٹیسٹ میں 5 وکٹیں لیں مگر ان فٹ ہوجانے کے باعث سیریز سے باہر ہوگئے۔ مگر عامر جمال نے تو کمال کردیا۔ اپنی اولین ٹیسٹ اننگز میں انہوں نے 111 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ دنیا کے 69ویں اور پاکستان کے 7ویں باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ ڈیبیو اننگز میں 6 وکٹیں حاصل کیں۔

عامر جمال نے تیسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بھی 69 رنز کے عوض 6 وکٹیں لیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 82 رنز بنائے۔ وہ تیسرے پاکستانی کھلاڑی ہیں جنہوں نے آسٹریلیا کے خلاف اسی کی سرزمین پر نصف سنچری اسکور کی اور ساتھ ہی 6 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ اس سے قبل عمران خان اور وسیم اکرم یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔

عامر جمال نے سیریز کے تینوں ٹیسٹ کھیل کر 18 وکٹیں حاصل کیں اور 143رنز بنائے۔ وہ عمران اور وسیم کے بعد آسٹریلیا کے خلاف اسی کی سرزمین پر بہترین آل راؤنڈ کارکردگی دکھانے والے تیسرے آل راؤنڈر ہیں۔

بہرحال اس سیریز میں پاکستان کی ناکامی سے کپتان، کھلاڑیوں، کوچنگ اسٹاف اور کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداران کو سبق حاصل کرنا چاہیے اور مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اس سیریز سے ظاہر ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے۔ صرف تربیت اور درست قوتِ فیصلہ کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘۔

مشتاق احمد سبحانی

مشتاق احمد سبحانی سینیئر صحافی اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ان کا خاص موضوع ہے جس پر لکھتے اور کام کرتے ہوئے انہیں 40 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ ان کی 4 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔