سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم اور عطاآباد کا المیہ (تیرہویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیں۔
قلعہ التت کے دروازے تک راستہ کچی سیڑھیوں سے ہوتا ہوا اوپر اٹھ رہا تھا۔ سیڑھیوں کے برابر والی چٹانی زمین سفید سنگِ مرمر کی طرح تھی جس پر دودھیا سنگریزے بکھرے ہوئے تھے۔ قلعے کی اونچی دیوار میں لکڑی کا ایک سالخوردہ چھوٹا سا دروازہ تھا۔ لڑکے نے تالا کھول کر اسے اندر کی طرف دھکیلا اور ہم ایک نیم تاریک کمرے میں داخل ہوگئے۔
اس کمرے میں سے ایک بھول بھلیاں جیسا راستہ آگے جارہا تھا۔ یہاں دیواریں اور چھت سیاہ ہورہی تھی۔ کچھ آگے ایک اور دروازہ تھا، اس کے اندر بھی اندھیرا تھا۔ لڑکا اس کے اندر گھسا تو پیچھے پیچھے میں بھی گھسنے لگا مگر سیدھا نہ جا سکا کیونکہ وہ سیڑھی تھی۔ ہم سیڑھی چڑھ کراوپر دوسری منزل پر آگئے۔ یہاں طعام گاہ، باورچی خانہ اور والی ہنزہ کی خواب گاہ تھی۔ خواب گاہ قلعے کی پچھلی دیوار کے ساتھ تھی جس کے باہر ہزاروں فٹ گہری کھائی تھی۔ سامنے کی دیوار میں دو سوراخ تھے جن سے غالباً کھڑکیوں کا کام لیا جاتا تھا۔ میں نے ایک سوراخ میں سے باہر جھانکا تو جھرجھری آگئی۔ یہاں سے دریائے ہنزہ اتنا نیچے گہرائی میں تھا کہ یہاں تک اس کی زوردار آواز بھی نہیں پہنچ رہی تھی۔ دریا کے دوسرے کنارے پر شاہراہ قراقرم پہاڑوں میں بل کھاتی نظر آرہی تھی۔ اس کھڑکی سے شاید چین کی طرف سے آنے والے قافلوں پر نظر رکھی جاتی ہوگی۔
قلعہ التت کو والیانِ ہنزہ نے 900 سال قبل تعمیر کروایا تھا۔ مقامی روایات کے مطابق اس قلعے کو تعمیر کرنے والے کاریگر بلتستان سے آئے تھے۔ غالباً اسی لیے اس قلعے میں بلتستانی طرزِ تعمیر نمایاں ہے۔ 900 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ قلعہ اب تک صحیح سلامت موجود ہے۔ یہ نہ صرف کئی حملوں کو روکنے میں کامیاب رہا ہے بلکہ زلزلوں میں بھی اس نے اپنا وجود قائم رکھا ہے۔ یہ قلعہ دریائے ہنزہ سے ایک ہزار فٹ کی بلندی پر تقریباً معلق ہے اور اس اونچائی سے اردگرد کے سارے علاقے پر نظر رکھی جاسکتی تھی۔
ہم خواب گاہ سے باہر نکلے تو دائیں طرف ایک اور درواز ے میں داخل ہوگئے۔ یہاں ایک طویل بالکونی تھی جس کا چوبی جنگلہ اب بھی خوبصورت نظر آتا تھا۔ اس بالکونی میں کئی کمروں کے دروازے کھلتے تھے۔ بالکونی سے نیچے التت کا عجیب و غریب گاؤں پھیلا ہوا تھا۔ کچی مٹی کے لاتعداد گھر اور ہر گھر کی چھت میں ایک مربع نما سوراخ۔ یہ چکور سوراخ شاید ان گھروں کا لازمی حصہ تھے۔ گاؤں کے بیچ میں پانی کا ایک تالاب بھی نظر آرہا تھا۔ مکانات سے پرے کھیت تھے اور دور وہ پولو گراؤنڈ بھی نظر آرہا تھا جس کے پاس سے ہم گزر کر یہاں پہنچے تھے۔
بالکونی کے ایک سرے پرتخت بچھا ہوا تھا اور اس کے سامنے سے ایک سیڑھی قلعے کی چھت تک جارہی تھی۔ تخت کے اوپر قلعے کا بُرج تھا جو کافی اوپر تک چلا گیا تھا۔ برج کی دیواروں میں بندوقوں کے لیے سوراخ تھے۔ برج کے اوپر مارخور کا حنوط شدہ سر اپنے سینگ پھیلائے ایستادہ تھا۔ قلعے کی چھت مٹی کی تھی اوراس کی منڈیریں نہیں تھیں اس لیے ہزاروں فٹ نیچے دریائے ہنزہ تک بڑے آرام سے صرف چند قدم اٹھا کر ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ یہاں ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔ ہم کچھ دیر کھڑے تیز ہوا میں جھولتے رہے اور پھر واپسی کے لیے سیڑھیوں سے اترنے لگے۔
بلتت سے التت آنے والا راستہ مزید آگے جاکر پھر بلندیوں کی طرف اٹھتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ راستہ یہاں سے اونچا ہوتا ہوا ساڑھے نو ہزار فٹ کی بلندی پر دوئیکر کے مقام تک جاتا ہے جہاں مشہور مقام ایگلز نیسٹ Eagle’s Nest ہے۔ اس جگہ کا نام ایگلز نیسٹ یہاں موجود ایک ایسی چٹان کی وجہ سے پڑا ہے جس کی شکل ہو بہو کسی شاہین سے ملتی جلتی ہے۔ شاہین کے اسی قدرتی مجسمے کی وجہ سے اس مقام کو ایگلز نیسٹ (یعنی شاہیں کا آشیانہ) کہا جاتا ہے جہاں پہنچ کر اقبالؒ کے یہ اشعار یاد آتے ہیں،
ایگلز نیسٹ کی اس قدر بلندی کے باعث یہاں سے راکاپوشی، لیڈی فنگر پیک اور گولڈن پیک سمیت 11 چوٹیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اُس وقت تو ہمیں ایگلز نیسٹ کا پتا ہی نہیں تھا، البتہ بعد کے دوروں میں مجھے ادھر جانے کا بھی موقع ملا۔ اس وقت تو ہم نے صرف قلعہ التت ہی پر اکتفا کیا اور اسے دیکھ کر واپس کریم آباد کا راستہ لیا۔
کریم آباد پہنچتے پہنچتے سورج غروب ہوگیا اور یہ ہماری ہنزہ میں آخری رات تھی۔ اگلے دن ہم نے واپسی کا قصد کیا۔ انڈے پراٹھے کا ناشتہ کرکے ہوٹل ہنزہ اِن سے چیک آؤٹ کیا۔ تھیلے کاندھوں پر لادے، پیدل لڑھکتے نیچے شاہراہ قراقرم پر گنیش بس اسٹاپ پر پہنچے اور گلگت جانے والی سواری کے انتظار میں بیٹھ گئے۔
سڑک کے پار کھیت تھے، کھیتوں سے پرے گہرائی تھی اور گہرائی میں کہیں دریائے ہنزہ بہہ رہا تھا۔ دریا کے پار بھورے پہاڑوں کے پیچھے سفید راکاپوشی سر اٹھائے کھڑی تھی۔ دریا کے پرلے کنارے نگر کے پہاڑوں میں سے ایک اور دریا بھی آکر دریائے ہنزہ میں شامل ہوتا ہے۔ یہ وادی ہوپر کی طرف سے بہتا ہوا آتا ہے۔ وادی ہوپر اپنے گلیشیئر کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس وقت تو ہم گلگت واپس جارہے تھے، البتہ 30 سال بعد 2021ء میں مجھے ہوپر گلیشیئر دیکھنے کا بھی موقع ملا۔
کچھ ہی دیر میں گلگت جانے والی وین آگئی۔ ہم نے ہنزہ کی فضاؤں کو دوبارہ آنے کے وعدے کے ساتھ الوداع کہا اور گلگت روانہ ہوگئے۔ اگلے دن گلگت سے 18 گھنٹے سفر کرکے راولپنڈی اور پھر راولپنڈی سے دو دن کا سفر کرکے کراچی واپس پہنچ گئے۔ ہم کراچی پہنچ تو گئے تھے لیکن اپنا دل وہیں گلگت و ہنزہ میں چھوڑ آئے تھے۔ اب ہم ہنزہ سے مزید آگے پاک چین سرحد پر درّہ خنجراب تک جانا چاہتے تھے بلکہ ہمارا دل تو خنجراب سے بھی آگے چین جانے کے لیے مچل رہا تھا کیونکہ گلگت و ہنزہ میں ہمیں ایسے سیاح ملے تھے جنہوں نے ہمیں کچھ اور ہی داستانیں سنا دی تھیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان شاہراہ قراقرم کی تعمیر کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا بلکہ ابھی تو یہ صرف پاکستانی حدود میں ہی مکمل ہوئی تھی، چینی حدود میں اس پر کام تو ابتدائی مراحل میں تھا۔ البتہ اس نامکمل راستے پر بھی دنیا بھر کے سیاحوں نے سفر شروع کردیے تھے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ، تبت کے دارالحکومت لہاسا یا پھر ہانگ کانگ سے سفر شروع کرنے والے سیاح پورے چین سے گزر کر سنکیانگ کے آخری شہر کاشغر پہنچتے۔ پھر آگے بڑھتے ہوئے دنیا کے بلند ترین خطے ’پامیر‘ کے برف زاروں سے گزرتے ہوئے درّہ خنجراب پہنچ کر پاکستان میں داخل ہوتے اور اپنے سفر کو مزید جاری رکھتے ہوئے پاکستان سے ایران، ترکیہ، یونان، یوگوسلاویہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے ہوتے ہوئے اپنی منزلوں پر جا پہنچتے۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے اس طرح کے سفر ممکن ہی نہیں تھے۔ ہم نے جب ان سیاحوں سے قراقرم کے پاربسنے والی دنیا، سنکیانگ، کاشغر اور اُرومچی کی داستانیں سنیں تو ہمارا دل بھی وہاں جانے کو مچل گیا۔
کراچی واپس آتے ہی باسط، وسیم اور میں نے پہلی فرصت میں اپنے اپنے پاسپورٹ بنوائے اور بائی روڈ چین جانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ اس زمانے میں کراچی میں چین کا سفارت خانہ کینٹ اسٹیشن جانے والی سڑک پر ہوٹل مہران کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ ہم ویزا لگوانے کے لیے گئے تو چینی ویزا آفیسر نے ہمیں یونیورسٹی سے ضمانتی خط لانے کو کہا۔ مجھے اور باسط کو این ای ڈی یونیورسٹی اور وسیم کو کراچی یونیورسٹی سے باآسانی لیٹر مل گئے۔ ہم نے چینی ویزا اپلائی کیا جس کی فیس ان دنوں شاید 50 روپے تھی یا کچھ بھی نہیں تھی۔ چند دن میں ہی ویزا لگ گیا اور جون 1987ء میں، باسط، وسیم اور میں ایک بار پھر شمال کے بلندوبالا پہاڑوں کی طرف جارہے تھے، لیکن اب ہماری منزل ان پہاڑوں سے آگے، قراقرم کے پار، کاشغر تھی۔
پہلے کی طرح ہم ریل گاڑی کے ذریعے راولپنڈی پہنچے اور راولپنڈی سے نیٹکو کی بس میں شاہراہ قراقرم پر 18 گھنٹے کا سفر کرکے گلگت اور پھر ہنزہ پہنچ گئے۔ کریم آباد میں ایک دن قیام کرکے اگلے دن ہم نیچے گنیش اسٹاپ پر آگئے اور پاکستان کے آخری قصبے سُست کی بس کا انتظار کرنے لگے۔ سُست پہنچ کر ہمیں چین جانے والی گاڑی میں بیٹھنا تھا۔ نئی اور اجنبی منزلوں کا سوچ کر ہمارا دل ایک عجیب ہیجان میں مبتلا تھا۔
تھوڑی دیر بعد مقامی مسافروں اور ان کے اناپ شناپ سامان سے بھری ایک پرانی کھٹارا بس گلگت سے آنے والے راستے پر نمودار ہوئی اور چند جھٹکے لےکر ہمارے سامنے کھڑی ہوگئی۔ گنیش تک آنے والے یہاں اتر گئے اور آگے جانے والے نئے مسافر یہاں سے سوار ہوگئے۔ بس پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ پچھلے دروازے کے پاس مسافروں کے ٹرنک، بوریاں، کنستر اور گٹھڑیاں ایک ڈھیر کی صورت پڑی ہوئی تھیں۔ مجھے ایک کھڑکی والی سیٹ خالی مل گئی اور میں پھنس پھنسا کر اس میں فٹ ہوگیا۔ تھیلے کو میں نے سیٹ کے نیچے دھکیل دیا۔ باسط اور وسیم کو آخری سیٹ ملی۔ بس نے کچھ دیر وہیں گھر گھرانے کے بعد ایک جھری جھری لی اور حرکت میں آگئی۔ شاہراہِ قراقرم نے ایک طویل موڑ لیا۔ موڑ کے خاتمے پر دریائے ہنزہ کا پل آگیا۔ بس نے پل عبور کیا اور ہم دریا کے دوسرے کنارے پر رواں ہوگئے۔
ہم دریائے ہنزہ کے بہاؤ کی مخالف سمت جا رہے تھے۔ دریا کے پار ایک پہاڑ سیدھی دیوار کی طرح کھڑا تھا اور اس کی ہزار فٹ اونچی منڈیر سے التت کا قلعہ جھانک رہا تھا اور یہاں سے گڑیا کا گھروندہ لگتا تھا۔ چند ہی ماہ پہلے تو ہم نے اس قلعے سے نیچے جھانکا تھا جہاں ہمیں شاہراہِ قراقرم ایک باریک لکیر اور اس پر چلنے والی گاڑیاں ننھے کھلونے سی محسوس ہوئی تھیں۔ التت قلعے کے پیچھے اُلتر گلیشیئر سے اٹھنے والے سفید بادل ڈھلوانوں سے پھسلتے ہوئے نیچے تک آرہے تھے اور فضا میں بیک وقت ایک خوش کن مگر ساتھ ہی اداس کردینے والا خوابناک اندھیرا پھیل رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیرمیں بارش شروع ہوگئی۔ بس کی کھڑکیوں میں نصب بڑے بڑے سلائڈنگ شیشے کھٹاک کھٹاک کرکے نیچے گرادیے گئے اور ان کی بیرونی سطح پر بارش کے قطرے آنسوؤں کی طرح لڑھکنے لگے۔
ہم شاہراہ قراقرام کی مزید بلندیوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔ بس میں عطا آباد، ششکٹ، گلمت، پھسّو، مارخُن، گِرچہ اور سُست تک کے مقامی مسافر سوار تھے۔ یہ سب مقامی زبانوں گوجال، شینا، بروشسکی اور واخی میں مسلسل بولے جارہے تھے۔ میں کھڑکی سے ناک چپکائے باہر دیکھ رہا تھا۔ باہر پہاڑوں اور دریا کی رفاقت کو تو بارش نے دھندلا دیا تھا جبکہ بس کے اندر ایک باہمی شناسا دنیا آباد تھی۔ بارش کے قطروں کی لڑھکتی لہروں سے بھرے شیشوں کی وجہ سے یہ بس ہمیں پانی کے اندر تیرتی آبدوز لگ رہی تھی اور برساتی آنسوؤں والے اس سمندر کے پیچھے کہیں دور دریائے ہنزہ بہہ رہا تھا۔
’آپ کہاں جارہے ہیں جی؟‘ میرے برابر میں بیٹھے چمکتی آنکھوں والے ایک مقامی شخص نے مجھ سے سوال کیا۔
’سُست‘ میں بولا۔’اور پھر آگے خنجراب‘۔
اُس کی آنکھیں مزید چمکنے لگیں۔’میرا نام نذیر ہے جی‘ وہ بولا۔ ’میں اُدھر سست میں دکان کرتا ہوں‘۔
’میرا نام عبیداللہ ہے۔ پیچھے میرے دوست ہیں باسط اور وسیم۔ ہم کراچی سے آئے ہیں‘۔ میں نے مختصراً بتایا۔
’کراچی سے!۔۔۔ ہو شاباشے‘ وہ اپنی سیٹ پراچھل سا گیا۔’بڑالمبا سفر کیا جی ’۔
پھر اپنا چہرہ میرے قریب لاکر بولا، ’اُدھر سست میں ہوٹل وغیرہ کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اُدھر میرے رشتے داروں کے ہوٹل ہیں، سب اپنے آدمی ہیں‘۔
میں نے اسے بتایا کہ میں کراچی سے یہاں تک تقریباً سارا پاکستان عبور کرکے پہنچا ہوں اور مجھے ہر جگہ اپنے ہی آدمی ملے ہیں۔ اس ملک میں سب اپنے آدمی ہیں اس لیے میں بالکل پریشان نہیں ہوں۔
بارش کی وجہ سے بس کے شیشے دھندلے ہوچکے تھے اور اس رم جھم اندھیرے نے بس کی دنیا کو بھی نیم تاریک کردیا تھا۔ ہم عطاآباد کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اس وقت تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آج سے 24 سال بعد اس جگہ زلزلہ آئے گا، پہاڑ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں گرے گا، دریا کا بہاؤ رک جائے گا اور شاہراہِ قراقرم گہرے پانیوں میں ڈوب جائے گی۔ 4 جنوری 2010ء کا دن عطاآباد والوں کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا۔ اس دن جب یہاں ایک پہاڑ ٹوٹ کر دریا میں گرا تھا تو اس میں جہاں 19 افراد ہلاک ہوئے وہیں شاہراہ قراقرم کا 24 کلومیٹرز کا حصہ بھی ملبے میں دب گیا تھا اور دریا کا بہاؤ بھی پانچ مہینے کے لیے رک گیا تھا۔
بہاؤ رک جانے کے باعث پانی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف بڑھتا چلا گیا اور کچھ ہی دنوں میں ایک طویل جھیل کی شکل اختیار کرلی۔ اس جھیل کی وجہ سے میلوں علاقہ زیرِآب آگیا۔ جھیل میں نہ صرف شاہراہ قراقرم ڈوبی بلکہ عطاآباد بھی ڈوبا اور ہزاروں افراد بھی بے گھر ہوئے جبکہ اس جھیل کا نام عطاآباد جھیل پڑ گیا۔ آج ہنزہ کریم آباد سے 30 کلومیٹرز آگے آئیں تو نیلے پانی کی یہ سمندر نما جھیل سامنے آجاتی ہے۔ عطاآباد جھیل 21 کلومیٹرز طویل اور ساڑھے تین سو فٹ سے زیادہ گہری ہے۔
پہاڑی علاقوں میں دریا تیزی کے ساتھ بلندیوں کی طرف سے نیچے اترتے ہیں۔ انہی بلندیوں کے باعث پہاڑی دریاؤں کا پانی تیزی سے نیچے کی طرف لپکتا ہوا پاکستان کے میدانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے۔ جب دریائے ہنزہ کے راستے میں پہاڑ گرا تو پانی رک گیا تھا اور اس کی سطح آہستہ آہستہ بلند ہونا شروع ہوئی۔ یہاں پانی کے ایک انچ بلند ہونے کا مطلب پیچھے پھیلاؤ میں کئی میٹر پھیل جانا ہوتا ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے پانی چڑھتا رہا، پیچھے وادی میں بھی اس کا پھیلاؤ بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ وہ پورا پانی تقریباً 20 کلومیٹرز کے علاقے میں پھیل گیا۔ یہ پانی اس وقت تک چڑھتا رہا جب تک کہ وہ دریا میں گرنے والے پہاڑ کے ملبے کو عبور کرنے کے قابل نہ ہوا۔
نتیجتاً ایک ایسی طویل جھیل نمودار ہوئی کہ جس کا پاٹ باقی دریا سے کئی گنا زیادہ وسیع تھا۔ پانی کے اس بلندی پر آنے کی وجہ سے پیچھے کئی گاؤں بھی ڈوبے اور شاہراہ قراقرم بھی اس میں غائب ہوگئی۔ اگلے 5 سال یہاں کے باسیوں کے لیے کڑی آزمائش تھے کیونکہ یہاں سے گزرنے کا بس ایک ہی ذریعہ رہ گیا تھا۔ اب مال و اسباب سمیت صرف کشتیوں کے ذریعے ہی وادی کے اگلے حصوں تک پہنچنا ممکن تھا۔ پھر یہاں سے آگے وادی کے نشیبی علاقوں کے لیے بھی یہ خطرہ منڈلا رہا تھا کہ اگر دریا کے راستے میں گرے پہاڑ کا ملبہ کسی وقت پانی کے زور سے اچانک ہٹ گیا تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سیلابی ریلہ آگے والے علاقوں کے لیے بھی تباہی لا سکتا تھا لیکن اللہ کی مہربانی سے ایسا نہ ہوا اور ایک دن دریا کے پانی نے گرے ہوئے پہاڑ کے ملبے کو آہستگی سے عبور کیا اور آگے کی طرف سکون سے بہنے لگا۔
جب دریا میں پہاڑ گرا تھا اور پانی بھرنا شروع ہوا تھا تو جو لوگ صدیوں سے یہاں رہ رہے تھے انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اس صورت میں کیا ہوتا ہے۔ جب پانی پھیلتا ہے تو سب کچھ نگل جاتا ہے۔ ہر چیز اس کے اندر ڈوب جاتی ہے۔ حکومت نے اعلان کردیا کہ لوگ اپنے گھروں سے نکل جائیں کیونکہ یہ سب پانی میں ڈوب جائیں گے۔ لوگوں کو سرکار کی طرف سے متبادل جگہیں فراہم کی گئیں تاکہ وہ وہاں جا کر آباد ہوسکیں۔ انہوں نے اپنے ہرے بھرے باغات، آباد مکانوں اور آبائی قبرستانوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے چھوڑا اور رفتہ رفتہ سب یہاں سے کوچ کرگئے۔ آج یہاں آنے والے سیاح عطاآباد جھیل کی دلکشی میں کھو کر رہ جاتے ہیں لیکن انہیں اس المیے کا بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ جس سے یہاں کے لوگ گزرے۔ ان لوگوں کو تو یہاں اپنا سب کچھ پانی میں ڈوبتا چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔
شاہراہ قراقرم کو دوبارہ رواں کرنے کے لیے چین کی مدد سے پہاڑوں کے اندر چار حصوں میں 8 کلومیٹرز طویل سرنگیں بھی تعمیر کی گئیں جو خود ایک عجوبے سے کم نہیں۔ ستمبر 2015ء میں ان سرنگوں کا افتتاح ہوا اور زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر چل پڑی۔ آج عطاآباد جھیل اپنے خوبصورت فیروزی رنگ کے باعث ایک ایسا حسین و دلفریب منظر پیش کرتی ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ وہ علاقہ کہ جہاں اس جھیل کی تشکیل سے پہلے لوگ دائیں بائیں دیکھے بغیر اونگھتے ہوئے گزر جاتے تھے، اب یہاں ان کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ اب یہ جگہ دنیا کی خوبصورت ترین سیر گاہ بن گئی ہے۔
میلوں وسعت میں پھیلا ہوا یہ خوبصورت نیلگوں پانی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں، اس کے کنارے پر بنے عالیشان ہوٹلز میں ٹھہرتے ہیں، رنگ برنگی کشتیوں میں جھیل کی سیر کرتے ہیں، کناروں پر چہل قدمی کرتے ہیں اور یہاں سے خوش ہوکر واپس جاتے ہیں۔ یہاں گزارے گئے وقت کو وہ وہ زندگی کے یادگار لمحات سمجھتے ہیں۔ بہت کم ہی لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اس جھیل کے نیچے بہت کچھ ایسا دفن ہے کہ جس کے لیے یہاں والوں نے آنسو بہائے تھے۔ لیکن یہ تو میں نے کئی سال بعد کی بات کردی۔ اِس وقت تو ہم ایک صحیح سلامت شاہراہ قراقرم پر سفر کررہے تھے اور اب ششکٹ کا اسٹاپ آنے والا تھا۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔