نقطہ نظر

سی پیک سیاحت: وادی ہنزہ اور التِت بلتِت (گیارہویں قسط)

شاہراہِ قراقرم پر ویو پوائنٹ سے راکاپوشی کا پہاڑ اس قدر قریب نظر آتا ہے کہ لگتا ہے ہم وہیں کھڑے کھڑے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی ازلی برفوں کو چھو لیں گے۔

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


ہماری گاڑی شاہراہِ قراقرم پر خشک پہاڑوں کے دامن میں ہنزہ کی طرف دوڑتی جارہی تھی۔ مناظر کی یکسانیت دل کو بیزار کررہی تھی کہ یکایک ایک جھماکا ہوا۔ اردگرد کے سارے خشک پہاڑ یکبارگی ایک پُرعظمت و شعلہ صفت ہستی کی قدم بوسی کو جھکے، ایک لمحے کے لیے وہ برف کی شہزادی ہم پر آشکار ہوئی لیکن ہم ابھی اس کے سحر میں پوری طرح گرفتار بھی نہ ہوئے تھے کہ خشک پہاڑوں نے پھر آگے بڑھ کر اس برف کی شہزادی کو نگاہوں سے اوجھل کردیا۔

یہ ایک زبردست جلوہ تھا جس سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں، ایک واہمے کی صورت سامنے آیا اور اگلے ہی لمحے پہاڑوں کے پیچھے کہیں کھو گیا۔ میں حیرت سے آنکھیں کھولے ان ظالم پہاڑوں کی دیوار کو تک ہی رہا تھا کہ وہ دیواریں ایک بار پھر اس حسنِ بے پروا کی قدم بوسی کو جھکیں اور وہ برف کی حویلی، وہ سفید محل پھر نمودار ہوا کہ جس کی مرمریں دیواریں دھوپ میں دھواں دیتی ایک بلند نوکدار چوٹی کی طرف بڑھتی چلی جارہی تھیں۔

یہی وادی نگر کی مشہور چوٹی ’راکاپوشی‘ تھی کہ جو وقفے وقفے سے اپنے جلوے دکھا کر سیاحوں کو اپنے حسن و جمال کا لحظہ بہ لحظہ قائل کرتی ہے اور انہیں آہستہ آہستہ اپنا عادی بناتی ہے کیونکہ اتنا حسن و جمال ہمارا بدصورتی کا مارا دل یک بہ یک برداشت نہیں کرسکتا۔

ہم سب سٹپٹائے اور آنکھیں پھیلائے راکاپوشی کی طرف دیکھ رہے تھے مگر اگلے لمحے وہ پھر اوجھل ہوگئی۔ مگر پھر غلمت آ گیا جہاں راکاپوشی ویو پوائنٹ تھا۔ شاہراہِ قراقرم پر اس واقع مقام سے راکاپوشی کا پہاڑ اس قدر قریب نظر آتا ہے کہ لگتا ہے ہم وہیں کھڑے کھڑے صرف اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی ازلی برفوں کو چھو لیں گے۔ ہنزہ جانے والا ہر سیاح یہاں ضرور رکتا ہے اور راکاپوشی کا یہ دلفریب نظارہ کرتا ہے۔

25 ہزار 551 فٹ بلند راکاپوشی، پاکستان کی 12 ویں اور دنیا کی 27 ویں بلند ترین چوٹی ہے۔ راکاپوشی دنیا کا واحد پہاڑ ہے جو اپنے دامن سے لے کر اپنی 25 ہزار فٹ بلند چوٹی تک پورا کا پورا ایک ہی نگاہ میں نظر آجاتا ہے۔ لفظ ’راکاپوشی‘ کا مطلب ہے چمکتی دیوار۔ اس کا دوسرا نام ’دومانی‘ بھی ہے یعنیٰ بادلوں کی ماں۔ راکاپوشی کو پہلی بار 1958ء میں دو برطانوی کوہ پیماؤں مائک بینکس اور تھامس والٹن نے سر کیا تھا۔

ہم نے کچھ دیر راکاپوشی ویو پوائنٹ سے برفیلی بلندیوں کا نظارہ کیا اور پھر آگے چل پڑے۔ ابھی چند کلومیٹر ہی آگے آئے ہوں گے کہ سڑک نے بائیں طرف ایک موڑ لیا اور دریائے ہنزہ کو ایک بے ستون محرابی پل سے عبور کرکے دوسرے کنارے پر آگئے۔ یعنی ہم وادی نگر سے نکل کر وادی ہنزہ میں داخل ہوگئے۔ اب ہماری گاڑی وادی ہنزہ میں دوڑ رہی تھی۔ یہاں چھوٹے چھوٹے گاؤں گزر رہے تھے۔ دریا کے کنارے پہاڑی ڈھلوانیں بلندی تک سبزے سے ڈھکے سیڑھی نما کھیتوں میں چھپی ہوئی تھیں اور یہ منظر اتنا عجیب اور پراسرار تھا کہ جس کا اندازہ میدانوں میں رہنے والے، دیواروں میں مقید نگاہوں والے بالکل بھی نہیں کرسکتے۔ یہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں ایک ہی منظر لگتا ہے حالانکہ یہ لا تعداد مناظر کا مجموعہ ہے۔

کیا اس منظر کے بارے میں صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ یہ بس دو پہاڑوں کے بیچ دریا کنارے ایک سڑک، کچھ ڈھلوانی کھیت ہیں اور کچھ پہاڑی گھروندے ہیں؟ بس؟ لیکن کیا واقعی بس؟ کیا اس پورے منظر کو واضح کرنے کے لیے بس یہ چند الفاظ کافی ہیں؟ کیا ان دو طرفہ پہاڑوں کے درمیانی علاقے کی چوڑائی، ان ڈھلوانوں پر موجود آبادیوں کی اونچائی اور اس وسیع پھیلاؤ کا یہ تھری ڈی منظر، کیا کسی کے سامنے صرف چند الفاظ کہہ دینے سے اس پر واضح ہوجائے گا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟

یہ لینڈاسکیپ ایک واحد منظر بن کر نگاہوں کے سامنے بالکل اسی طرح دھرا ہوتا ہے جس طرح حبیب بینک پلازا کی 22ویں منزل سے دیکھیں تو پورا کراچی نظروں کے سامنے دھرا ہوتا ہے تو کیا ہم حبیب بینک پلازا پر کھڑے ہوکر کراچی کوایک چھوٹا شہر کہہ سکتے ہیں؟ راکاپوشی کی چھاؤں میں ہنزہ جانے والی ایک ویگن کی کھڑکی سے سارا منظر ایک ہی جھلک میں نظرآ رہا تھا، یہ منظر اتنا بڑا تھا کہ نظروں میں سمانے کے لیے اسے مائیکرو بنانا پڑتا ہے اور پھر اس کی یاد عمر بھر کے لیے ایک مائیکرو فلم کی طرح ذہن میں محفوظ رہ جاتی ہے۔

سامنے بہت دور، مگر بالکل قریب نظر آنے والا ایک بے ہنگم و بلند قلعہ نما پہاڑ اُلتر ہے جس کی کٹی پھٹی منڈیروں پر برف ڈھیروں کی صورت جمع رہتی ہے۔ ان برفانی منڈیروں کے قریب آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ یہ منظر ویسے تو نگاہوں کے بالکل سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح موجود ہے لیکن آج تک کوئی بھی وہاں نہیں پہنچ سکا۔ آخرکیوں؟ کیا وہ بہت دور ہے؟ اگر دور ہے تو پھر اتنا قریب کیوں نظر آتا ہے؟ اس سوچ میں ہی عقل چکرا کر رہ جاتی ہے۔

دریائے ہنزہ میں بائیں طرف سے ایک نالا آکر شامل ہورہا تھا۔ وہ پہاڑوں کے کافی اندر سے نکل کر دریا سے ملنے آرہا تھا اور ہمیں اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے اسے عبور کرنا تھا۔ یہ نالا عبور کرنے کے لیے سڑک کو ایک پل پر سے گزرنا ہے مگر وہ پل خاصا اندر جا کر پہاڑوں کی جڑ میں ہے۔ اس پل تک جانے کے لیے گاڑی نے جیسے ہی اپنا رخ اندر کی جانب موڑا، ایک زبردست دھماکے کی آواز آئی۔ گاڑی سے کچھ آگے گردوغبار کے مرغولے فضا میں ابھرنے لگے۔ ڈرائیور نے فوراً بریک لگایا اور گاڑی روک دی۔ مسافر اس دھماکے سے بدحواس ہوکر باہر نکل آئے تھے۔ ہمارے پیچھے آنے والی گاڑیاں بھی رک گئی تھیں۔ ڈرائیور سڑک کے کنارے ایک پتھر پر جا کر اطمینان سے بیٹھ گیا تھا، میں اس کے پاس گیا۔

’لینڈ سلائڈنگ ہوئی ہے صاحب، سڑک بند ہوگئی ہے‘، وہ میری طرف دیکھ کریوں بولا جیسے کچھ بھی نہیں ہوا ہو۔

’تو اب کیا ہوگا؟ کیا ہمیں واپس جانا ہوگا؟‘ میں تشویش سے بولا۔

’جی صاحب ہمیں تو واپس جانا ہوگا کیونکہ یہ کافی بڑا لینڈ سلائڈ ہے۔ ابھی تو بلڈوزر بھی نہیں آیا۔ صفائی میں دو تین گھنٹے لگ سکتے ہیں، لیکن آپ پریشان نہیں ہوں۔ آپ لوگ تو پیدل اس سلائڈ سے گزر سکتے ہیں۔ دوسری طرف سے آپ کو سوزوکی مل جائے گی‘، اس نے مجھے تسلی دی۔

میں نے دیکھا کہ مقامی مسافر اپنے بال بچوں اور سازو سامان سمیت گاڑیوں سے اتر کر پیدل ہی سلائڈنگ ایریا کو عبور کرنے جارہے ہیں۔ گاڑیاں تقریباً خالی ہوچکی تھیں۔ لاچار ہم تینوں دوستوں نے بھی اپنے اپنے تھیلے کاندھوں پر لادے اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ کچھ آگے ایک موڑ تھا جس کے پیچھے کہیں سے گردوغبار اٹھ رہا تھا۔ ہم جیسے ہی اس موڑ سے آگے آئے، پورا ماجرا سامنے آگیا۔

شاہراہِ قراقرم کی تعمیر کے لیے ماضی میں جو بارودی دھماکے کرکے یہ راستہ نکالا گیا تھا، وہ دراصل دھماکے ان چٹانوں کی فطرت میں دخل اندازی تھے۔ اس دخل اندازی نے ان پہاڑوں کے دل توڑ کر انہیں کھوکھلا اور شکستہ کردیا ہے چنانچہ یہ بُھربھری چٹانیں گاہے بہ گاہے ریزہ ریزہ ہوکر بکھرتی ہیں اورلڑھکتی ہوئی شاہراہِ قراقرم پر آکر سجدہ ریز ہوجاتی ہیں۔

اس وقت بھی سڑک پر لاتعداد بڑے بڑے پتھر اوپر سے لڑھک کر آرہے تھے اور ان کے زور سے سڑک کا کچھ حصہ ٹوٹ کر سیکڑوں فٹ نیچے دریا کی طرف بہہ گیا تھا۔ یہ خشک لینڈ سلائڈنگ تھی۔ بارش میں گیلی لینڈ سلائڈز بھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہر طرف بری طرح کیچڑ پھیل جاتی ہے۔ اب تک پہاڑ سے مٹی اور پتھر خوفناک آوازوں کے ساتھ گررہے تھے۔ یہ آوازیں مزید سلائڈنگ کا پیش خیمہ تھیں مگر لوگ مٹی پتھر کی اس بوچھاڑ کے باوجود بچتے بچاتے سلائڈ پر سے تیز تیز گزرتے جارہے تھے کیونکہ دوسری طرف سوزوکیاں اور ویگنیں آچکی تھیں جو ان مسافروں کو بھر بھر کر آگے روانہ ہورہی تھیں۔

چند لمحوں کے لیے سنگ باری کا یہ سلسلہ تھما تو ہم نے بھی اللہ کا نام لیا اور کار زارِ عشق میں کود پڑے۔ بڑے بڑے پتھروں کو پھلانگتے ہوئے دل بھی سینکڑوں ضربات فی منٹ کے حساب سے دھڑکنے لگا۔ نگاہیں سامنے تھیں اور کان معمولی سے معمولی آہٹ کو بھی فوراً سن لینے کے لیے چوکنے تھے۔ زبان آیت الکرسی کا ورد کررہی تھی۔ اچانک ایک گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ میری آنکھیں فوراً پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئیں اور میں نے دیکھا کہ اوپر سے گردوغبار کا ایک نیا ریلا پھر نیچے کی طرف آرہا ہے۔ دل کی دھڑکنوں نے اچانک دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسنا شروع کردیا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے کاندھوں کو پر لگ گئے ہوں۔ چند لمحوں میں ہی میں کسی ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا ہوا صدیوں کی اس مسافت کو سیکنڈز میں عبور کرکے سلائڈ ایریا سے باہر آ چکا تھا۔

باسط، وسیم، اشفاق بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہوئے آ پہنچے۔ محفوظ جگہ پر آکر ہم نے اپنے پیچھے دیکھا تو خوف سے آنکھیں پھیل گئیں۔ چند لمحے پہلے ہم جس جگہ سے گزرے تھے، وہاں اب دھڑا دھڑ پتھر برس رہے تھے۔

ہم ابھی وہیں کھڑے تھے کہ اتنے میں ایف ڈبلیو او کے بلڈوزر آگئے اور سڑک کی صفائی کا کام شروع ہوگیا۔ طاقتور ایکس کیویٹر منہ زوری کے ساتھ بڑے بڑے وزنی پتھروں کو دریا کی طرف دھکیل رہا تھا۔ ایک فوجی منہ میں سیٹی لیے اوپر کی جانب نظریں جمائے کھڑا ہوگیا۔ جیسے ہی اوپر کوئی گڑبڑ محسوس ہوتی اور کوئی پتھر لڑھکتا نظر آتا، وہ فوراًسیٹی بجا دیتا۔

دریائے ہنزہ کے دوسرے کنارے پر سیڑھی در سیڑھی کھیتوں کا ایک وسیع سلسلہ پھیلا ہوا تھا جس میں کہیں کہیں مکانات گھروندوں جیسے نظر آرہے تھے۔ ایک مقامی مسافر میرے قریب کھڑا تھا۔

’یہاں سے ہنزہ کتنی دور ہے؟‘ میں نے اس سے پوچھا۔

وہ مسکرا کر بولا کہ ’یہ تو پورا ہی ہنزہ ہے جی۔ ہنزہ کسی ایک جگہ کا نام نہیں، یہ تو پوری وادی ہے۔ یہاں حسن آباد ہے، مرتضیٰ آباد ہے، علی آباد ہے، گنیش ہے، کریم آباد ہے۔ یہ سب ہنزہ ہے‘، اس نے اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے مختلف مقامات کی نشاندہی کی۔

’یہ جو اوپر آپ کو برف نظر آرہی ہے، یہ اُلتر گلیشیئر ہے۔ اس کے نیچے کریم آباد ہے اور کریم آباد کے نیچے گنیش اور علی آباد ہے۔ آپ کریم آباد جائیں گے جو گنیش سے اوپر ہے۔ وہاں کے لیے گنیش سے ایک راستہ اوپر کی طرف جاتا ہے‘۔

اچانک ہمیں مسلسل سیٹی کی آواز نے چونکا دیا۔ راستہ صاف ہوچکا تھا اور ایک فوجی سیٹی بجا کر گاڑیوں کو گزرنے کا اشارہ کررہا تھا۔ ہماری گفتگو کے دوران بلڈوزر نے بڑے پتھر ہٹا کر اتنا راستہ کھول دیا تھا کہ ایک وقت میں ایک گاڑی نکل سکے۔ ہماری گاڑی بھی پتھروں کے ڈھیر پر ہچکولے کھاتی ہوئی آرہی تھی۔ ڈرائیور نے ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ہم فوراً لپک گئے۔

یہاں بھی سڑک بہت بلند تھی اور دائیں طرف نیچے گہرائیوں میں بہتا دریائے ہنزہ یہاں سے ہمیں ایک ایسا مختصر دھارا نظر آتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ اسے محض چند چھلانگیں لگا کر عبور کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سامنے اُلتر کی بے ہنگم بلندیوں کے دامن میں بسا کریم آباد یہاں سے بس ایک ڈیڑھ کلومیٹر ہی دور لگتا تھا حالانکہ وہ یہاں سے کم از کم 20 کلومیٹر دور ہوگا۔

تھوڑی دیر میں ایک شہر نما چھوٹا سا قصبہ علی آباد آگیا۔ علی آباد کے بعد شاہراہ کے دونوں طرف سبز ڈھلوانیں اور اونچے اونچے سفیدے کے درخت شروع ہوگئے مگر پھر فوراً گنیش آگیا جوکہ ہمارا آخری اسٹاپ تھا۔ گاڑی کھڑی ہوئی تو اس کے انجن سے زور سے گھڑ گھڑ کی آواز آئی اور پھر وہ خاموش ہوگیا۔ ہم ہنزہ پہنچ چکے تھے۔

شاہراہِ قراقرم یہاں سے ایک بڑا سا دائرہ بناتی ہوئی آگے کی طرف ایک پہاڑ کے پیچھے گم ہورہی تھی۔ یہاں سڑک کے دونوں طرف کھیت تھے اور کھیتوں میں گندم کے سنہری خوشے لہلہا رہے تھے۔ بس اسٹاپ کے پاس شاہراہِ قرقرام کی تعمیر کے دوران جاں بحق ہونے والے ہنزہ کے جوانوں کی یادگار بنی ہوئی تھی۔ یادگار کے پہلو میں سے ایک کچا راستہ اوپر کی طرف اٹھ رہا تھا۔ اوپر جہاں کریم آباد تھا۔

کریم آباد وادی ہنزہ کا صدر مقام ہے جہاں والیانِ ہنزہ کے نئے اور پرانے محلات بھی ہیں اور ہوٹلز اور سیاحتی سہولیات بھی وہیں پائی جاتی ہیں۔ کچے راستے کے شروع میں ’کریم آباد 3 کلومیٹر‘ کا سنگ میل اس عمودی مسافت کی نشاندہی کررہا تھا۔ کریم آباد کا قدیم نام ’بلتت‘ تھا۔ یہاں بلتت کے ساتھ ہی دوسرا قصبہ ’التت‘ بھی ہے۔ ہنزہ قدیم خودمختار ریاست تھی جس کا سربراہ ’میر‘ کہلاتا تھا۔

900 سال قدیم ریاستِ ہنزہ کی حدود شاہراہِ قراقرم پر موجود قصبے نومل سے شروع ہوکر درّہ خنجراب سے آگے سطح مرتفع پامیر تک ہوا کرتی تھیں۔ تاریخ کے مطابق 17ویں صدی میں میر شہباز خان، میر شاہ بیگ خان، میر شاہ خسرو خان، میر مرزا خان، میر سالم خان، میر غضنفر علی خان اور میر غزن خان سے لےکر 19ویں صدی کے آخر یعنیٰ 1891ء تک میر صفدر علی خان والیانِ ہنزہ رہے۔

1891ء میں جب انگریزوں نے ہنزہ پر حملہ کیا تو میر صفدر علی خان سنکیانگ کی طرف چلے گئے۔ ان کی غیرموجودگی میں انگریزوں نے ریاست پر قبضہ کرلیا اور 1892ء میں میر نظیم خان کو ایک بے اختیار والی ہنزہ کے طور پرتعینات کردیا گیا۔ میرنظیم خان کے بعد 1938ء میں میر غزن خان دوم اور 1945ء میں میر محمد جمال خان کی بطور والی ہنزہ تعیناتی ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد میر جمال خان 1976ء تک والی رہے۔ یہ آخری والی ہنزہ تھے کیونکہ 1974ء میں ریاست ہنزہ کا پاکستان سے الحاق ہوگیا تھا اور گلگت و بلتستان کو وفاقِ کے زیرِ انتظام کردیا گیا تھا۔ موجودہ علامتی والی ہنزہ میر غضنفر علی خان دوم ہیں۔

وادی ہنزہ سطح سمندر سے 8 ہزار فٹ بلند ہے۔ یہ علاقہ صدیوں سے وسطی ایشیا، چین اور کشمیر کے درمیان ایک اہم تجارتی پڑاؤ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بلتت یعنی کریم آباد پون صدی تک ریاست ہنزہ کا دارالحکومت رہا۔ اس سے پہلے ریاست کا صدر مقام التت ہوا کرتا تھا۔ اس دور کی دو عمارتیں قلعہ التت اور قلعہ بلتت جوکہ والیانِ ریاست کی قیام گاہیں تھیں، آج بھی یہاں موجود ہیں۔

کچھ مقامی روایات کے مطابق التت اور بلتت کے باسیوں کا آبائی تعلق ترکستانی قبیلے ’ہُن‘ سے تھا اور اس بستی کا قدیم نام بھی ’ہنوکوشل‘ (یعنی ہنوں کا گاؤں) تھا۔ ممکن ہے اسی ہُن قوم سے نسبت کی وجہ سے یہ علاقہ ہنزہ کہلایا ہو۔ خیر یہ تو تاریخ کی گنجلک باتیں ہیں۔ ہم حال میں واپس آتے ہیں جہاں اس وقت ہم شاہراہِ قراقرم پر گنیش کے بس اسٹاپ پر کھڑے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔

اُس وقت کریم آباد تک جانے کے دو ذرائع تھے۔ ایک تو جیپ تھی جو اوپر پہنچانے کا اچھا خاصا معاوضہ لے رہی تھی اور دوسرا ذریعہ یہی تھا کہ ہم اپنے تھیلے کاندھوں پر چڑھا کرخود کو سانس پُھلا دینے والے ایک عمودی سفر کے لیے تیار کرلیں۔

’جیپیں سیرو تفریح کرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں اور پیدل سفر سیاحوں کا شیوہ رہا ہے کیونکہ سیاح صرف تفریح نہیں کرتا بلکہ تکلیف بھی اٹھاتا ہے‘، یہ سوچ کر ہم نے خود کو سیاح کے عظیم مرتبے پر فائز کیا اور اللہ کا نام لے کر پیدل اس کچی پگڈنڈی پر چل دیے جو خوبانی کے درختوں میں گھری بل کھاتی ہوئی اوپر اٹھ رہی تھی۔ پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ ایک گدلے مٹیالے پانی کا تیز رفتار نالا شور مچاتا نیچے جارہا تھا۔ یہ نالا کہیں کہیں آبشار کی صورت میں گررہا تھا جہاں اس کی پھواریں دور دور تک بکھر کر راستے کو کیچڑ زدہ کر رہی تھیں۔

ہم ایک جگہ پھولتی سانس پر قابو پانے کے لیے رکے اور پیچھے طے کیے ہوئے راستے کو دیکھنے لگے۔ گنیش کا بس اسٹاپ اب بہت نیچے نظر آتا تھا اور کھیتوں میں کروٹیں لیتی شاہراہِ قراقرم یوں لگ رہی تھی جیسے گھاس میں سے کوئی سانپ گزررہا ہو۔ شاہراہِ قراقرم یہاں سے آگے گلمت، پھسّو اور سست سے گزرتی ہوئی 16 ہزار فٹ بلند درّہ خنجراب کی طرف چلی جاتی ہے۔ دریائے ہنزہ کے پار والے پہاڑوں کے اوپر سے راکاپوشی کی چوٹی جھانک رہی تھی۔ شام کی زرد ہوتی روشنی میں اس کی برفانی چوٹی کسی بلب کی طرح چمک رہی تھی۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔